"بڑی سیٹھانی کہاں جا رہے ہیں آپ" جلال گردیزی تو اپنے دل کی بھڑاس نکال کر گھر سے باہر نکل گئے تھے. انہیں اس وقت زوار سے بات کرنا دنیا کا مشکل ترین کام لگ رہا تھا. سونے پہ سہاگہ زوار فاطمہ کے برعکس حد درجہ منہ پھٹ اور صاف گو تھا. اب بیوی کے سامنے نجانے کیا جل تھل ہونے والی تھی.
"ہم اس وقت زوار سے ملنے جا رہے ہیں" مدحت گردیزی نے سکون سے جواب دیا.
""خیریت" سکینہ نے حیرت سے پوچھا.
"تم میری اتنی جاسوسی کیوں کرنے لگی ہو آج کل سکینہ. اپنی حد میں رہو تو زیادہ بہتر ہوگا" گل جان نے سکینہ کو جھاڑ کر رکھ دیا.
"اور یہ سب تمہاری وجہ سے ہی ہوا ہے. نا بچے رات کو گھر سے غائب رہتے نا ان کو اتنا غصہ آتا. اوپر سے حدید نے بھی صبح کافی تلخی سے بات کی" گل جان سکینہ کی طرف مڑیں.
"صرف ایک بچہ تمہیں سنبھالنا ہوتا ہے. سیما کو دیکھا ہے فاطمہ کی ساری اولاد کو سنبھالتی ہے انکے سارے نخرے بھی برداشت کرتی ہے. نائل شاہ زین کے بچوں کی طرح نخرے نہیں کرتا نہ ہی تنگ کرتا ہے مگر آفرین ہے سکینہ تم زرا دھیان سے کام نہیں کر پارہی" گھر کے سارے ملازمین اپنی سپروائزر کی بےعزتی سن رہے تھے.
"اپنے کاموں پر دھیان دو نا کہ ادھر ادھر تانکا جھانکی میں اپنا وقت برباد کرو. سمجھ آگئی" مدحت گردیزی سکینہ کو بےنقط سنا کر جلال گردیزی کے پیچھے باہر نکل گئیں. سکینہ کا ضبط کے مارے برا حال تھا. سیما کا خود پر سبقت لے جانا اسے زرا نہیں بھایا تھا.
............... ............... ...
"زوار گھر سے باہر نکلا یا ابھی نہیں" جس وقت فہد اور نازنین جہانگیر کے کمرے میں آئے جہانگیر کسی سے فون پر بات کر رہا تھا.
"نہیں سر ابھی تو نہیں نکلا. صبح سے اسکے گھر کے گرد بہت رش ہے"
"اسے نظر میں رکھنا کہیں بچ کر جانے نہ پائے. جہاں موقع دیکھو اسکا کام تمام کر دینا" جہانگیر سیال فون رکھ کر ان دونوں کی طرف متوجہ ہوا.
"گئے نہیں تم دونوں ابھی تک"
"بھائی فہد اور میں آپ سے یہی کہنے آئے ہیں کہ اس زوار کو ختم کروائیے. ہمارا سارا بزنس ٹھپ پڑا ہوا ہے" نازنین جہانگیر سے کہنے لگی.
"فکر نہیں کرو. چند گھڑیاں ہی ہیں اسکے پاس. پھر ہم ہوں گے اور ہمارا بزنس" جہانگیر سیال غرور کے نشے میں چور چور تھا.
"اور تم دونوں تو نکلو. ہاسپٹل پہنچو اور میں یہاں اپنا کام انجام دیتا ہوں" جہانگیر سیال نے ان دونوں کو افراتفری میں باہر بھیجا. اور پیچھے ایک نمبر ملانے لگا.
............... ............... ........
"یہ بچے ابھی تک گھر کیوں نہیں پہنچے"مدحت گردیزی جس وقت گھر سے باہر نکلیں جلال گردیزی جان محمد پر بھڑک رہے تھے.
"بچے ہاسپٹل سے نکل چکے تھے مگر راستے میں سیر و تفریح کا ارادہ بن گیا تو اسی لیے لیٹ آئیں گے" جان محمد نے نظریں جھکائے انہیں ساری تفصیل بتائی.
"بہت خوب... دیکھ رہی ہیں مدحت بیگم. اب تو بچوں نے راہ فرار بھی ڈھونڈ لیا. یہ سب انکے گھر نہ آنے کے بہانے ہیں" جلال گردیزی نے توپوں کا رخ مدحت گردیزی کی طرف کر دیا.
"ایسی بھی بات نہیں ہے. بچے ہیں. بس زرا کھیل کود کا دل ہوگا" مدحت گردیزی پوتوں کے کارناموں پر پردے ڈال رہی تھیں.
"اور تم جان محمد جاو جاکر سارے کل کے کیے انتظامات بند کرواو. جب خوشی ہی نہیں رہی تو منانا کیا ہے. فاطمہ کے آنے سے پہلے سب کچھ اصل حالت میں آجانا چاہیے"
مدحت بیگم نے سب سے پہلے تو جان محمد کو وہاں سے بھیجا. وہ بھی اپنی اتنی بےعزتی پر ناک پھلائے فوراََ غائب ہوا.
"اب ہم وہ کام کرلیں جس کیلیے یہاں آئے ہیں" مدحت گردیزی نے منہ پھلائے اپنے شوہر سے پوچھا.
"میں جا تو رہا ہوں مگر زوار سے مجھے کچھ خاص امید رہی نہیں. مگر آپ بہت خوش اور پر امید ہیں جیسے وہ ہمارے انتظار میں بیٹھا ہوا ہوگا"
"ہاں جی میں خوش بھی ہوں اور پر امید بھی ہوں." مدحت گردیزی اور جلال گردیزی چلتے چلتے باتیں کر رہے تھے.
"بیگم خوش رہنا اچھی بات ہے خوش رہا کریں مگر کسی خوش فہمی میں مت رہیں"
"اچھا اچھا دیکھ لیتے ہیں" وہ دونوں اس سے پہلے بیل دیتے زوار اور سندس گیٹ سے باہر آگئے.
"خیریت آپ دونوں اس وقت یہاں" سندس نے حیرانی سے پوچھا.
"سندس انہیں انکے گھر کا راستہ دکھا آو. بیچارے بڑھاپے میں کہاں کہاں کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں" زوار نے سندس سے سختی سے کہا. جلال گردیزی اور مدحت گردیزی اسکے لہجے کی کڑواہٹ سن کر وہیں کھڑے رہ گئے. زوار ان سے کہتا اپنی گاڑی میں جا کر بیٹھ گیا.
" آج زوار نے جس طرح سے آپکی خاطر کی ہے وہ سب آپ کا ہی کمایا ہوا ہے. جو نفرت اور بے یقینی کا بیج بویا گیا ہے اسی کا پھل آج آپکی جھولی میں آکر گرا ہے. معاف کیجیے گا میرے پاس بھی آپکو دینے کیلیے کچھ نہیں ہے" سندس انہیں وہیں دھوپ میں سڑتا بلتا چھوڑ کر زوار کے ساتھ چلی گئی. آج ان دونوں کے یقین پر مہر لگ گئی تھی کہ وہ دونوں ہاشمانیز کیلیے مزید اہمیت نہیں رکھتے. انکے پیچھے کھڑے سکینہ اور جان محمد انہی قدموں سے واپس لوٹ گئے.
............... ...............
"ہیلو" فون کے پار سے آواز ابھری.
"انتہا ہو گئی انتظار کی......آئی نا کچھ خبر میرے یار کی.......یہ ہمیں ہے یقیں بےوفا وہ نہیں.....پھر وجہ کیا ہوئی انتظار کی" جہانگیر سیال نے جواب میں ہلکا سا گنگنایا.
"ہاہاہا....تو میرا یار خود ہی مجھے بتا دے کہ آج اسے میری یاد کیوں آگئی"
"بس یار خرم آج تیری وردی کا امتحان ہے"
"مطلب..... کسی کو مروانا ہے یا مرے ہوئے کو غائب کروانا ہے"
"دونوں"
"آں ہاں... تو بول میں سن رہا ہوں"
"ایک آفیسر آجکل بہت تنگ کر رہا ہے...."
"کون زوار...."
"تو زوار کو کیسے جانتا ہے. میں نے تو ابھی اسکا نام بھی نہیں لیا"
"ہاہاہا... تیرے سر کا درد آجکل بس وہی ہے تو اندازہ لگایا"
"بس یار اسکو غائب کروانا ہے تاکہ کسی کو زرا سا شک نہ ہو اور اسکے بچوں کو مروانا ہے"
"بس... اتنا معمولی سا کام. سمجھو ہوگیا"
"اتنا آسان نہیں ہے"
"مشکل کیا ہے اس میں. زوار کو تو مروائے گا. ہم کوئی ایکسیڈنٹ کا کیس بنوا دیں گے...."
"اور اسکے بچے"
"انہیں چور ڈاکو بنا کر مار ڈالیں گے. الٹا کیس بھی کر دیں گے"
"اور اگر وہ مرے نا تو کیا کرو گے"
"فکر نہ کرو. جب کسی کو بھی چور یا ڈاکو بنا کر اس پر فائرنگ کی جاتی ہے تو ہم ہمیشہ اپنی تسلی کرتے ہیں کہ کہیں وہ بچ ہی نا جائے. انکے پاس جاکر دو چار اور گولیاں مار آتے ہیں تاکہ قصہ ہی ختم ہو. فکر نہ کرو زوار کے بچوں کو بچنے نہیں دیں گے" ایس پی خرم اور جہانگیر سیال قہقہے لگاتے اپنے اپنے خیالات ایک دوسرے کو بتا رہے تھے. انہیں اس وقت یہ بھولا ہوا تھا کہ برائی جتنی مرضی جمع کرلو آخر میں حاصل جمع صفر ہی ہوتا ہے.
............... ............... ....
"اب بھی آپ یہی کہیے گا کہ زوار بہت سیدھا سادھا اور تمیز دار بندہ ہے. دیکھ لیا کیسے سیدھے سیدھے ابی جان اور گل جان کی بے عزتی کر گیا ہے" سکینہ سے ساری بات سننے کے بعد زینب خاور کو سنا رہی تھی.
"تم لوگوں نے بھی تو اسے گھر بلا کر اسکی وہ بے عزتی کی تھی کہ اسکے قبروں میں لیٹے آباواجداد کو بھی نہیں بھولی ہو گی. بات کرتے ہیں" خاور نے سر جھٹک کر اسے ہی آئینہ دکھایا.
"شکر کرو زوار نے پیار سے گھر بٹھا کر چائے ناشتہ کروا کر بے عزتی نہیں کی. مان لو کہ وہ گردیزیز سے مختلف ہے" خاور غصے سے بھڑکتا کمرے میں داخل ہوا مگر اسے نازنین اور فہد کو دیکھ کر کوفت ہونے لگی. اس سے اچھا تو وہ باہر ہی تھا.
"نازنین دو گھر اجاڑ کر بھی تمہیں سکون نہیں ملا. منہ اٹھا کر یہاں چلی آئی ہو" خاور دل ہی دل اسے سنا رہا تھا.
"کیا ہوا خاور اندر کون ہے" زینب نے اسکے کندھے پر زور دے کر پوچھا.
"چھپکلی" خاور نے آہستہ سے کہا.
"اسی لیے میں شاہ زین اور فاطمہ کو اکیلے نہیں چھوڑتی. منٹ نہیں لگتا مکھیوں کا ہجوم لگنے میں" زینب بھی بےزار تھی.
"اندر چلنا ہے یا نہیں" زینب نے خاور کو پورے دروازے پر پھیلے ہوئے دیکھ کر پوچھا.
"تم چلو میں ابھی آیا" خاور زینب سے کہتا واپس باہر چلا گیا. زینب کو ناچار اندر جانا پڑا.
............... ............... .
"یار فیروز ایک سنگین غلطی ہو گئی مجھ سے" پیر سائیں نے افسوس سے کہا.
"سائیں غلطی ہو گئی ہے تو اسے ٹھیک کرنے کا بھی آپکے پاس طریقہ ہوگا" فیروز نے نظریں نیچے کیے کہا
"سب کچھ الٹنے والا ہے. صرف "نظر" رکھنے والے ہی آگاہ ہو پائیں گے. اپنی زبان سے کہے الفاظ میرے آگے آ رہے ہیں"
"سائیں خیریت تو ہے نا سب"
"جب ہماری بات ہوئی تھی کہ بخت روشن کس کے گھر پرورش پائے گی. تب میں نے کہا تھا کہ فقیروں کے گھر. یاد ہے"
"جی سائیں"
"اب بخت روشن ہمارے زیر سایہ پرورش پائے گی"
"ہیں... ایسا کیسے ممکن ہے سائیں. وہ یہاں کیسے رہے گی"
"یہاں کی بات کس نے کی. تمہیں کیا لگتا ہے کہ ہم بنجاروں کی سی زندگی بسر کر رہے ہیں. ہمارا کوئی گھر نہیں، کوئی بال بچے نہیں"
"نہیں سائیں وہ میرا مطلب تھا کہ..."
