Last episode**راہ محبت****ایشاءگل****قسط 12**
وہ جانتی تھی کہ اس وقت معیز گھر پے ہی ہوگا اور ایسا ہی ہوا معیز گھر پر تھا اور اسے لان میں ہی کرسی پر بیٹھا مل گیا ناہید نے اس کی طرف آتے ہوئے کہا۔ہائے ڈیر کزن کیسے ہو۔۔(بلکل اسی انداز سے جیسے معیز کہا کرتا تھا) تم یہاں۔۔۔مجھے تو لگا تھا کہ اب کبھی تم اس گھر میں قدم ہی نہیں رکھو گی۔معیز نے حیران ہوتے ہوئے اس پر طنز کیا۔ناہید کے بڑھتے قدم وہیں رک گئے پھر پھر وہ جلد ہی خود کو سنبھالتی ہوئی بولی۔کیوں تمہیں ایسا کیوں لگا۔۔۔کیوں کہ بہت برا جو لگتا ہوں میں تمہیں۔۔معیز نے پھر طنز کیا۔ناہید نے اسے غور سے دیکھا بڑھی شیو آنکھوں کے نیچے ہلکے (رت جگے کی نشانی ) سرخ آنکھیں بکھرے سے بال اوربکھرا سا حلیہ۔معیزیہ کیا حالت بنا رکھی ہے تم نے اپنی۔ناہید کو اسکی یہ حالت دیکھ کر بہت دکھ ہوا۔ارے واہ تمہیں میری فکر کب سے ہونے لگی۔۔۔(اف پھر سے طنز ) مجھے تمہاری فکر پہلے بھی تھی اور اب بھی ہے اور یہ کیا تم مجھ پر طنز پے طنز کئے جا رہے ہو نارمل انسانوں کی طرح بات کیوں نہیں کرتے۔مس ناہید آپ نارمل رہنے دیں گیں تو نارمل انسانوں کی طرح بات کروں گا ناں پہلے خود ہی ایسی حالت کرتی ہو اور پھر پوچھتی ہو کہ کیا حالت بنا رکھی ہے تم نے اپنی اور اوپر سے یہ بھی کہ کیا مزاج ہیں میرے۔۔۔واہ کیا انداز ہے تمہارا مجھے پسند آیا۔معیز نے کاٹ دار لہجے میں کہا۔معیز کے اس لہجے سے ناہید کو اپنے دل میں سوئیاں پیوست ہوتی محسوس ہوئیں۔معیز پلیز ایسے بات مت کرو مجھے تکلیف ہوتی ہے۔ناہید نے تڑپ کر کہا۔تو اور کیسی باتیں کروں کچھ کہنے لائک چھوڑا ہے تم نے مجھے اور کیوں آئی ہو تم یہاں کیا میری بے بسی کا تماشا دیکھنے آئی ہو۔معیز تو جیسے پھٹ پڑا۔ناہید ایک دم ڈر کر پیچھے ہٹی کیوں کہ معیز اب اس کے قریبہی کھڑا تھا اور تقریباً کھا جانے والی نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔معیز پلیز مجھے ایسے مت دیکھو مجھے تمہاری ایسی نظروںکی عادت نہیں ہے میں برداشت نہیں کر پاؤں گی ان نظروں کو۔ناہید پھوٹ پھوٹ کر رو دی تو معیز ایک دم سے ڈھیلا پر گیا۔یہ تو طے تھا کہ چاہے کچھ بھی ہو معیز اس کے آنسو کبھیبرداشت نہیں کر سکتا تھا۔ناہید کے بہتے آنسو اسے اپنی سب سے بڑی کمزوری محسوس ہوئے۔آج ناہید اسے حیران کر رہی تھی مگر وہ اپنے غصے اور ناراضگی میں اسکی تبدیلی پر غور ہی نا کر سکا۔