"سن لیا ہم نے جو بھی تم کہنا چاہتے تھے. تم بھی میرے ساتھ ہی چلے چلو. آج میرے خاندان سے بھی ملاقات ہو ہی جائے. پوتا پیدا ہوا ہے آج ہمارا بھی. ہم اب تک صرف بخت روشن کی وجہ سے یہاں ٹھہرے ہوئے تھے."
"معافی چاہتا ہوں سائیں میرے کہنے کا وہ مطلب نہیں تھا"
"تمہارے کہنے کا جو بھی مطلب تھا خیر یاد رکھنا زندگی میں ہمارے اپنے فیصلے ہماری کامیابی یا ناکامی کا تعین کر دیتے ہیں. جب لگے کہ آسمان اپنا رنگ بدلنے لگا ہے تو اتنی مضبوطی سے کھڑے ہو جاو کہ زمین والے تمہارا کچھ بگاڑ نہ سکیں. جب فیصلے عرش سے اترنے لگیں تو فرش والوں کی وکالت نہیں چلتی. جب تقدیر کے آگے چلنی بند ہو جائے تو دعا کرنی چاہیئے. ہم تقدیر کے آگے مجبور ہیں. تقدیر لکھنے والا تو نہیں. اب ہم خود بخت روشن کی پرورش کریں گے. تم اپنا سامان باندھ لو. ہم ابھی کے ابھی نکلیں گے"
............... ...............
زندگی کسے کس موڑ پر لے جانی والی تھی یہ تو صرف وہی جانتا تھا جس کے پاس خاص "نظر" تھی.
............... .........
"ہم اس وقت زوار سے ملنے جا رہے ہیں" مدحت گردیزی نے سکون سے جواب دیا.
""خیریت" سکینہ نے حیرت سے پوچھا.
"تم میری اتنی جاسوسی کیوں کرنے لگی ہو آج کل سکینہ. اپنی حد میں رہو تو زیادہ بہتر ہوگا" گل جان نے سکینہ کو جھاڑ کر رکھ دیا.
"اور یہ سب تمہاری وجہ سے ہی ہوا ہے. نا بچے رات کو گھر سے غائب رہتے نا ان کو اتنا غصہ آتا. اوپر سے حدید نے بھی صبح کافی تلخی سے بات کی" گل جان سکینہ کی طرف مڑیں.
"صرف ایک بچہ تمہیں سنبھالنا ہوتا ہے. سیما کو دیکھا ہے فاطمہ کی ساری اولاد کو سنبھالتی ہے انکے سارے نخرے بھی برداشت کرتی ہے. نائل شاہ زین کے بچوں کی طرح نخرے نہیں کرتا نہ ہی تنگ کرتا ہے مگر آفرین ہے سکینہ تم زرا دھیان سے کام نہیں کر پارہی" گھر کے سارے ملازمین اپنی سپروائزر کی بےعزتی سن رہے تھے.
"اپنے کاموں پر دھیان دو نا کہ ادھر ادھر تانکا جھانکی میں اپنا وقت برباد کرو. سمجھ آگئی" مدحت گردیزی سکینہ کو بےنقط سنا کر جلال گردیزی کے پیچھے باہر نکل گئیں. سکینہ کا ضبط کے مارے برا حال تھا. سیما کا خود پر سبقت لے جانا اسے زرا نہیں بھایا تھا.
...............
"زوار گھر سے باہر نکلا یا ابھی نہیں" جس وقت فہد اور نازنین جہانگیر کے کمرے میں آئے جہانگیر کسی سے فون پر بات کر رہا تھا.
"نہیں سر ابھی تو نہیں نکلا. صبح سے اسکے گھر کے گرد بہت رش ہے"
"اسے نظر میں رکھنا کہیں بچ کر جانے نہ پائے. جہاں موقع دیکھو اسکا کام تمام کر دینا" جہانگیر سیال فون رکھ کر ان دونوں کی طرف متوجہ ہوا.
"گئے نہیں تم دونوں ابھی تک"
"بھائی فہد اور میں آپ سے یہی کہنے آئے ہیں کہ اس زوار کو ختم کروائیے. ہمارا سارا بزنس ٹھپ پڑا ہوا ہے" نازنین جہانگیر سے کہنے لگی.
"فکر نہیں کرو. چند گھڑیاں ہی ہیں اسکے پاس. پھر ہم ہوں گے اور ہمارا بزنس" جہانگیر سیال غرور کے نشے میں چور چور تھا.
"اور تم دونوں تو نکلو. ہاسپٹل پہنچو اور میں یہاں اپنا کام انجام دیتا ہوں" جہانگیر سیال نے ان دونوں کو افراتفری میں باہر بھیجا. اور پیچھے ایک نمبر ملانے لگا.
...............
"یہ بچے ابھی تک گھر کیوں نہیں پہنچے"مدحت گردیزی جس وقت گھر سے باہر نکلیں جلال گردیزی جان محمد پر بھڑک رہے تھے.
"بچے ہاسپٹل سے نکل چکے تھے مگر راستے میں سیر و تفریح کا ارادہ بن گیا تو اسی لیے لیٹ آئیں گے" جان محمد نے نظریں جھکائے انہیں ساری تفصیل بتائی.
"بہت خوب... دیکھ رہی ہیں مدحت بیگم. اب تو بچوں نے راہ فرار بھی ڈھونڈ لیا. یہ سب انکے گھر نہ آنے کے بہانے ہیں" جلال گردیزی نے توپوں کا رخ مدحت گردیزی کی طرف کر دیا.
"ایسی بھی بات نہیں ہے. بچے ہیں. بس زرا کھیل کود کا دل ہوگا" مدحت گردیزی پوتوں کے کارناموں پر پردے ڈال رہی تھیں.
"اور تم جان محمد جاو جاکر سارے کل کے کیے انتظامات بند کرواو. جب خوشی ہی نہیں رہی تو منانا کیا ہے. فاطمہ کے آنے سے پہلے سب کچھ اصل حالت میں آجانا چاہیے"
مدحت بیگم نے سب سے پہلے تو جان محمد کو وہاں سے بھیجا. وہ بھی اپنی اتنی بےعزتی پر ناک پھلائے فوراََ غائب ہوا.
"اب ہم وہ کام کرلیں جس کیلیے یہاں آئے ہیں" مدحت گردیزی نے منہ پھلائے اپنے شوہر سے پوچھا.
"میں جا تو رہا ہوں مگر زوار سے مجھے کچھ خاص امید رہی نہیں. مگر آپ بہت خوش اور پر امید ہیں جیسے وہ ہمارے انتظار میں بیٹھا ہوا ہوگا"
"ہاں جی میں خوش بھی ہوں اور پر امید بھی ہوں." مدحت گردیزی اور جلال گردیزی چلتے چلتے باتیں کر رہے تھے.
"بیگم خوش رہنا اچھی بات ہے خوش رہا کریں مگر کسی خوش فہمی میں مت رہیں"
"اچھا اچھا دیکھ لیتے ہیں" وہ دونوں اس سے پہلے بیل دیتے زوار اور سندس گیٹ سے باہر آگئے.
"خیریت آپ دونوں اس وقت یہاں" سندس نے حیرانی سے پوچھا.
"سندس انہیں انکے گھر کا راستہ دکھا آو. بیچارے بڑھاپے میں کہاں کہاں کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں" زوار نے سندس سے سختی سے کہا. جلال گردیزی اور مدحت گردیزی اسکے لہجے کی کڑواہٹ سن کر وہیں کھڑے رہ گئے. زوار ان سے کہتا اپنی گاڑی میں جا کر بیٹھ گیا.
" آج زوار نے جس طرح سے آپکی خاطر کی ہے وہ سب آپ کا ہی کمایا ہوا ہے. جو نفرت اور بے یقینی کا بیج بویا گیا ہے اسی کا پھل آج آپکی جھولی میں آکر گرا ہے. معاف کیجیے گا میرے پاس بھی آپکو دینے کیلیے کچھ نہیں ہے" سندس انہیں وہیں دھوپ میں سڑتا بلتا چھوڑ کر زوار کے ساتھ چلی گئی. آج ان دونوں کے یقین پر مہر لگ گئی تھی کہ وہ دونوں ہاشمانیز کیلیے مزید اہمیت نہیں رکھتے. انکے پیچھے کھڑے سکینہ اور جان محمد انہی قدموں سے واپس لوٹ گئے.
...............
"ہیلو" فون کے پار سے آواز ابھری.
"انتہا ہو گئی انتظار کی......آئی نا کچھ خبر میرے یار کی.......یہ ہمیں ہے یقیں بےوفا وہ نہیں.....پھر وجہ کیا ہوئی انتظار کی" جہانگیر سیال نے جواب میں ہلکا سا گنگنایا.
"ہاہاہا....تو میرا یار خود ہی مجھے بتا دے کہ آج اسے میری یاد کیوں آگئی"
"بس یار خرم آج تیری وردی کا امتحان ہے"
"مطلب..... کسی کو مروانا ہے یا مرے ہوئے کو غائب کروانا ہے"
"دونوں"
"آں ہاں... تو بول میں سن رہا ہوں"
"ایک آفیسر آجکل بہت تنگ کر رہا ہے...."
"کون زوار...."
"تو زوار کو کیسے جانتا ہے. میں نے تو ابھی اسکا نام بھی نہیں لیا"
"ہاہاہا... تیرے سر کا درد آجکل بس وہی ہے تو اندازہ لگایا"
"بس یار اسکو غائب کروانا ہے تاکہ کسی کو زرا سا شک نہ ہو اور اسکے بچوں کو مروانا ہے"
"بس... اتنا معمولی سا کام. سمجھو ہوگیا"
"اتنا آسان نہیں ہے"
"مشکل کیا ہے اس میں. زوار کو تو مروائے گا. ہم کوئی ایکسیڈنٹ کا کیس بنوا دیں گے...."
"اور اسکے بچے"
"انہیں چور ڈاکو بنا کر مار ڈالیں گے. الٹا کیس بھی کر دیں گے"
"اور اگر وہ مرے نا تو کیا کرو گے"
"فکر نہ کرو. جب کسی کو بھی چور یا ڈاکو بنا کر اس پر فائرنگ کی جاتی ہے تو ہم ہمیشہ اپنی تسلی کرتے ہیں کہ کہیں وہ بچ ہی نا جائے. انکے پاس جاکر دو چار اور گولیاں مار آتے ہیں تاکہ قصہ ہی ختم ہو. فکر نہ کرو زوار کے بچوں کو بچنے نہیں دیں گے" ایس پی خرم اور جہانگیر سیال قہقہے لگاتے اپنے اپنے خیالات ایک دوسرے کو بتا رہے تھے. انہیں اس وقت یہ بھولا ہوا تھا کہ برائی جتنی مرضی جمع کرلو آخر میں حاصل جمع صفر ہی ہوتا ہے.
...............
"اب بھی آپ یہی کہیے گا کہ زوار بہت سیدھا سادھا اور تمیز دار بندہ ہے. دیکھ لیا کیسے سیدھے سیدھے ابی جان اور گل جان کی بے عزتی کر گیا ہے" سکینہ سے ساری بات سننے کے بعد زینب خاور کو سنا رہی تھی.
"تم لوگوں نے بھی تو اسے گھر بلا کر اسکی وہ بے عزتی کی تھی کہ اسکے قبروں میں لیٹے آباواجداد کو بھی نہیں بھولی ہو گی. بات کرتے ہیں" خاور نے سر جھٹک کر اسے ہی آئینہ دکھایا.
"شکر کرو زوار نے پیار سے گھر بٹھا کر چائے ناشتہ کروا کر بے عزتی نہیں کی. مان لو کہ وہ گردیزیز سے مختلف ہے" خاور غصے سے بھڑکتا کمرے میں داخل ہوا مگر اسے نازنین اور فہد کو دیکھ کر کوفت ہونے لگی. اس سے اچھا تو وہ باہر ہی تھا.
"نازنین دو گھر اجاڑ کر بھی تمہیں سکون نہیں ملا. منہ اٹھا کر یہاں چلی آئی ہو" خاور دل ہی دل اسے سنا رہا تھا.
"کیا ہوا خاور اندر کون ہے" زینب نے اسکے کندھے پر زور دے کر پوچھا.
"چھپکلی" خاور نے آہستہ سے کہا.
"اسی لیے میں شاہ زین اور فاطمہ کو اکیلے نہیں چھوڑتی. منٹ نہیں لگتا مکھیوں کا ہجوم لگنے میں" زینب بھی بےزار تھی.
"اندر چلنا ہے یا نہیں" زینب نے خاور کو پورے دروازے پر پھیلے ہوئے دیکھ کر پوچھا.
"تم چلو میں ابھی آیا" خاور زینب سے کہتا واپس باہر چلا گیا. زینب کو ناچار اندر جانا پڑا.
...............
"یار فیروز ایک سنگین غلطی ہو گئی مجھ سے" پیر سائیں نے افسوس سے کہا.
"سائیں غلطی ہو گئی ہے تو اسے ٹھیک کرنے کا بھی آپکے پاس طریقہ ہوگا" فیروز نے نظریں نیچے کیے کہا
"سب کچھ الٹنے والا ہے. صرف "نظر" رکھنے والے ہی آگاہ ہو پائیں گے. اپنی زبان سے کہے الفاظ میرے آگے آ رہے ہیں"
"سائیں خیریت تو ہے نا سب"
"جب ہماری بات ہوئی تھی کہ بخت روشن کس کے گھر پرورش پائے گی. تب میں نے کہا تھا کہ فقیروں کے گھر. یاد ہے"
"جی سائیں"
"اب بخت روشن ہمارے زیر سایہ پرورش پائے گی"
"ہیں... ایسا کیسے ممکن ہے سائیں. وہ یہاں کیسے رہے گی"
"یہاں کی بات کس نے کی. تمہیں کیا لگتا ہے کہ ہم بنجاروں کی سی زندگی بسر کر رہے ہیں. ہمارا کوئی گھر نہیں، کوئی بال بچے نہیں"
"نہیں سائیں وہ میرا مطلب تھا کہ..."
"سن لیا ہم نے جو بھی تم کہنا چاہتے تھے. تم بھی میرے ساتھ ہی چلے چلو. آج میرے خاندان سے بھی ملاقات ہو ہی جائے. پوتا پیدا ہوا ہے آج ہمارا بھی. ہم اب تک صرف بخت روشن کی وجہ سے یہاں ٹھہرے ہوئے تھے."
"معافی چاہتا ہوں سائیں میرے کہنے کا وہ مطلب نہیں تھا"
"تمہارے کہنے کا جو بھی مطلب تھا خیر یاد رکھنا زندگی میں ہمارے اپنے فیصلے ہماری کامیابی یا ناکامی کا تعین کر دیتے ہیں. جب لگے کہ آسمان اپنا رنگ بدلنے لگا ہے تو اتنی مضبوطی سے کھڑے ہو جاو کہ زمین والے تمہارا کچھ بگاڑ نہ سکیں. جب فیصلے عرش سے اترنے لگیں تو فرش والوں کی وکالت نہیں چلتی. جب تقدیر کے آگے چلنی بند ہو جائے تو دعا کرنی چاہیئے. ہم تقدیر کے آگے مجبور ہیں. تقدیر لکھنے والا تو نہیں. اب ہم خود بخت روشن کی پرورش کریں گے. تم اپنا سامان باندھ لو. ہم ابھی کے ابھی نکلیں گے"
...............
زندگی کسے کس موڑ پر لے جانی والی تھی یہ تو صرف وہی جانتا تھا جس کے پاس خاص "نظر" تھی.
...............
ہیلو" ڈرائیونگ کرتے بمشکل فون جیب سے باہر نکال کر اسنے بن دیکھے ہی اٹھا لیا.
"اتنی دیر لگتی ہے فون اٹھانے میں" فون کے پار گرجدار آواز ابھری.
"اوہ..... سو سوری سر. پتہ نہیں چلا" اب پچھتانے کے سوا اسکے پاس کچھ نہ تھا.
"ایڈیٹس. اب زیادہ صفائیاں مت دو. کام کی بات کرو. پہلے ہی میں بہت مصروف ہوں" اسے انکے رونوں میں ذرہ برابر دلچسپی نہ تھی. اسکے اپنے رونے بہت تھے.
"جججی سر...."
"زوار گھر سے نکلا یا ابھی بھی نہیں" فون کے پار سے سختی سے پوچھا گیا.
"سر ابھی نکلا ہی تھا کہ اسے کسی نے روک لیا. بڑی مشکلوں سے اسکی گاڑی آگے بڑھنے لگی ہے" زوار کی گاڑی کے پیچھے اپنی گاڑی کی اسپیڈ بڑھاتے وہ کہنے لگا.
"اچھا ٹھیک ہے. فالو ہِم. میک شیور اس کا کام ختم ہو جائے" آگے کے پلان سے بھی اسے آگاہ کر دیا گیا.
"ڈونٹ وری سر. ہم تب تک ان کے ساتھ ہی رہیں گے جب تک ان دونوں کا کام نہ ختم ہو جائے"
"گڈ. وقار میں نے ایسے ہی تو تمہیں اس کام کیلیے نہیں چنا. خدا پر بھروسہ کرکے آگے بڑھتے رہو. جنہیں خدا پر بھروسہ ہو انکی منزل کامیابی ہوتی ہے"
"یس سر. خدا حافظ"
"اللہ حافظ"
............... ............... ..
"ارے بھابھی آپ وہاں دروازے میں ہی کیوں کھڑی ہیں. آئیں نا پلیز" زینب بھی خاور کے ساتھ ہی بھاگنے کا سوچ رہی تھی کہ نازنین کی اس پر نظر پڑ گئی. بڑے خلوص سے کہنے لگی.
"ہاسپٹل میرا، گھر والے میرے تم کون ہوتی ہو مجھے ویلکم کرنے والی" زینب نے کسی کا بھی لحاظ کیے بنا اسکے خلوص کا جلوس نکال دیا.
"بھابھی آپ تو برا ہی مان گئیں میں تو صرف......."
"برا ماننے والی باتوں کا ہی برا مانا جاتا ہے. ویسے تم یہاں کیا کر رہی ہو" زینب نے اسکی بات کاٹ دی.
"میں تو بس شاہ زین اور فاطمہ سے افسوس کرنے آئی تھی"
"کس بات کا افسوس" زینب نے دانت کچکچا کر پوچھا.
"اسکی بیٹی کا اور کس کا. اگر بیٹی پیدا ہو جاتی تو گھر میں نعمت کے ساتھ ساتھ رحمت بھی آجاتی" نازنین نے لاڈ سے کہا.
"تمہارے اپنے گھر میں کونسا نعمت کے ساتھ ساتھ کوئی رحمت آئی ہے جو دوسروں کے گھر منہ اٹھا کر چلی آئی ہو" زینب بھی اسکے لاڈ اٹھانے کے بالکل موڈ میں نہیں تھی.
"بھابھی پلیز دیکھیں آج تو فہد بھی آیا ہے" شاہ زین کو روتی بیوی، بےعزتی کراتی دوست اور لڑتی بھابھی سنبھالنی مشکل ہو گئی تھی.
"واو... نازنین آج اسے بھی دھوپ لگوانے کیلیے باہر لے آئی ہو" زینب نے نازنین پر طنز کیا. فہد ان لوگوں میں سے تھا جو اپنی "بلندی" کیلیے بیوی کو کسی بھی "پستی" میں دھکلیل سکتا تھا.
"بھابھی ناو یو آر انسلٹنگ اَس" نازنین کی بھی بس ہو گئی.
"عزت تو میں نے کبھی تمہاری کی ہی نہیں. ناو گیٹ آوٹ" زینب نے اسے باہر کا رستہ دکھا دیا.
نازنین کے ڈبڈبائی آنکھوں سے شاہ زین کی طرف دیکھا. اس سے پہلے کہ وہ اسکے مگرمچھ کے آنسو صاف کرتا زینب ان دونوں کے درمیان آکر کھڑی ہو گئی. نازنین اور فہد سلگتے ہوئے باہر نکل گئے.
............... ............... ...
"مدحت بیگم وہ زوار ہی تھا نا یا کوئی اور ہم سے ملا تھا" جب سے وہ دونوں زوار کے گھر سے لوٹے تھے انکے شاک ہی ختم نہیں ہو رہے تھے. جلال گردیزی نڈھال حالت میں صوفے پر بیٹھتے ہوئے بولے. گل جان نے شرمندگی سے منہ نیچے کر لیا. زوار نے ان کا بھی پاس نہیں رکھا تھا. یہی چیز ان دونوں کو اسوقت دُکھ رہی تھی.
"اسے پتہ تھا کہ ہم اس سارے معاملے کی وضاحت مانگنے آ ئے ہیں مگر اس نے تو آنکھیں ہی پھیر لیں. وضاحت نا سہی مگر اب تو ہم تو جان پہچان سے بھی گئے. زوار نے ہمیں آج بہت مایوس کیا ہے" مدحت گردیزی کی آنکھوں میں آنسو تھے.
سکینہ ، گل اور جان محمد ان سے تھوڑے فاصلے پر کھڑے سب سن رہے تھے. گل نے دو تین بار سکینہ اور جان محمد سے پوچھنے کی کوشش کی مگر انہوں نے گل کو ایک لفظ نہیں بتایا.
"آپ مایوس مت ہوں سب ٹھیک ہو جائے گا. آپ تو بہت مضبوط ہیں" مدحت بیگم انہیں دلاسے دے رہی تھیں.
"اب تو میں تھکنے لگا ہوں. اتنا مضبوط نہیں ہوں میں. میرے اندر سب کچھ ایک چھناکے سے ٹوٹ گیا ہے" جلال گردیزی ایک ہارے ہوئے جواری کی مانند لگ رہے تھے.
کتنی آسانی سے آپ نے کہہ دیا کہ آپ تھک گئے ہیں. آپ تو اس پورے خاندان کا حوصلہ ہیں" مدحت بیگم ٹرپ کر ان کے پاس ہی صوفے پر بیٹھ گئیں.
"آپ خدا سے اچھے کی امید رکھیں. بیوقوف زوار کیلیے کیوں اپنی امیدوں کو آخری سانسوں پر لے جا رہے ہیں. زینب، خاور، شاہ زین اور فاطمہ سب آپکی ڈھال ہیں اور آپ ان کی طاقت"
"اب تو آپ مان گئی ہوں گی کہ ہمارے آفس سے سارے ڈیزائن زوار نے ہی لیک آوٹ کیے ہیں" جلال گردیزی نے مدحت گردیزی سے پوچھا. انہی کے کہنے پر تو وہ زوار سے بات کرنے گئے تھے.
""اب سے بھول جاو کہ زوار نام کا بھی کوئی شخص ہماری زندگی میں تھا. میں اب گھر میں زوار کا ہرگز نام نہ سنوں. زندگی کا یہی اصول ہے جس نے ہنس کر ہمیں بھلایا ہے ہمیں بھی اسے مسکراتے ہوئے وداع کردینا چاہیے. ورنہ ساری زندگی سسک سسک کر گزارنی پڑتی ہے" مدحت بیگم انکی بات سن کر خاموش بیٹھی رہیں یہی حالات کا تقاضا بھی تھا. "ہمارے پاس ہمارے بچے ہیں، پوتے ہیں، ٹھیک ٹھاک چلتا بزنس ہے خدا کا شکر ہے یہی سب بہت ہے"
............... ............... ....
"ہمارا "وڈ کریئیشن" کا بزنس ہے. لکڑی کا فرنیچر بنا کر ہم ایکسپورٹ کرتے ہیں. جلال گردیزی اور میرے بابا جان ملک کے مختلف علاقوں سے لکڑی لاکر اس پر نقش و نگاری اور ڈیزائننگ کروایا کرتے تھے. آہستہ آہستہ کاروبار میں اتنی ترقی ہوئی کہ ہماری کمپنی سے بنایا ہوا فرنیچر باہر کی کئی کمپنیز کو پسند آنے لگا. پھر آفس میں ہم سب بھی آنے لگے. میرے بابا جان نے مجھے بچپن میں ہی کاروبار کی بنیادی چیزیں سکھا دی تھیں. اس لیے جب میں آفس آنے لگا تو مجھے زیادہ پریشانی نہیں ہوئی" زوار ڈرائیونگ کے دوران سندس کو بتا رہا تھا.