ٹھہر ٹھہر کر ہاتھ اٹھاتے ہوئے اس نے ناہید کے چہرے سے اس کے ہاتھ دونوں ہاتھ ہٹائے جن کی وجہ سے وہ اپنے چہرے کو چھپائے ہوئے تھی۔اب یہ رونا دھونا کس لئے۔معیز نے ابھی بھی سخت مگر دھیمے لہجے میں پوچھا۔وہ اس لئے کہ مجھ پر ظاہر ہو چکا ہے کہ میں تمہاری ناراضگی برداشت نہیں کر سکتی اور آج میں تمہاری ناراضگی ہی دور کرنے آئی ہوں۔ناہید نے رونے کے دوران کہا۔اور تمہیں لگتا ہے کہ میں اپنی یہ ناراضگی ختم کر دوں گا معیز نے عجیب نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا جیسے یہ سب باتیں اسے مذاق اور جھوٹ لگ رہی ہوں۔ہاں مجھے یقین ہے اس بات کا کہ تم مجھ سے اپنی ہر ناراضگی دور کر دو گے جب تمہیں یہ معلوم ہوگا کہ۔۔۔۔ناہید بولتے ہوئے رکی جیسے سانس لے رہی ہو۔۔۔کیا معلوم ہوگا مجھے۔۔۔معیز نے پوچھا۔۔۔یہی کہ۔۔۔۔کہ میں تمہیں پرپوز کرنے والی ہوں۔ناہید نے آنکھوں میں شرارت لئے کہا تو معیز کو جھٹکا سا لگا۔اس سے پہلے کہ وہ کچھ سمجھتا یا سنبھلتا ناہید اسے دوسرا جھٹکا دینے کی خاطر پرپوز کرنے کے سے انداز میں گھاس پر بیٹھی اور اونچی آواز میں بولی۔میں ناہید امان تمہیں پرپوز کرتی ہوں کیا تم مجھ سے شادی کرو گے معیز۔۔۔۔۔مجھ سے نا سہی اپنی ڈیر کزن سے ہی سہی۔۔۔ناہید نے شوخ لہجے مگر امید بھری نظروں سے معیز کو دیکھتے ہوئے کہا تو معیز دھیرے دھیرے اس کے سامنے گھاس پر اسی کے انداز میں بیٹھ گیا اور اسکا بڑھا ہوا ہاتھ تھام کر اسے لبوں سے لگا لیا۔ناہید کے ہونٹوں پر دلکش مسکراہٹ پھیل گئی اور ساتھ ہی خوشی سے آنکھوں سے آنسو پھر بہہ نکلے۔کیا یہ سب حقیقت ہے ناہید کہیں میں کوئی خواب تو نہیں دیکھ رہا۔مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے یہ کوئی خواب ہو اور جبمیں آنکھیں کھولوں تو تمہیں ہمیشہ کی طرح وہی کھڑکی کے ساتھ اداس سا کھڑے پاؤں۔نہیں معیز یہ خواب نہیں بلکہ حقیقت ہے ایک خوشگوار حقیقت اور اب تم مجھے کسی کھڑکی پر اداس نہیں بلکہ مسکراتا ہوا پاؤں گے مگر ایک صورت میں۔۔۔معیز نے سوالیہ نظروں سے ناہید کی طرف دیکھا۔اگر تم یہاں چلاتے ہوئے بولو گے کہ تم مجھ سے شادی کرنے کے لئے تیار ہو بلکل اسی طرح جس طرح میں زور سے بولی تھی۔فرق صرف یہ ہے کہ میں نے سوال کیا تھا اور تمہیں جواب دینا ہے۔اچھا ایسا ہے تو سنو میں یعنی معیز روحیل مس ناہید امان سے شادی کے لئے کسی صورت راضی نہیں ہوں کیوں کہ مس ناہید نامی خونخوار ڈائن جو شادی کے بعد میرا خون ہی پی لے گی اور میں یقیناً ایک زندہ لاش بن جاؤں گا۔