"تمہیں لگتا ہے کہ میں بزنس کو زیادہ نہیں جانتا تو غلط لگتا ہے. خاور بھائی اور شاہ زین سے زیادہ سیکھا ہے میں نے. دو سال پہلے تک سب صحیح چل رہا تھا. یا پھر سب کو یہی لگتا رہا کہ سب ٹھیک ہے"
"کیا مطلب. میں سمجھ نہیں پائی. کیا غلط ہو رہا تھا آفس میں" سندس نے چونک کر پوچھا.
"یہ پوچھو کیا غلط نہیں ہو رہا. ہماری کمپنی میں جو ٹمبر اور وڈ لایا جا رہا تھا اس میں ہیروئین، کوکین اور ایسی کئی منشیات بھر کر لائی جا رہی تھیں. پھر یہاں سے ہماری کمپنی کے زریعے کئی ملکوں میں ہمارے بنائے فرنیچر میں ہی بھر کر کئی ملکوں میں بھیجا جا رہا تھا."
"او مائی گاڈ" سندس حیرانی سے چیخی. "آپکو کیسے پتہ لگا"
"کیسے پتہ لگنا تھا. کسٹم آفیسر نے ایک دو بار نوٹس کرکے ہماری کمپنی کے خلاف شکایت کردی. شک تو سب کو ہی تھا. میری موجودگی میں جب تلاشی لی گئی تو سب واضع ہو گیا"
"توبہ توبہ شکل سے تو بالکل بھی وہ سب دو نمبری نہیں لگتے. کرتوت تو دیکھو" سندس نے کانوں کو ہاتھ لگاتے کہا
"اب انکے سارے کارنامے دنیا دیکھے گی جب انکی فائلیں اوپر پہنچائی جائیں گی" زوار نے گاڑی کی اسپیڈ بڑھاتے ہوئے کہا
"اسی لیے نازنین، فہد اور جہانگیر کی چیخیں نکل رہی ہیں" سندس بولی.
"نازنین اور جہانگیر اتنے امیر گھرانے سے تعلق نہیں رکھتے تھے. ویسے امیر تو وہ تھے لیکن انکے حالات یکدم خراب ہو گئے. پھر ان دونوں نے نہ حلال دیکھا نہ حرام. بس معاشرے میں اپنی ساکھ برقرار رکھنے کیلیے انہیں جو صحیح لگا انہوں نے وہی کیا. اور اس سب میں سب سے برا نازنین کی فہد سے شادی کرائی. فہد انکے چچا کا بیٹا تھا. اکلوتے ہونے کی وجہ سے اسے گھر میں کوئی روک ٹوک نہیں تھی. اوپر سے پیسہ اڑانے کی عادت بھی بہت تھی. دوست بھی اسے سارے چرسی نکمے ملے"
"اسی نے نازنین اور جہانگیر کو غلط راہ لگایا ہوگا" سندس کو یہ سب سن کر افسوس ہوا
"اب یہی سب غلط ٹھیک بھی ہونے لگا ہے" زوار نے مسکراتے ہوئے کہا
"کیسے...... زوار آپکا کیا مطلب ہے...... آپ کیا کرنے والے ہیں" سندس نے اسکی مسکراہٹ سے اندازہ لگانا چاہا.
"اپنی منزل متعین کرنے کیلیے انسان کو ہمیشہ ایسی شمع جلانی پڑتی ہے جس کی روشنی میں دوسرے بھی اپنی منزل متعین کر سکیں" زوار نے اک ادا سے کہا
"سنیں یہ آپ نے کیا راستہ منزل لگا رکھا ہے ٹھیک سے بتائیے نہ. ایک تو راستہ اتنا سنسان ہے اوپر سے آپ ڈرا رہے ہیں." سندس اسکی دل دہلا دینے والی باتوں سے ڈر گئی.
"سندس اگر زندگی میں راستہ خوبصورتی سے اپنی منزل کی طرف جا رہا ہو اور منزل بھی خوبصورت ہو تو راستے کی پروا نہیں کیا کرتے. مجھے رب کے گھر بہت امید ہے کہ ہمارے سارے کام ٹھیک ہو جانے ہیں" زوار اپنے فلسفے جھاڑ رہا تھا.
"یہ آگے راستہ کیوں بند کر رکھا ہے. اتنی ٹریفک تو کبھی نہیں اس راستے پر ہوئی" زوار آگے گاڑیوں کی قطار دیکھ کر کہنے لگا.
"تو اب تک ہم کسی شارٹ کٹ سے آرہے تھے کیا" سندس نے زوار کو گھورا.
"ارے نہیں بابا. تم رکو میں آگے جاکر دیکھ کر آتا ہوں" زوار اسے تسلی دیتا گاڑی سے اترنے لگا. زوار کے ساتھ ہی سندس بھی گاڑی سے باہر آگئی.
"تم کیوں باہر آگئی" زوار نے پیچھے مڑ کر سندس سے پوچھا.
"جہاں اتنا راستہ اکٹھے طے کیا ہے وہاں تھوڑا اور سہی" سندس نے مسکرا کر جواب دیا. اتنے میں کئی نقاب پوش ان گاڑیوں کی اوٹ سے باہر نکل کر ان دوںوں کی طرف بڑھنے لگے. جب تک زوار اور سندس انکی طرف متوجہ ہوئے فضا میں گولیوں کی تڑتڑاہٹ گونج اٹھی.
............... ............... ...........
"کھڑ کھڑ کھڑ" سنعان اور قانیتہ گھر کی ہر چیز بجا کر تھک چکے تھے مگر سجوہ نے انکی اچھی بجائی ہوئی تھی. رو رو کے ان تینوں کا بھی رونا نکال دیا تھا.
"بھائی فیڈر تیار ہوا یا نہیں" سنعان نے ڈرائنگ روم سے آواز لگائی.
"دودھ نہیں گرم کرکے ڈالنا جو میں گرم کروں اور فیڈر بھر کے لے آوں. مجھ سے نہیں بنتے خشک دودھ سے فیڈر" عارب اپنے ایک ہاتھ میں فیڈر دوسرے میں ڈبہ اٹھائے باہر آگیا.
"ممی اور ڈیڈی کہاں رہ گئے" سنعان سجوہ کو اٹھائے ایک جگہ سے دوسری جگہ مسلسل چکر لگا رہا تھا.
"کہہ تو رہے تھے کہ جلد آجائیں گے" عارب نے صوفے پر بیٹھتے کہا.
"یہ کہاں سے جلدی ہے. پتہ بھی ہے کہ گھر میں ایک بچی کا اضافہ ہوا ہے. اب تک تو انہیں آجانا چاہیے تھا" قانیتہ سجوہ کے سامنے ایک ایک چیز پٹخ پٹخ کر تھک گئی تھی.
"دعا کرو جلدی آجائیں" سنعان روہانسے لہجے میں بولا.
"بھائی سجوہ کو کچھ اور تو دینا نہیں. پلیز کچھ کریں نہیں تو یہ بھوک کے مارے ہمیں ہی کھا جائے گی" قانیتہ کا بھی برا حال تھا.
"بھائی نیٹ سے دیکھ لیں. آجکل ہر چیز آسانی سے مل جاتی ہے" قانیتہ کا مشورہ ان دونوں کے دل پر لگا تھا.
"یہ صحیح ہے. نیٹ سے دیکھ لیتے ہیں. اب کی ہے سیانوں والی بات" عارب فوراََ فون لینے بھاگا.
............... ............... .....
"سائیں اور کتنا دور ہے آپکا گھر. میں تو تھک گیا" فیروز کی چلتے چلتے بس ہو گئی تھی. مگر بولتے بولتے اسکی زبان زرا نہیں تھکی تھی.
"تو فیروز میاں اب آپ یہ چاہتے ہیں کہ میں آپکو رکشہ کروا دوں" پیر سائیں کی بات سن کر فیروز فوراََ سیدھا کھڑا ہو گیا.
"سائیں مجھے بخت روشن سے ملنا ہے. پتہ نہیں وہ کس حال میں ہو گی"
"تو میاں ایسے کہیے کہ آپ سوچ سوچ کے تھک گئے ہیں نا کہ چل چل کے" پیر سائیں کے صحیح اندازے پر فیروز شرمندہ ہو گیا.
"ابھی تھوڑا دور ہے ہمارا گھر. اس لیے پریشان نہیں ہو. جب تھکنے لگو تو یہی سوچ لینا کہ ہم نے یہ سفر کیوں شروع کیا تھا. بڑی منزلوں کے مسافر کبھی دل چھوٹا نہیں رکھتے" پیر سائیں اس سے کہتے آگے بڑھنے لگے.
............... ............... .
"بھابھی آپ نے اس بیچاری کو ایویں اتنی سنا دیں" فاطمہ نازنین کے جانے کے بعد زینب سے بولی.
"اتنا غم نہ کرو. وہ اسی قابل تھی" زینب اپنے غصے کو ٹھنڈا کر رہی تھی.
"فہد بھی خوامخواہ رگڑا گیا" شاہ زین بھی افسوس سے بولا.
"تم دونوں نے خاموش ہونا ہے یا دو چار میں تم دونوں کو بھی سناوں" زینب نے قریباََ چیختے ہوئے کہا
"یہ دنیا ہے پیارے یہاں کئی رنگ کے لوگ ملیں گے. صرف گوری چمڑی دیکھ کر کوئی نہیں اندازہ لگا سکتا کہ اسکا دل کتنا کالا ہے. اگر گورا رنگ ہی زخموں کا علاج کرپاتا تو نمک زخموں کی دوا ہوتی. ایک بہت مشہور صوفیانہ کلام ہے.
اتھے کئیاں نوں مان وفاواں دا
تے کئیاں نوں ناز اداواں دا
اسی پیلے پتے درختاں دے
سانوں رہندا خوف ہواواں دا ( وارث شاہ)
ہمیں چوٹ لگی ہے اس لیے ہمیں بھی پیلے پتوں کی طرح ہواوں سے خبردار رہنا چاہیئے" زینب نے ان دونوں کی ٹھیک ٹھاک تسلی کرادی.
"بھابھی ہم گھر کب جائیں گے" فاطمہ نے اچانک بات بدل دی.
"ابھی مجھے آپریشن تھیٹر جانا ہے. تھوڑی دیر میں واپس آتی ہوں پھر چلتے ہیں" زینب اسکے آنسو صاف کرتے ہوئے کہنے لگی.
"بھائی کہاں گئے" شاہ زین بولا
"وہ تو مجھے یہاں چھوڑ کر خود باہر نکل گئے" زینب اس پر بھی تپی ہوئی تھی.
"اوہ اب سجھا آپکو زیادہ دکھ ہی اس بات کا ہے کہ بھائی آپکو یہاں اکیلا چھوڑ کر چلے گئے" شاہ زین نے مسکراتے ہوئے کہا
"جانا کہاں ہے تمہارے بھائی نے. جا کر تو دکھائیں" زینب نے تڑختے ہوئے کہا. ان دونوں کو ہنستا دیکھ کر زینب کو اپنی بے اختیاری کا احساس ہوا. اپنی خجالت مٹانے کو سائیڈ ٹیبل پر پڑی باسکٹ میں سے سیب نکال کر شاہ زین کو مارتی وہ کمرے سے ہی واک آوٹ کر گئی.
............... ............... ...........
"ایمرجنسی.....ا یکسیڈنٹ کیس. ڈاکٹر کو بلاو" پولیس کی بھاری نفری دو بےجان وجود گھسیٹے لا رہی تھی.
"او گاڈ یہ کون اتنی بری حالت میں آیا ہے" مارتھا اسٹیچر پر گرے سفید کپڑوں کو لال رنگ سے تر ہوتا دیکھ کر سوچنے لگی. اتنے میں ڈاکٹر اسٹیچرز کو ایمرجنسی وارڈ میں لے گئے.
"کوئی آس پاس دکھا یا نہیں"
"نہیں کوئی آدمی تو نہیں دکھا. البتہ سارے شیل اکٹھے کر لیے گئے ہیں"
"اچھی بات ہے. تمہیں کیا لگتا ہے کہ یہ بچ جائیں گے"
"بہت مشکل ہے. اتنی گولیاں لگنے کے بعد بہت مشکل ہے انکا بچنا" پولیس آپس میں بات کرنے لگی.
"سر کہہ رہے تھے کہ گاڑی کے نمبر سے پتہ کرواو"
"گاڑی کا نمبر سوشل میڈیا پر بھی لگوا دیا ہے. باقی سارے تھانوں میں بھی بتا دیا ہے"
"ہوں... اچھا کیا. ویسے گاڑی کا نمبر کیا تھا ہم بھی اپنے پاس محفوظ کرلیں"
"بڑا آسان ہے نمبر. وہ تو تم لوگوں کو زبانی یاد ہو جائے گا"
"بی جے ایف نوے نوے"
بی جے ایف نائن زیرو...نائن زیرو" وہ سب نمبر دہرانے لگے. مارتھا چلتے چلتے اچانک پلٹی.
"بی جے ایف نو صفر نو صفر......... ڈاکٹر صاحبہ" مارتھا کے قدموں تلے زمین کھسک گئی.
............... ............... ...........
پرستان سے آئی کوئی پری ہو گی
معصوم انداز میں وہ کھڑی ہو گی
پھول پریشان ہونگے اسکی خوشبو سے
وہ پھول کی کوئی پنکھڑی ہو گی
سنعان اور عارب تو موبائل میں گھسے پڑے تھے. قانیتہ ہی بھونڈے سُر لگا کر سجوہ کو لوریاں دے رہی تھی.
"چپ ہو جا میری جان پلیز چپ ہو جا. میری اپنی جان نکلنے لگ گئی ہے" قانیتہ اسے لے کر صوفے پر بیٹھی.
"دیکھو تو اپنی نیلی آنکھوں سے روتی کتنی لال ہو گئی ہے. برادرز تم دونوں کو ایک فیڈر بنانے کا طریقہ نہیں مل رہا" قانیتہ سجوہ کو ایک طرف لٹا کر اپنے بھائیوں کے سر پر جاکر کھڑی ہو گئی. ان دونوں کی نظریں کسی خاص چیز پر ٹکی ہوئی تھیں.
"عارب بھائی، سنعان کیا ہوا ہے. کتنی بار ویڈیو چل چل کر ختم ہو گئی لیکن آپ دونوں کہاں کھوئے ہوئے ہیں" قانیتہ نے انکے کندھے ہلا کر پوچھا.
"عدن یہ نمبر پلیٹ تو ہماری گاڑی کا ہی ہے نا. دیکھو تو زرا" سائید پر ایک قطار میں کئی خبریں اور تصاویر چھپی ہوئی تھیں. قانیتہ عدن نے اسکے ہاتھ سے موبائل لیا.
"یہ تو ہماری ہی گاڑی ہے. ایک منٹ" قانیتہ ان دونوں سے کہتی باہر کو بھاگی.
"اسے کیا ہوا ہے" سنعان نے عارب سے پوچھا.
"اللہ جانے" عارب کھڑا ہو گیا.
"بھائی باقی ساری گاڑیاں گیراج میں ہی کھڑی ہیں صرف ایک گاڑی نہیں ہے جو ممی ڈیڈی لیکر گئے تھے" قانیتہ نے واپس آتے ہی شور مچا دیا.
"بھائی ممی اور ڈیڈ کہاں گئے ہوں گے" سنعان نے اسکے بازو کو پکڑتے پوچھا.
"کہیں نہیں گئے ہوں گے. چلو آو قانیتہ پھپھو سے بات کرتے ہیں" عارب نے اسے تسلی دیتے ہوئے قانیتہ سے کہا
"وہ ہماری مد د کیوں کریں گے" سنعان نے حیرانی سے پوچھا.
"پوچھ کر آنے میں کیا حرج ہے" عارب نے قانیتہ کا ہاتھ پکڑا.
"میں تو نہیں آرہا. آپ دونوں ہی جائیں. میں سجوہ کے ساتھ ہی ٹھیک ہوں" سنعان تو جانے کے حق میں ہی نہیں تھا.
"تمہیں کون بلا رہا ہے. یہیں پر ہی رہنا سجوہ کے ساتھ" قانیتہ نے سنعان سے غصے سے کہا.
"اور یہ فیڈر بنا کر سجوہ کو پلا دینا" عارب نے فیڈر اسکے ہاتھ میں دیا.
"یاد رہے کہ زیادہ گرم نہ ہو نہیں تو سجوہ کو ٹانسلز ہو سکتے ہیں. آئی سمجھ" قانیتہ سنعان کو نصیحتیں کرتی عارب کے ساتھ باہر چلی گئی.
............... ............... ........
"اتنی دیر لگتی ہے فون اٹھانے میں" فون کے پار گرجدار آواز ابھری.
"اوہ..... سو سوری سر. پتہ نہیں چلا" اب پچھتانے کے سوا اسکے پاس کچھ نہ تھا.
"ایڈیٹس. اب زیادہ صفائیاں مت دو. کام کی بات کرو. پہلے ہی میں بہت مصروف ہوں" اسے انکے رونوں میں ذرہ برابر دلچسپی نہ تھی. اسکے اپنے رونے بہت تھے.
"جججی سر...."
"زوار گھر سے نکلا یا ابھی بھی نہیں" فون کے پار سے سختی سے پوچھا گیا.
"سر ابھی نکلا ہی تھا کہ اسے کسی نے روک لیا. بڑی مشکلوں سے اسکی گاڑی آگے بڑھنے لگی ہے" زوار کی گاڑی کے پیچھے اپنی گاڑی کی اسپیڈ بڑھاتے وہ کہنے لگا.
"اچھا ٹھیک ہے. فالو ہِم. میک شیور اس کا کام ختم ہو جائے" آگے کے پلان سے بھی اسے آگاہ کر دیا گیا.
"ڈونٹ وری سر. ہم تب تک ان کے ساتھ ہی رہیں گے جب تک ان دونوں کا کام نہ ختم ہو جائے"
"گڈ. وقار میں نے ایسے ہی تو تمہیں اس کام کیلیے نہیں چنا. خدا پر بھروسہ کرکے آگے بڑھتے رہو. جنہیں خدا پر بھروسہ ہو انکی منزل کامیابی ہوتی ہے"
"یس سر. خدا حافظ"
"اللہ حافظ"
...............
"ارے بھابھی آپ وہاں دروازے میں ہی کیوں کھڑی ہیں. آئیں نا پلیز" زینب بھی خاور کے ساتھ ہی بھاگنے کا سوچ رہی تھی کہ نازنین کی اس پر نظر پڑ گئی. بڑے خلوص سے کہنے لگی.
"ہاسپٹل میرا، گھر والے میرے تم کون ہوتی ہو مجھے ویلکم کرنے والی" زینب نے کسی کا بھی لحاظ کیے بنا اسکے خلوص کا جلوس نکال دیا.
"بھابھی آپ تو برا ہی مان گئیں میں تو صرف......."
"برا ماننے والی باتوں کا ہی برا مانا جاتا ہے. ویسے تم یہاں کیا کر رہی ہو" زینب نے اسکی بات کاٹ دی.
"میں تو بس شاہ زین اور فاطمہ سے افسوس کرنے آئی تھی"
"کس بات کا افسوس" زینب نے دانت کچکچا کر پوچھا.
"اسکی بیٹی کا اور کس کا. اگر بیٹی پیدا ہو جاتی تو گھر میں نعمت کے ساتھ ساتھ رحمت بھی آجاتی" نازنین نے لاڈ سے کہا.
"تمہارے اپنے گھر میں کونسا نعمت کے ساتھ ساتھ کوئی رحمت آئی ہے جو دوسروں کے گھر منہ اٹھا کر چلی آئی ہو" زینب بھی اسکے لاڈ اٹھانے کے بالکل موڈ میں نہیں تھی.
"بھابھی پلیز دیکھیں آج تو فہد بھی آیا ہے" شاہ زین کو روتی بیوی، بےعزتی کراتی دوست اور لڑتی بھابھی سنبھالنی مشکل ہو گئی تھی.
"واو... نازنین آج اسے بھی دھوپ لگوانے کیلیے باہر لے آئی ہو" زینب نے نازنین پر طنز کیا. فہد ان لوگوں میں سے تھا جو اپنی "بلندی" کیلیے بیوی کو کسی بھی "پستی" میں دھکلیل سکتا تھا.
"بھابھی ناو یو آر انسلٹنگ اَس" نازنین کی بھی بس ہو گئی.
"عزت تو میں نے کبھی تمہاری کی ہی نہیں. ناو گیٹ آوٹ" زینب نے اسے باہر کا رستہ دکھا دیا.
نازنین کے ڈبڈبائی آنکھوں سے شاہ زین کی طرف دیکھا. اس سے پہلے کہ وہ اسکے مگرمچھ کے آنسو صاف کرتا زینب ان دونوں کے درمیان آکر کھڑی ہو گئی. نازنین اور فہد سلگتے ہوئے باہر نکل گئے.
...............
"مدحت بیگم وہ زوار ہی تھا نا یا کوئی اور ہم سے ملا تھا" جب سے وہ دونوں زوار کے گھر سے لوٹے تھے انکے شاک ہی ختم نہیں ہو رہے تھے. جلال گردیزی نڈھال حالت میں صوفے پر بیٹھتے ہوئے بولے. گل جان نے شرمندگی سے منہ نیچے کر لیا. زوار نے ان کا بھی پاس نہیں رکھا تھا. یہی چیز ان دونوں کو اسوقت دُکھ رہی تھی.
"اسے پتہ تھا کہ ہم اس سارے معاملے کی وضاحت مانگنے آ ئے ہیں مگر اس نے تو آنکھیں ہی پھیر لیں. وضاحت نا سہی مگر اب تو ہم تو جان پہچان سے بھی گئے. زوار نے ہمیں آج بہت مایوس کیا ہے" مدحت گردیزی کی آنکھوں میں آنسو تھے.
سکینہ ، گل اور جان محمد ان سے تھوڑے فاصلے پر کھڑے سب سن رہے تھے. گل نے دو تین بار سکینہ اور جان محمد سے پوچھنے کی کوشش کی مگر انہوں نے گل کو ایک لفظ نہیں بتایا.
"آپ مایوس مت ہوں سب ٹھیک ہو جائے گا. آپ تو بہت مضبوط ہیں" مدحت بیگم انہیں دلاسے دے رہی تھیں.
"اب تو میں تھکنے لگا ہوں. اتنا مضبوط نہیں ہوں میں. میرے اندر سب کچھ ایک چھناکے سے ٹوٹ گیا ہے" جلال گردیزی ایک ہارے ہوئے جواری کی مانند لگ رہے تھے.
کتنی آسانی سے آپ نے کہہ دیا کہ آپ تھک گئے ہیں. آپ تو اس پورے خاندان کا حوصلہ ہیں" مدحت بیگم ٹرپ کر ان کے پاس ہی صوفے پر بیٹھ گئیں.
"آپ خدا سے اچھے کی امید رکھیں. بیوقوف زوار کیلیے کیوں اپنی امیدوں کو آخری سانسوں پر لے جا رہے ہیں. زینب، خاور، شاہ زین اور فاطمہ سب آپکی ڈھال ہیں اور آپ ان کی طاقت"
"اب تو آپ مان گئی ہوں گی کہ ہمارے آفس سے سارے ڈیزائن زوار نے ہی لیک آوٹ کیے ہیں" جلال گردیزی نے مدحت گردیزی سے پوچھا. انہی کے کہنے پر تو وہ زوار سے بات کرنے گئے تھے.
""اب سے بھول جاو کہ زوار نام کا بھی کوئی شخص ہماری زندگی میں تھا. میں اب گھر میں زوار کا ہرگز نام نہ سنوں. زندگی کا یہی اصول ہے جس نے ہنس کر ہمیں بھلایا ہے ہمیں بھی اسے مسکراتے ہوئے وداع کردینا چاہیے. ورنہ ساری زندگی سسک سسک کر گزارنی پڑتی ہے" مدحت بیگم انکی بات سن کر خاموش بیٹھی رہیں یہی حالات کا تقاضا بھی تھا. "ہمارے پاس ہمارے بچے ہیں، پوتے ہیں، ٹھیک ٹھاک چلتا بزنس ہے خدا کا شکر ہے یہی سب بہت ہے"
...............
"ہمارا "وڈ کریئیشن" کا بزنس ہے. لکڑی کا فرنیچر بنا کر ہم ایکسپورٹ کرتے ہیں. جلال گردیزی اور میرے بابا جان ملک کے مختلف علاقوں سے لکڑی لاکر اس پر نقش و نگاری اور ڈیزائننگ کروایا کرتے تھے. آہستہ آہستہ کاروبار میں اتنی ترقی ہوئی کہ ہماری کمپنی سے بنایا ہوا فرنیچر باہر کی کئی کمپنیز کو پسند آنے لگا. پھر آفس میں ہم سب بھی آنے لگے. میرے بابا جان نے مجھے بچپن میں ہی کاروبار کی بنیادی چیزیں سکھا دی تھیں. اس لیے جب میں آفس آنے لگا تو مجھے زیادہ پریشانی نہیں ہوئی" زوار ڈرائیونگ کے دوران سندس کو بتا رہا تھا.