نا بابا نا تم سے شادی۔۔۔یا اللّه میری توبہ۔۔۔معیز نے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے با آواز بلند اسے تنگ کرنے کی خاطر کہا تو ناہید نے اسے غصے سے گھورتے ہوئے ٹیبل پر پری اخبار اٹھائی اور اسکا رول بنا کر اسے مارنے کو اس کے پیچھے دوڑی۔معیز بھاگتا ہوا ایک دم سے رکا تو سامنے سے آتی ناہید کا سر اس کے سینے سے ٹکرایا۔ارے سوری۔۔معیز نے اسے بازوؤں سے تھامتے ہوئے کرسی پر بٹھایا اورٹکٹکی باندھے اسے دیکھے گیا۔ناہید ایک دم سنجیدہ ہوئی اور بولی۔معیز میں تمہیں کچھ بتانا چاہتی ہوں تم نے مجھ سے پوچھا تھا ناں کہ کیا میرے انکار کی وجہ کوئی اور۔۔۔۔۔۔پلیز ناہید جو گزر گیا وہ گزر گیا میں نہیں جانتا کہ وہ کیا وجہ تھی جس کی بنا پر تم نے انکار کیا میرے لئے تو بس اب یہی کافی ہے کہ تم اقرار کر چکی ہو۔اب تمہارے انکار کی وجہ سے مجھے کوئی غرض نہیں کیوں کہ اتنا تو جانتا ہی ہوں کہ ضرور کوئی بہت بڑی اور تکلیف دہ وجہ ہی ہوگی اسی لئے میں اسے تمہیں دوہرانے نہیں دینا چاہتا۔معیز تم کتنے اچھے ہو۔۔۔بے اختیار ناہید کے منہ سے نکلا۔ہاں ظاہر ہے اچھا ہوں تب ہیتو تم میرے پیچھے آئی ہو۔معیز نے آنکھ دباتے ہوئے کہا۔ناہید اب کی بار اس سے لڑنے کی بجاۓ بس چپ چاپ اسے دیکھے گئی اور دل ہی دل میں شکر کرنے لگی کہ اسے اسکا پرانا معیز واپس مل گیا۔۔**********************امی حضور ارے امی حضور۔۔۔ناہید آتے ہی سمینہ کو پکڑے گول گول گھمانے لگی۔ارے ارے ناہید کیا کر رہی ہو رکو بس کرو۔انہیں تو چکر سے آنے لگے۔امی حضور آج میں بہت خوش ہوں۔( ناہید کو لگ رہا تھا آج اس کے دل سے جیسے کوئی بہت بڑا بوجھ ہٹ گیا ہو )کیا بات ہے ہمیں بھی تو بتاؤ کہ اتنی خوشی کس لئے۔فریحہ پلیٹ میں سیب کاٹ کے لائی اور پوچھنے لگی۔فری امی حضور اور بابا جان وہ اصل میں خالہ کہہ رہی تھیں کہ وہ کل آئیں گیں۔اچھا تو اس میں اتنا خوش ہونے والی کونسی بات ہے تمہاری خالہ کونسا کل پہلی بار آئیں گیں۔سمینہ نے کہا۔امی حضور او میری امی حضور پہلی نہیں بلکہ دوسری بار مگر اس بار وہ خوشی خوشی آئیں گیں اور خوشی خوشی جائیں گیں۔ناہید نے انکا گال چوما فری کے ہاتھ میں پکڑی پلیٹ سے سیب کی ایک کاش اٹھائی اور بھاگتی ہوئی سیڑھیاں چڑھ گئی۔سمینہ نے نا سمجھی سے امان کی طرف دیکھا جو با مشکل اپنی مسکراہٹ چھپا رہے تھے۔