"تمہیں لگتا ہے کہ میں بزنس کو زیادہ نہیں جانتا تو غلط لگتا ہے. خاور بھائی اور شاہ زین سے زیادہ سیکھا ہے میں نے. دو سال پہلے تک سب صحیح چل رہا تھا. یا پھر سب کو یہی لگتا رہا کہ سب ٹھیک ہے"
"کیا مطلب. میں سمجھ نہیں پائی. کیا غلط ہو رہا تھا آفس میں" سندس نے چونک کر پوچھا.
"یہ پوچھو کیا غلط نہیں ہو رہا. ہماری کمپنی میں جو ٹمبر اور وڈ لایا جا رہا تھا اس میں ہیروئین، کوکین اور ایسی کئی منشیات بھر کر لائی جا رہی تھیں. پھر یہاں سے ہماری کمپنی کے زریعے کئی ملکوں میں ہمارے بنائے فرنیچر میں ہی بھر کر کئی ملکوں میں بھیجا جا رہا تھا."
"او مائی گاڈ" سندس حیرانی سے چیخی. "آپکو کیسے پتہ لگا"
"کیسے پتہ لگنا تھا. کسٹم آفیسر نے ایک دو بار نوٹس کرکے ہماری کمپنی کے خلاف شکایت کردی. شک تو سب کو ہی تھا. میری موجودگی میں جب تلاشی لی گئی تو سب واضع ہو گیا"
"توبہ توبہ شکل سے تو بالکل بھی وہ سب دو نمبری نہیں لگتے. کرتوت تو دیکھو" سندس نے کانوں کو ہاتھ لگاتے کہا
"اب انکے سارے کارنامے دنیا دیکھے گی جب انکی فائلیں اوپر پہنچائی جائیں گی" زوار نے گاڑی کی اسپیڈ بڑھاتے ہوئے کہا
"اسی لیے نازنین، فہد اور جہانگیر کی چیخیں نکل رہی ہیں" سندس بولی.
"نازنین اور جہانگیر اتنے امیر گھرانے سے تعلق نہیں رکھتے تھے. ویسے امیر تو وہ تھے لیکن انکے حالات یکدم خراب ہو گئے. پھر ان دونوں نے نہ حلال دیکھا نہ حرام. بس معاشرے میں اپنی ساکھ برقرار رکھنے کیلیے انہیں جو صحیح لگا انہوں نے وہی کیا. اور اس سب میں سب سے برا نازنین کی فہد سے شادی کرائی. فہد انکے چچا کا بیٹا تھا. اکلوتے ہونے کی وجہ سے اسے گھر میں کوئی روک ٹوک نہیں تھی. اوپر سے پیسہ اڑانے کی عادت بھی بہت تھی. دوست بھی اسے سارے چرسی نکمے ملے"
"اسی نے نازنین اور جہانگیر کو غلط راہ لگایا ہوگا" سندس کو یہ سب سن کر افسوس ہوا
"اب یہی سب غلط ٹھیک بھی ہونے لگا ہے" زوار نے مسکراتے ہوئے کہا
"کیسے...... زوار آپکا کیا مطلب ہے...... آپ کیا کرنے والے ہیں" سندس نے اسکی مسکراہٹ سے اندازہ لگانا چاہا.
"اپنی منزل متعین کرنے کیلیے انسان کو ہمیشہ ایسی شمع جلانی پڑتی ہے جس کی روشنی میں دوسرے بھی اپنی منزل متعین کر سکیں" زوار نے اک ادا سے کہا
"سنیں یہ آپ نے کیا راستہ منزل لگا رکھا ہے ٹھیک سے بتائیے نہ. ایک تو راستہ اتنا سنسان ہے اوپر سے آپ ڈرا رہے ہیں." سندس اسکی دل دہلا دینے والی باتوں سے ڈر گئی.
"سندس اگر زندگی میں راستہ خوبصورتی سے اپنی منزل کی طرف جا رہا ہو اور منزل بھی خوبصورت ہو تو راستے کی پروا نہیں کیا کرتے. مجھے رب کے گھر بہت امید ہے کہ ہمارے سارے کام ٹھیک ہو جانے ہیں" زوار اپنے فلسفے جھاڑ رہا تھا.
"یہ آگے راستہ کیوں بند کر رکھا ہے. اتنی ٹریفک تو کبھی نہیں اس راستے پر ہوئی" زوار آگے گاڑیوں کی قطار دیکھ کر کہنے لگا.
"تو اب تک ہم کسی شارٹ کٹ سے آرہے تھے کیا" سندس نے زوار کو گھورا.
"ارے نہیں بابا. تم رکو میں آگے جاکر دیکھ کر آتا ہوں" زوار اسے تسلی دیتا گاڑی سے اترنے لگا. زوار کے ساتھ ہی سندس بھی گاڑی سے باہر آگئی.
"تم کیوں باہر آگئی" زوار نے پیچھے مڑ کر سندس سے پوچھا.
"جہاں اتنا راستہ اکٹھے طے کیا ہے وہاں تھوڑا اور سہی" سندس نے مسکرا کر جواب دیا. اتنے میں کئی نقاب پوش ان گاڑیوں کی اوٹ سے باہر نکل کر ان دوںوں کی طرف بڑھنے لگے. جب تک زوار اور سندس انکی طرف متوجہ ہوئے فضا میں گولیوں کی تڑتڑاہٹ گونج اٹھی.
...............
"کھڑ کھڑ کھڑ" سنعان اور قانیتہ گھر کی ہر چیز بجا کر تھک چکے تھے مگر سجوہ نے انکی اچھی بجائی ہوئی تھی. رو رو کے ان تینوں کا بھی رونا نکال دیا تھا.
"بھائی فیڈر تیار ہوا یا نہیں" سنعان نے ڈرائنگ روم سے آواز لگائی.
"دودھ نہیں گرم کرکے ڈالنا جو میں گرم کروں اور فیڈر بھر کے لے آوں. مجھ سے نہیں بنتے خشک دودھ سے فیڈر" عارب اپنے ایک ہاتھ میں فیڈر دوسرے میں ڈبہ اٹھائے باہر آگیا.
"ممی اور ڈیڈی کہاں رہ گئے" سنعان سجوہ کو اٹھائے ایک جگہ سے دوسری جگہ مسلسل چکر لگا رہا تھا.
"کہہ تو رہے تھے کہ جلد آجائیں گے" عارب نے صوفے پر بیٹھتے کہا.
"یہ کہاں سے جلدی ہے. پتہ بھی ہے کہ گھر میں ایک بچی کا اضافہ ہوا ہے. اب تک تو انہیں آجانا چاہیے تھا" قانیتہ سجوہ کے سامنے ایک ایک چیز پٹخ پٹخ کر تھک گئی تھی.
"دعا کرو جلدی آجائیں" سنعان روہانسے لہجے میں بولا.
"بھائی سجوہ کو کچھ اور تو دینا نہیں. پلیز کچھ کریں نہیں تو یہ بھوک کے مارے ہمیں ہی کھا جائے گی" قانیتہ کا بھی برا حال تھا.
"بھائی نیٹ سے دیکھ لیں. آجکل ہر چیز آسانی سے مل جاتی ہے" قانیتہ کا مشورہ ان دونوں کے دل پر لگا تھا.
"یہ صحیح ہے. نیٹ سے دیکھ لیتے ہیں. اب کی ہے سیانوں والی بات" عارب فوراََ فون لینے بھاگا.
...............
"سائیں اور کتنا دور ہے آپکا گھر. میں تو تھک گیا" فیروز کی چلتے چلتے بس ہو گئی تھی. مگر بولتے بولتے اسکی زبان زرا نہیں تھکی تھی.
"تو فیروز میاں اب آپ یہ چاہتے ہیں کہ میں آپکو رکشہ کروا دوں" پیر سائیں کی بات سن کر فیروز فوراََ سیدھا کھڑا ہو گیا.
"سائیں مجھے بخت روشن سے ملنا ہے. پتہ نہیں وہ کس حال میں ہو گی"
"تو میاں ایسے کہیے کہ آپ سوچ سوچ کے تھک گئے ہیں نا کہ چل چل کے" پیر سائیں کے صحیح اندازے پر فیروز شرمندہ ہو گیا.
"ابھی تھوڑا دور ہے ہمارا گھر. اس لیے پریشان نہیں ہو. جب تھکنے لگو تو یہی سوچ لینا کہ ہم نے یہ سفر کیوں شروع کیا تھا. بڑی منزلوں کے مسافر کبھی دل چھوٹا نہیں رکھتے" پیر سائیں اس سے کہتے آگے بڑھنے لگے.
...............
"بھابھی آپ نے اس بیچاری کو ایویں اتنی سنا دیں" فاطمہ نازنین کے جانے کے بعد زینب سے بولی.
"اتنا غم نہ کرو. وہ اسی قابل تھی" زینب اپنے غصے کو ٹھنڈا کر رہی تھی.
"فہد بھی خوامخواہ رگڑا گیا" شاہ زین بھی افسوس سے بولا.
"تم دونوں نے خاموش ہونا ہے یا دو چار میں تم دونوں کو بھی سناوں" زینب نے قریباََ چیختے ہوئے کہا
"یہ دنیا ہے پیارے یہاں کئی رنگ کے لوگ ملیں گے. صرف گوری چمڑی دیکھ کر کوئی نہیں اندازہ لگا سکتا کہ اسکا دل کتنا کالا ہے. اگر گورا رنگ ہی زخموں کا علاج کرپاتا تو نمک زخموں کی دوا ہوتی. ایک بہت مشہور صوفیانہ کلام ہے.
اتھے کئیاں نوں مان وفاواں دا
تے کئیاں نوں ناز اداواں دا
اسی پیلے پتے درختاں دے
سانوں رہندا خوف ہواواں دا ( وارث شاہ)
ہمیں چوٹ لگی ہے اس لیے ہمیں بھی پیلے پتوں کی طرح ہواوں سے خبردار رہنا چاہیئے" زینب نے ان دونوں کی ٹھیک ٹھاک تسلی کرادی.
"بھابھی ہم گھر کب جائیں گے" فاطمہ نے اچانک بات بدل دی.
"ابھی مجھے آپریشن تھیٹر جانا ہے. تھوڑی دیر میں واپس آتی ہوں پھر چلتے ہیں" زینب اسکے آنسو صاف کرتے ہوئے کہنے لگی.
"بھائی کہاں گئے" شاہ زین بولا
"وہ تو مجھے یہاں چھوڑ کر خود باہر نکل گئے" زینب اس پر بھی تپی ہوئی تھی.
"اوہ اب سجھا آپکو زیادہ دکھ ہی اس بات کا ہے کہ بھائی آپکو یہاں اکیلا چھوڑ کر چلے گئے" شاہ زین نے مسکراتے ہوئے کہا
"جانا کہاں ہے تمہارے بھائی نے. جا کر تو دکھائیں" زینب نے تڑختے ہوئے کہا. ان دونوں کو ہنستا دیکھ کر زینب کو اپنی بے اختیاری کا احساس ہوا. اپنی خجالت مٹانے کو سائیڈ ٹیبل پر پڑی باسکٹ میں سے سیب نکال کر شاہ زین کو مارتی وہ کمرے سے ہی واک آوٹ کر گئی.
...............
"ایمرجنسی.....ا
"او گاڈ یہ کون اتنی بری حالت میں آیا ہے" مارتھا اسٹیچر پر گرے سفید کپڑوں کو لال رنگ سے تر ہوتا دیکھ کر سوچنے لگی. اتنے میں ڈاکٹر اسٹیچرز کو ایمرجنسی وارڈ میں لے گئے.
"کوئی آس پاس دکھا یا نہیں"
"نہیں کوئی آدمی تو نہیں دکھا. البتہ سارے شیل اکٹھے کر لیے گئے ہیں"
"اچھی بات ہے. تمہیں کیا لگتا ہے کہ یہ بچ جائیں گے"
"بہت مشکل ہے. اتنی گولیاں لگنے کے بعد بہت مشکل ہے انکا بچنا" پولیس آپس میں بات کرنے لگی.
"سر کہہ رہے تھے کہ گاڑی کے نمبر سے پتہ کرواو"
"گاڑی کا نمبر سوشل میڈیا پر بھی لگوا دیا ہے. باقی سارے تھانوں میں بھی بتا دیا ہے"
"ہوں... اچھا کیا. ویسے گاڑی کا نمبر کیا تھا ہم بھی اپنے پاس محفوظ کرلیں"
"بڑا آسان ہے نمبر. وہ تو تم لوگوں کو زبانی یاد ہو جائے گا"
"بی جے ایف نوے نوے"
بی جے ایف نائن زیرو...نائن زیرو" وہ سب نمبر دہرانے لگے. مارتھا چلتے چلتے اچانک پلٹی.