ارے امی آپ ابھی بھی نہیں سمجھیں ناہید آپ کو سگنل دے کرگئی ہے کہ وہ معیز سے شادی کے لئے تیار ہے۔کیا سچ میں۔۔۔فریحہ نے بتایا تو سمینہ بے حد خوشی اور بے یقینی سےبولیں۔اور پھر دوبارہ امان کی طرف دیکھا جو ابھی بھی مسکرا رہے تھے۔سنا آپ نے ارے ناہید نے ہاں کر دی۔جی جی بیگم صاحبہ سن چکا ہوں میں۔ایک منٹ امان یہ آپ کی مسکراہٹ مجھے یہ شک کرنے پر کیوںمجبور کر رہی ہے کہ آپ اس بات سے پہلے ہی واقف تھے کہ ناہید مان چکی ہے۔سمینہ نے انہیں گھوری ڈالتے ہوئے کہا تو وہ گھبرا سے گئے۔ارے بیگم صاحبہ ایسے تو مت دیکھیں ایسے تو مجھے لگ رہا ہے جیسے میں نے کوئی بہت بڑا جرم کر دیا ہو۔امی جان صرف بابا کو ہی نہیں مجھے بھی معلوم تھا۔فریحہ نے سیب کھاتے ہوئے مزے سے کہا۔اب سمینہ ہی نہیں بلکہ امان بھی حیران ہوئے۔فریحہ نے امان کی حیرانگی دیکھی تو بولی۔اتنا بھی حیران مت ہوں بابا جب ناہید آپ کو خالہ کے گھر جا کر اپنی باتوں کی تلافی کا بول رہی تھی تو میں بھی پیچھے کھڑی سن رہی تھی۔فریحہ یہ بتا کر ہنسنے لگی تو امان بھی ہنس دیے۔جبکہ سمینہ حنا کو فون کرنے چلی گئیں۔۔**********************آج رات سب کے لئے خوشیوں کی رات تھی ریان کو جب معلوم ہوا کہ ناہید معیز کی ناراضگی ختم کر آئی ہے اسے اپنے اقرارکا بتا کر اس کی ہر پریشانی دکھ اور تکلیف دور کر آئی ہے تو اس نے اسی خوشی میں سب کو ڈنر پر لے جانے کی آفر کی۔سمینہ اور امان نے تو سہولت سے منع کر دیا۔کیوں کہ انہیں حنا کی طرف جا کر حنا اور روحیل سے شادی کےبارے میں کچھ باتیں کرنی تھیں۔ناہید چونکہ خوش تھی اور پر سکوں بھی اس لئے وہ جی بھر کے اپنی پسند کی تمام ڈشز انجوئے کرنا چاہتی تھی اور ان ڈشز کی ٹاپ لسٹ میں بریانی تھی۔ریان ان دونوں کے ساتھ ساتھ زبردستی معیز کو بھی گھر سے پکڑے فائیو سٹار لے آیا۔ناہید نے سب سے پہلے بریانی پر حملہ کیا۔فریحہ نے چکن کرائی کا آرڈر دیا ریان بھی اسی کے ساتھ تھا جبکہ معیز نے سمال پیزا کا آرڈر دیا۔آخر میں سب نے آئس کریم کھائی سواۓ فریحہ کے کیوں کہ اسے آئس کریم بلکل پسند نا تھی اس لئے اس نے کافی کا آرڈر دے دیا۔کافی دیر باتیں شاتیں کرتے گپیں لگانے کے بعد وہ رات قریب ایک بجے کے گھر آئے ریان نے ان تینوں کو ڈراپ کیا۔فریحہ کہتی رہی کہ وہ آج ادھر ہی رک جاۓ مگر وہ یہ کہتے ہوئے کہ صبح آفس جانے پہلے اور پھر آنے کے بعد بھی چکر لگاۓ گا خود گھر چلا گیا۔۔**************************ناہید۔۔۔۔۔