"بی جے ایف نو صفر نو صفر......... ڈاکٹر صاحبہ" مارتھا کے قدموں تلے زمین کھسک گئی.
...............
پرستان سے آئی کوئی پری ہو گی
معصوم انداز میں وہ کھڑی ہو گی
پھول پریشان ہونگے اسکی خوشبو سے
وہ پھول کی کوئی پنکھڑی ہو گی
سنعان اور عارب تو موبائل میں گھسے پڑے تھے. قانیتہ ہی بھونڈے سُر لگا کر سجوہ کو لوریاں دے رہی تھی.
"چپ ہو جا میری جان پلیز چپ ہو جا. میری اپنی جان نکلنے لگ گئی ہے" قانیتہ اسے لے کر صوفے پر بیٹھی.
"دیکھو تو اپنی نیلی آنکھوں سے روتی کتنی لال ہو گئی ہے. برادرز تم دونوں کو ایک فیڈر بنانے کا طریقہ نہیں مل رہا" قانیتہ سجوہ کو ایک طرف لٹا کر اپنے بھائیوں کے سر پر جاکر کھڑی ہو گئی. ان دونوں کی نظریں کسی خاص چیز پر ٹکی ہوئی تھیں.
"عارب بھائی، سنعان کیا ہوا ہے. کتنی بار ویڈیو چل چل کر ختم ہو گئی لیکن آپ دونوں کہاں کھوئے ہوئے ہیں" قانیتہ نے انکے کندھے ہلا کر پوچھا.
"عدن یہ نمبر پلیٹ تو ہماری گاڑی کا ہی ہے نا. دیکھو تو زرا" سائید پر ایک قطار میں کئی خبریں اور تصاویر چھپی ہوئی تھیں. قانیتہ عدن نے اسکے ہاتھ سے موبائل لیا.
"یہ تو ہماری ہی گاڑی ہے. ایک منٹ" قانیتہ ان دونوں سے کہتی باہر کو بھاگی.
"اسے کیا ہوا ہے" سنعان نے عارب سے پوچھا.
"اللہ جانے" عارب کھڑا ہو گیا.
"بھائی باقی ساری گاڑیاں گیراج میں ہی کھڑی ہیں صرف ایک گاڑی نہیں ہے جو ممی ڈیڈی لیکر گئے تھے" قانیتہ نے واپس آتے ہی شور مچا دیا.
"بھائی ممی اور ڈیڈ کہاں گئے ہوں گے" سنعان نے اسکے بازو کو پکڑتے پوچھا.
"کہیں نہیں گئے ہوں گے. چلو آو قانیتہ پھپھو سے بات کرتے ہیں" عارب نے اسے تسلی دیتے ہوئے قانیتہ سے کہا
"وہ ہماری مد د کیوں کریں گے" سنعان نے حیرانی سے پوچھا.
"پوچھ کر آنے میں کیا حرج ہے" عارب نے قانیتہ کا ہاتھ پکڑا.
"میں تو نہیں آرہا. آپ دونوں ہی جائیں. میں سجوہ کے ساتھ ہی ٹھیک ہوں" سنعان تو جانے کے حق میں ہی نہیں تھا.
"تمہیں کون بلا رہا ہے. یہیں پر ہی رہنا سجوہ کے ساتھ" قانیتہ نے سنعان سے غصے سے کہا.
"اور یہ فیڈر بنا کر سجوہ کو پلا دینا" عارب نے فیڈر اسکے ہاتھ میں دیا.
"یاد رہے کہ زیادہ گرم نہ ہو نہیں تو سجوہ کو ٹانسلز ہو سکتے ہیں. آئی سمجھ" قانیتہ سنعان کو نصیحتیں کرتی عارب کے ساتھ باہر چلی گئی.
...............
سائیں ہم پہنچ کیوں نہیں رہے. کب سے ہم چلتے جا رہے ہیں" فیروز نے وہیں سڑک پر بیٹھتے ہوئے ان سے پوچھا.
"ابھی تھوڑا اور چلنا باقی ہے" وہ بھی فیروز کے پاس رک گئے.
"سائیں اور نہیں" فیروز نے دونوں ہاتھوں کو ہلاتے ہوئے کہا.
"اٹھو اٹھو. ابھی اور آگے جانا ہے. سفر کا بھی ایک نشہ ہوتا ہے" انہوں نے فیروز کو اٹھایا.
"ہماری منزل کتنی دور ہے" فیروز اٹھ کر ان کے ساتھ چلنے لگا. "فاصلہ تو طے ہی نہیں ہو رہا"
"منزلیں اور فاصلے مسلسل ایک دوڑ میں ہیں. پاوں بھی اپنی جگہ ہیں، راستہ بھی اپنی جگہ ہے" فیروز کو ایک چیز کی سمجھ نہیں آئی تھی اس لیے وہ بس خاموشی سے چلا جا رہا تھا.
"ایک بات تو بتاو فیروز میاں" انہوں نے چلتے چلتے اچانک سوال کیا.
"ٹیرھے میڑھے، الٹے سیدھے، بھول بھلیوں والے راستے تو اپنی منزل تک پہنچ جاتے ہیں. لیکن جو اپنے محور کے گرد چکر کاٹتی چیزیں ہیں وہ کیسے اپنی منزل پائیں گی" فیروز سر نیچے کیے خاموشی سے چلتا رہا.
"گول گول گھومنے والی چیزیں جب رک جاتی ہیں تو اپنی منزل پا لیتی ہیں. چلنے والے دو پیروں میں کتنا ہی فرق ہے. بس ایک آگے ہے اور ایک پیچھے. لیکن نہ آگے والے نے کبھی غرور کیا ہے نہ پیچھے والے نے توہین کا شکوہ. کیونکہ دونوں کو پتہ ہے کہ پل بھر میں یہ بدلنے والے ہیں. اسی کو زندگی کہتے ہیں" پیر سائیں نے بڑے پیار اور تحمل سے فیروز کے سارے شکوے دور کیے.
............... ............... ..............
"کیا کروں کس کو بتاوں کہ ڈاکٹر صاحبہ اور انکے شوہر پر کسی نے فائرنگ کر دی ہے" مارتھا وہیں ایمرجنسی وارڈ کے باہر کھڑی سوچنے لگی. اتنے میں ڈاکٹر باہر آگئے. اور آتے ہی پولیس اہلکاروں کو ان دونوں کے مرنے کی اطلاع دیتے آگے چلے گئے.
"ہیلو جی سر کام ہو گیا ہے. اب آگے کیا کرنا ہے..... ٹھیک ہے"
مارتھا نے دیوار کا سہارا لے کر خود کو گرنے سے بچایا. فوراََ وارڈ کے اندر جانے لگی.
"او ہیلو. بی بی کدھر جانے کی تیاری ہے" ایک پولیس والے مارتھا کو روک لیا.
"مجھے.....مجھے ایک بار.... اندر جانا ہے" مارتھا نے مشکل سے جملہ مکمل کیا.
"پولیس کی اجازت کے بغیر کہیں جانے کی اجازت نہیں" اس اہلکار نے سختی سے کہا اور مارتھا کو پکڑ کر سائیڈ پر کیا.
"دیکھو ہم سچ بول رہا ہے. ہم ان دونوں کو جانتا ہے" مارتھا نے آخری حربہ بھی استعمال کرنے کی کوشش کی.
"اچھا..... اگر جانتا ہے تو اسکے گھر والوں کو لے کر آو" اہلکار بھی بضد تھا.
"اچھا ٹھیک ہے تم یہیں رکنا. ہم ابھی انکو لے کر آتا ہے" مارتھا اس سے کہتی بھاگی.
"کیا چیز تھی یہ"
"ابھی سارا کھیل بگاڑ دیتی"
اٹھاو ان دونوں کو اس سے پہلے یہ واپس آجائے" تینوں اہلکار مارتھا کی جلد بازیاں دیکھ کر اپنے اپنے کام لگ گئے.
............... ............... ..............
"تم دونوں یہاں کیا کر رہے ہو" سکینہ نے تیزی سے آگے بڑھتے عارب اور قانیتہ کو روکتے ہوئے پوچھا.
"ہمیں پھپھو سے بات کرنی ہے" عارب نے پریشانی سے کہا
"وہ ابھی گھر نہیں ہیں" سکینہ نے جان چھڑانے والے انداز سے کہا
"اچھا حدید یا نائل بھائی، ابی جان، گل جان کوئی تو گھر پر ہوگا" قانیتہ جلدی جلدی بولی.
"اگر کوئی ہو بھی تو میں کیوں کسی کو بلاوں. تم لوگ اسی سلوک کے قابل ہو جو تمہارے باپ نے بڑی سیٹھانی اور ابی جان کے ساتھ کیا ہے. نکلو یہاں سے" سکینہ پہلے ہی اپنے مالکوں کی بے عزتی پر سلگی ہوئی تھی. زرا سی ہوا لگتے ہی بھڑکنے لگی.
"سکینہ بی یہ لڑنے کا وقت نہیں ہے ہمیں ابھی کے ابھی کسی سے بات کرنی ہے" عارب انہیں پیچھے کرتے اندر جانے لگا. گل اوپر چھت پر کھڑی انہیں آپس میں باتیں کرتا دیکھ رہی تھی لیکن جب سکینہ نے انہیں روکا تو فوراََ نیچے بھاگی.
"اندر جانے کی کوشش مت کرنا" سکینہ نے اسے روکا.
"سکینہ بی آپ ایسا کیوں کر رہی ہیں. جانتی نہیں ہمیں. ہم فاطمہ پھپھو کے بھائی کے بچے ہیں" عارب بے یقینی سے سکینہ کو دیکھتے ہوئے بولا.
"اور میری حدید سے شادی بھی ہوئی تھی. آپ وہ بھی بھول گئیں" قانیتہ بھی اسی کیفیت میں کھڑی تھی.
"تم لوگوں کی اصلیت سے ہم اچھے سے واقف ہیں. اور یہاں کوئی اس شادی کو نہیں مانتا" سکینہ نخوت سے بولی.
"جس دن حدید بابا تمہارا ہاتھ پکڑ کر گھر لائیں گے ہم اسی دن تمہیں اس گھر کی بہو مانیں گے" سکینہ قانیتہ عدن کی طرف مڑتے ہوئے کہنے لگی.
"نکلو یہاں سے فوراََ. اس سے پہلے کہ میں کسی گارڈ یا چوکیدار کو بلاوں. نکل جاو یہاں سے" سکینہ نے دھکے دیتے ان دونوں کو گھر سے نکال دیا.
"سکینہ بی بچے آئے تھے کیا کہہ رہے تھے" گل نے پھولے سانس لیتے سکینہ سے پوچھا.
"تمہیں سلام کہہ رہے تھے. ہونہہ" سکینہ نفرت اور حقارت سے کہتی اپنے کوارٹر کی طرف چلی گئی.
............... ............... ..........
"سجوہ میری پیاری بہن، اپنے بھائی کے ہاتھ سے فیڈر پیے گی" سنعان اکیلا گھر بیٹھا سجوہ سے باتیں کرتا اسے فیڈر پلا رہا تھا. اتنے میں گھر کی بیل ہوئی.
"بڑی جلدی بے عزتی کرا کے آگئے" سنعان سجوہ کو لیے باہر آگیا. مگر دروازہ کھولنے پر عارب اور قانیتہ کی جگہ مارتھا کو دیکھ کر حیران رہ گیا.
"آپکو کیا ہوا ہے" سنعان نے اسکی روتی صورت دیکھ کر پوچھا.
"باقی دونوں کہاں ہیں" مارتھا جلدی جلدی اندر کو بھاگی.
"او ہیلو. کہاں جارہی ہیں" سنعان اسکے پیچھے اندر بھاگا.
"اگر انسان کسی دوسرے انسان سے کم سے کم امیدیں رکھے تو دنیا سے آدھے دکھ کم ہو جائیں" عارب خاموش خاموش سی ساتھ آتی قانیتہ سے کہہ رہا تھا.
"لو جی اس سست انسان سنعان نے گیٹ بھی نہیں بند کیا تھا" عارب اور قانیتہ اندر آتے ہوئے کہہ رہے تھے.
"رکو مارتھا گھر کوئی نہیں ہے. یہیں کھڑی رہو ابھی بھائی آجائیں گے" سنعان تلاشی لیتی مارتھا سے کہہ رہا تھا.