یشل نے اسکی آنکھوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے اسے پکارا۔کون ہے۔۔۔اف ناہید اب تم میری آواز بھی بھول گئی۔یشل نے ہاتھ واپس کھینچتے ہوئے روٹھتے ہوئے کہا۔ارے ارے سوری یار میں اصل میں کسی سوچ میں گم تھی اس لئے آواز پر دھیان نہیں دے سکی۔ناہید نے اسکا پھولا ہوا منہ دیکھتے ہوئے ہاتھ اٹھا کر جلدی سے معافی مانگی۔اچھا کیا سوچ رہی تھی یشل فوراً پہلے جیسی ہو گئی۔کچھ خاص نہیں پہلے تم یہ بتاؤ کہ کیسے آنا ہوا۔وہ اصل میں میں تمہیں کچھ بتانے آئی تھی ناہید۔یشل نے جوس کا گلاس جو کہ ناہید پی رہی تھی سائیڈ ٹیبل سے اٹھاتے ہوئے کہا۔مجھے بھی تمہیں کچھ بتانا تھا یشل۔اچھا پہلے تم بتاؤ یشل نے کہا۔ارے نہیں تم بتاؤ۔ناہید نے پہلے اسے موقع دیا۔ہاں تو بات یہ ہے ناہید کہ۔۔۔۔کہ مجھے کہنا تم سے نہیں میرا مطلب بتانا تمہیں یہ تھا کہ۔۔۔۔میں کسی کو۔۔۔۔اوفو یشل تم تو سارا دن لگاؤ گی ایسا کرو پہلے میری ہی سن لو۔ناہید نے اسے ٹوکا۔یشل میری منگنی ہو رہی ہے۔۔۔کیا سچ میں یشل ایک دم چیخی۔کس سے ہو رہی ہے کون ہے وہ بد نصیب میرا مطلب ہے کہ خوش نصیب۔۔۔وہ خوش نصیب کوئی اور نہیں بلکہ معیز ہی ہے۔جوس پیتی یشل کو ایک دم سے اچھوکا لگا۔کتنی ہی دیر تو وہ کچھ بول ہی نا پائی۔تم ایسے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کے مجھے کیا دیکھ رہی ہو تمہیں خوشی نہیں ہوئی کیا اتنی حیران کیوں ہو۔نہیں وہ میں خوش ہوں بلکہ بہت خوش ہوں بس حیران تھی کہتم نے تو انکار۔۔۔۔۔میں پاگل تھی یشل جو میں نے ایسا کیا اپنی خوشیوں کو خود ہی خود سے دور کیا۔مگر اب مجھے سمجھ آگئی ہے یا یوں سمجھ لو کہ عقل ٹھکانے آگئی ہے۔ناہید نے اسے پھر سے ٹوک دیا۔ایک منٹ رکو میں آئی۔ناہید بھاگتی ہوئی گئی اور بھاگتی ہوئی آئی ہاتھ میں مٹھائی کا ڈبہ تھا۔اس نے ایک گلاب جامن نکالا اور پورے کا پورا یشل کے منہ میں ٹھونس دیا لو منہ میٹھا کرو۔یشل نے با مشکل اسے کھایا اور پھر منہ صاف کرنے کے بہانے ٹشو لینے اٹھی اور اسی سے آنکھوں میں آئی نمی صاف کر کے واپس آبیٹھی۔اب تم بتاؤ کیا کہہ رہی تھی تم۔یشل اب خود کو نارمل کر چکی تھی۔میں یہ کہہ رہی تھی کہ میرا ایک اور رشتہ آیا ہوا ہے فیملی بہت اچھی ہے سوچ رہی ہوں کہ کیوں ناں تمہارے ساتھ ہی رخصتی کروا لوں۔یشل نے کہا اور پھر ناہید کے ساتھ خود بھی ہنسنے (رونے) لگی۔یشل شکر کرنے لگی۔شکر تھا دل کی بات دل میں ہی رہ گئی مشکل سے ہی تو سب ٹھیک ہوا تھا اور وہ اسے دوبارہ خراب کرنے جا رہی تھی۔۔*************************یشل نے گھر آتے ہی سب سے پہلے ماما پاپا کو اس رشتے کے لئے ہاں کہہ دی جس کے لئے وہ کتنے دنوں سے انہیں انتظار کرواۓ ہوئے تھی۔اس کے بعد اس نے جی بھر کر معیز کی تصویر دیکھنے کے بعد اسے ڈیلیٹ کر دیا۔یہ کہتے ہوئے کہ اس شخص کو دیکھنے کا اب مجھے کوئی حق نہیں اس شخص پر اب صرف اور صرف ناہید کا ہی حق ہے۔۔***************************بہت اچھی لگ رہی ہو۔ریان نے بلیو ساری میں ملبوس فریحہ کی تعریف کی جو واقعی میں بہت پیاری لگ رہی تھی۔یہ ساری اس نے خاص ناہید کی منگنی کے لئے بنوا کر رکھی تھی۔آپ بھی بہت اچھے لگ رہے ہیں۔فریحہ مسکرائی۔آج رات گیارہ بجے کی ریان کی فلائٹ تھی کچھ ہی دیر میں اسے نکل جانا تھا اور اپنا سفر شروع کر دینا تھا۔فری سے باتیں کرتے ریان کی نظر آنکھوں میں ہلکی سی نمی لئے یشل پر پری تو اس کے دل میں ہوک سی اٹھی۔وہ ساتھ بیٹھے معیز اور ناہید کو دیکھ رہی تھی۔وہ اس بات سے انجان نہیں تھا کہ اسکی بہن دل ہی دل میں معیز کو چاہتی ہے۔شک تو اسے تب ہی ہوگیا تھا جب یشل نے اپنے موبائل میں سیو معیز کی تصویر اسے دکھائی تھی۔اگر وہ ناہید سے غلطی سے سینڈ ہوئی تھی تو یشل اسے ڈیلیٹ بھی تو کر سکتی تھی مگر نہیں وہ گھنٹوں موبائل کو ہاتھ میں تکتی رہتی ریان کو دیکھے بغیر بھی معلوم ہوجاتا کہ وہ کیا دیکھ رہی ہے۔اور پھر بغیر کوئی وجہ بتاۓ رشتوں سے انکار۔کوئی کچھ سمجھتا یا نا سمجھتا مگر وہ سب سمجھتا تھا مگر وہ کیا کرتا اس کا بات کا اسے دکھ تھا کہ وہ اپنی بہن کے لئے کچھ نہیں کر سکتا۔وہ معیز کو یشل کا نہیں بنا سکتا تھا کیوں کہ معیز یشل کا تھا ہی نہیں۔وہ یشل کو معیز کا نہیں بنا سکتا تھا کیوں کہ یشل معیز کی تھی ہی نہیں اسکی تو صرف ناہید تھی۔۔۔ریان نے یشل کی طرف سے چہرہ موڑ لیا اور ٹھنڈی آہ بھر کہ رہ گیا۔۔**********************ناہید سی گرین اور گرے کلر کی بھاری کام دار پیروں تک آتی فراک پہنے سادگی سے تیار ہوئی بلیک تھری پیس میں ملبوس معیز کے ساتھ بیٹھی بہت ہی پیاری لگ رہی تھی۔( شہزادی ناہید اور شہزادہ معیز )سب ہی ان کی جوڑی کی تعریف کر رہے تھے۔بہت خوبصورت لگ رہی ہو ڈیر کزن۔۔۔معیز نے اسکے مزید نکھرے ہوئے حسن کی تعریف کی۔تم بھی بہت ت ت ت اچھےےےےے نا سہی مگر صرف اچھے ضرور لگ رہے ہو۔بدلے میں ناہید نے بھی اس کی تعریف کی جو کہ تعریف کمکنجوسی زیادہ تھی۔منگنی جو کہ بچپن میں ہو ہی چکی تھی مگر یہ معیز کی ضد تھی کہ بچپن کی منگنی بھی کوئی منگنی ہوتی ہے دوبارہ سے سارے انتظامات کروا لئے۔شادی کچھ مہینے بعد تھی۔حنا انگوٹھی کی ڈبیہ لئے معیز کے پاس بیٹھیں تو اس نے جلدی سے پوچھا۔ماما انگوٹھی آپ پہنائیں گیں کیا۔ہاں بیٹا میں ہی تو پہناؤں گی۔حنا کے جواب پر معیز کا منہ اتر گیا۔ارے بیٹا مذاق کر رہی تھی میں تم ہی پہناؤ گے بلکہ لو پکڑو اور جلدی سے پہنا دو اس سے پہلے کہ لڑکی کا پھر سے ارادہ بدل جاۓ۔آخری جملہ حنا نے بہت آہستگی سے اسے ڈرانے کی خاطر بولا جیسے وہ دونوں ہی سن سکے۔ناہید تو مسکرا دی جبکہ معیز نے واقعی میں یہ ڈر لئے جلدیسے ناہید کا سفید و ملائم ہاتھ پکڑا اور انگوٹھی اس کے بائیں ہاتھ کی تیسری انگلی میں اتار دی۔اب باری ناہید کی تھی۔ناہید معیز کو انگوٹھی پہنانے لگی تو اس نے ہاتھ کو کبھی کھولنا اور کبھی بند کرنا شروع کر دیا ناہید کو انگوٹھی پہنانے میں مشکل ہو رہی تھی۔اس نے نظر بچا کر معیز کی کمر پر ایک زور کی چٹکی کاٹی تو وہ سی کرتا ہوا بولا اف ظالم لڑکی کیا کر رہی ہو۔ہاتھ سیدھا رکھو ورنہ ایک اور کاٹوں گی اور یقین کرو وہ اس سے بھی زور (زہریلی ) کی ہوگی۔معیز نے اسکی دھمکی میں آتے ہوئے فوراً سے پہلے ہاتھ سیدھا کیا تو ناہید نے بڑے آرام سے اسے انگوٹھی پہنا دی۔اور اس کے بعد دونوں نے بغیر ہاتھ اٹھاۓ دل ہی دل میں ایک دوسرے کے اچھے ساتھ کی ڈھیروں دعائیں کیں۔۔********************ارے واہ یہ پین کتنا خوبصورت ہے ناں اسے تو میں ہی رکھوںگا۔معیز نے اس کے کمرے میں پرے مگ سے ریڈ کور کا پین جو بظاہر کانچ کا معلوم ہوتا تھا اٹھایا اور بولا۔اس سے تو میں اپنے نکاح نامے پے سگنیچر کروں گا۔معیز نے اس پیارے سے پین کو چوما اور ساتھ ہی ناہید کے گال کو بھی ہلکے سے چھوتا ہوا کمرے سے نکل گیا۔تم کیا جانو معیز یہ پین میرے پاس اسی لئے تو واپس آیا تھا کہ اس کا استعمال تمہارے ہاتھوں ہی ہونا تھا کیوں کہ اس کے اصل حق دار تم ہی تو ہو۔۔۔ناہید نے سیڑھیاں اترتے معیز کو نظروں میں بھرتے ہوئے سوچا اور مسکرا دی۔زندگی کتنی حسین ہے یہ آج اسے پتا چلا تھا کیوں کہ اسکی زندگی کا حسین ساتھی زندگی کے ہر سفر میں اب ہر قدم پر اس کے ساتھ چلنے والا تھا اس راہ پے چلنے والا تھاجیسے راہ محبت کہتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔*********************ختم شد۔۔۔
No comments:
Post a Comment