"یہ مارتھا اس وقت یہاں کیا کر رہی ہے" عارب اور قانیتہ سنعان کی آوازیں سن کر اس طرف تیزی سے بھاگے.
"خیریت مارتھا اس وقت یہاں" عارب نے اس سے پوچھا.
"کچھ بھی ٹھیک نہیں ہے تم لوگ جلدی سے میرے ساتھ چلو" مارتھا جلدی جلدی کہتی انہیں اپنے ساتھ رکشے میں بٹھا کر ہاسپٹل لے آئی.
"مارتھا آپ ہمیں بتانا پسند کریں گی یہاں کیا ہے" قانیتہ مارتھا کی مچائی افراتفری پر اکتا گئی تھی.
"ایک منٹ تم دونوں یہیں رکو" مارتھا کو کوئی اہلکار نظر نہ آیا تو وہ اپنی ساتھی نرسوں سے پوچھنے گئی.
"وہ سب.... وہ تو انکے گھر والے آگئے تھے وہی انہیں لے کر چلے گئے"
"مارتھا کون تھا یہاں" عارب نے زرد چہرے سے پوچھا.
"تم لوگوں کے ماں باپ..... وہ اب اس دنیا میں کہیں نہیں" مارتھا نے ان تینوں کے پیروں تلے زمین کھسکا دی.
............... ............... ......
"چیئرز..... مبارک ہو تم سب کو. زوار نامی کانٹا ہمارے راستے سے نکل گیا ہے" خرم نے جب سے جہانگیر سیال کو بتایا تھا ان سب سے خوشی ہی سنبھالی نہیں جا رہی تھی.
"یہ ہوئی نا بات. بہت اڑ رہا تھا وہ زوار" فہد اپنا پسندیدہ مشروب گلاس میں ڈالتے ہوئے بولا.
"ابھی ہمارا ایک کام ختم ہوا ہے" نازنین فہد کے پاس بیٹھتے ہوئے بولی.
"دوسرا کام ایس پی خرم خود کرے گا" جہانگیر نے قہقہہ لگاتے ہوئے اسے بتایا.
"اگر آخر میں یہ سب ہی ہونا تھا تو ہمیں پہلے ہی کردینا چاہیئے تھا" فہد نے سکون سے کہا.
"اب پتہ چلے گا ان سب کو. بڑی بےعزتی کی تھی آج گردیزیز نے" نازنین کو زینب سے ہوئی بےعزتی یاد آگئی.
"فائن اٹس اوکے. اب ان کے پر کٹ چکے ہیں زیادہ دیر اڑ نہیں سکتے سو تمہیں بھی فکر کرنے کی ضرورت نہیں" جہانگیر سیال نے اسکے غصے کو کم کرنا چاہا.
"رکیے آپ ایسے کیسے اندر داخل ہوئے جا رہے ہیں"
"یہ اس وقت کون آگیا" وہ تینوں آوازیں سن کر کھڑے ہو گئے.
ان تینوں نے آوازوں پر پیچھے مڑ کر دیکھا. کئی باوردی اہلکار ان تینوں کو گھیرے میں لیے کھڑے ہو گئے.
............... ............... ........
"مارتھا ایسے کیسے ہو سکتا ہے" عارب نے سب سے پہلے شاک سے نکلتے ہوئے پوچھا.
"تو کیا ہم جھوٹ بولتا ہے. ابھی یہاں پر سب میرے سامنے ہی تھا" مارتھا خود پریشان تھی.
"بکواس بند کرو اپنی اور نکلو یہاں سے" قانیتہ نے اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا.
"چلیں بھائی چلو سنعان اور سجوہ کو مجھے دو" قانیتہ نے ان دونوں سے کہتے ہوئے سجوہ کو اسکے ہاتھ سے لیا.
"کہاں جاتا ہے. جو تمہارے ماں باپ کو مار سکتا ہے وہ تم تینوں کے پیچھے بھی آئے گا" مارتھا سیڑھیاں اترتے ان تینوں سے کہہ رہی تھی.
"ہم تمہاری بہت باتیں سن چکے ہیں. اب ہمارے پیچھے مت آنا" عارب بھی قانیتہ کی بات سے متفق تھا.
"اچھا مت مانو میری بات. میں بھی تم لوگوں کے ساتھ چلتا ہے" مارتھا آخر ہار مان کر ان کے ساتھ ہی چل پڑی.
ابھی تھوڑی دور ہی گئے تھے کہ ایک پولیس وین انکے پاس آکر رکی.
"اتنی سنسان سڑک پر اس وقت تم ان بچوں کو کہاں لےکر جا رہی ہو" ایس پی خرم نے وین سے اترتے ہوئے مارتھا سے پوچھا.
"ہم ان بچوں کا گارڈین ہے" مارتھا نے تھوک نگلتے ہوئے بتایا.
"اچھا...." خرم نے اسے سر سے پیر تک دیکھا.
"مجھے تو تم سب وارداتیے زیادہ لگ رہے ہو" خرم نے ہنستے ہوئے کہا. ان سب نے اپنے آپ کو اوپر سے نیچے دیکھا. سب کے سب اول فول حالت میں گھر سے آئے تھے.
"اور یہ کیا لپٹا کر پکڑا ہوا ہے. کہیں کوئی حملہ آور چیز تو نہیں" خرم نے سجوہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا.
"دیکھو آپ میرے ممی پاپا کو نہیں جانتے. وہ ابھی آجائیں گے. پھر دیکھنا وہ تمہارا کیا حال کریں گے" عارب نے اسے ڈرانے کی کوشش کی.
"ہاہاہا. بیوقوف سمجھا ہے کیا جو میں تم لوگوں کی باتوں میں آوں گا" خرم خباثت سے ہنستا انسب کی طرف بڑھنے لگا. اتنے میں ایک گاڑی اسکے پاس آکر رکی.
"ممی پاپا آ گئے" قانیتہ اور سنعان نے خوشی سے اچھلنا شروع کردیا. مارتھا ہکا بکا کھڑی رہی. اسے ان بچوں کی قابلیت پر پورا بھروسہ تھا. آنے والی گاڑی بھی ٹھیک ٹھاک بارعب دکھائی دے رہی تھی. خرم بھی ٹھٹک گیا.
"پاپا کی جان میں نے آپکو وہیں رکنے کا کہا تھا آپ یہاں کیسے آگئے" گاڑی سے اترنے والے شخص نے عارب، قانیتہ اور سنعان کو پیار سے کہا. آنے والے شخص کو دیکھ کر عارب نے جہاں شکر کیا تھا وہیں مارتھا کی جان نکلی تھی. خرم کو اس شخص میں کسی کی شبیہہ دکھائی دی تھی.
"جانو ایسے تو نہیں کرتے. پتہ ہے ہم کتنے پریشان ہو گئے تھے" ایک عورت بھی باہر آئی.
"اچھا اب میرے بچوں کو ڈانٹیے تو مت. ان کو گاڑی میں بٹھائیے ہم ابھی ایس پی صاحب سے بات کرکے آتے ہیں" وہ عورت بچوں اور مارتھا کو لے کر گاڑی میں بیٹھ گئی.
"جی آفیسر کچھ ہوا ہے کیا"
"نن....نہیں تو. ہم تو بس پٹرولنگ پر تھے. بچوں سے انکے گھر کا ہی پوچھ رہے تھے" جب گارڈز کی فوج نے اسے گھیرے میں لیا تو خرم جیسے بندے کی بھی ہوا نکل گئی.
"اب پتہ لگ گیا ہے نا تو یہاں سے چلتے بنیے. آئیندہ میرے بچوں کے آس پاس بھی دکھائی دیے تو نتائج کے ذمے دار آپ خود ہوں گے" مصافحہ کرتے خرم کا ہاتھ اچھے سے دبا کر دھمکی دی گئی. خرم تو فوراََ وہاں سے بھاگا.
اتنے میں وہ شخص گاڑی میں آکر بیٹھا.
"مارتھا تم رات تک بچے لیے باہر کیا کر رہی تھی" مارتھا سے کافی سختی سے پوچھا گیا. اس سے پہلے مارتھا کوئی جواب دیتی. عارب بول پڑا
"انکل مارتھا کا کوئی قصور نہیں ہے. ہمارے ممی پاپا کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے اور وہ مل نہیں رہے. مارتھا کہتی ہے کہ وہ اس ہاسپٹل میں مر گئے ہیں" عارب نے روتے ہوئے جواب دیا. سنعان اور قانیتہ تو ان انکل آنٹی کا شکریہ ادا کرکے اجازت لینے والے تھے مگر عارب کی اتنی فرینکنس دیکھ کر رک گئے.
"بھائی آپ انہیں کیسے جانتے ہیں"
"یہ احمد انکل ہیں. احمد شاہ درانی" عارب نے انہیں بتایا.
"کون سے انکل" قانیتہ نے بھنویں اچکاتے ہوئے بھائی سے پوچھا.
"وہ والے احمد انکل" عارب نے سجوہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اسے دانت پیستے ہوئے جواب دیا.
"اچھا وہ والے احمد انکل" قانیتہ نے منہ سے اچانک نکل گیا.
"انکل ہو سکتا ہے کہ ممی اور پاپا گھر آگئے ہوں. اب ہم چلتے ہیں" عارب نے احمد شاہ درانی سے کہا.
"آپ سب کہیں نہیں جا رہے" احمد شاہ درانی کی وائف جو سجوہ کو بہلا رہی تھیں. ان سب سے بولیں.
"دیکھو بیٹا ابھی ابھی آپ کسی بڑی مصیبت سے بچے ہیں. خوامخواہ کسی اور مصیبت میں پڑ جائیں گے. آپ سب ہمارے ساتھ ہی چلیں گے"
"لیکن آنٹی...." عارب نے بات شروع کی کہ آنٹی نے بات کاٹ دی.
"سب سے پہلی بات آنٹی نہیں مما کہیے. دوسری بات ہم اپنی بات کہہ چکے ہیں اب بدلیں گے نہیں. تیسری بات آپکے گھر کے باہر گارڈ ہوں گے جب آپ کے گھر والے آجائیں تب آپ چلے جائیے گا"
"لیکن ایسے کیسے" قانیتہ سنعان اور عارب نے ایک دوسرے کو دیکھ کر کہا. مارتھا تو اس سارے تماشے کے ختم ہونے کا انتظار کر رہی تھی. بچے محفوظ ہاتھوں میں تھے.
"ابھی میری جان آپ نے اتنے لوگوں کی موجودگی میں ہمیں مما کہا ہے تو یہ آپکی مما اور پاپا کی خواہش سمجھ کر چلے چلیے. ویسے میرا نام ماہ پارہ درانی ہے" ماہ پارہ درانی نے بچوں سے بات کرتے احمد درانی کی طرف دیکھا. انہوں نے سر کے اشارے سے ہاں میں سر ہلا دیا.
"دیکھیے میری جان جلدی چلتے ہیں میرے اپنے بچے گھر میں میرا انتظار کر رہے ہونگے" ماہ پارہ نے مسکراتے ہوئے ان سب سے کہا. سجوہ ابھی تک انہی کے ہاتھ میں تھی.
"اچھا اب ہم بھی چلتا ہے" ہیپی اینڈنگ دیکھ کر مارتھا کو بھی جانے کی جلدی پڑ گئی.
"مارتھا میرا خیال ہے کہ تم ان بچوں کے گھر ہی رہتی ہو. جب بچے کہیں نہیں جارہے تو تم نے اکیلے گھر جاکر کیا کرنا ہے. چپ چاپ تم بھی گاڑی میں بیٹھ جاو" احمد درانی نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے مارتھا سے غصے سے کہا. مارتھا نے عارب کی طرف دیکھا اسنے بھی اسے اشارے سے گاڑی کے اندر بیٹھ جانے کا کہا. مارتھا ہمیشہ ان بچوں کی مد د کرنے کے چکر میں خود پھنس جاتی تھی.
............... ............... .....
رکیے آپ ایسے کیسے اندر داخل ہوئے جا رہے ہیں"
"یہ اس وقت کون آگیا" وہ تینوں آوازیں سن کر کھڑے ہو گئے.
ان تینوں نے آوازوں پر پیچھے مڑ کر دیکھا. کئی باوردی اہلکار ان تینوں کو گھیرے میں لیے کھڑے ہو گئے.
"ک...کک....کون ہو تم لوگ اور یہاں کیا کر رہے ہو" جہانگیر سیال نے اٹکتے ہوئے پوچھا.
"اے این ایف ڈیپارٹمنٹ" انہوں نے اپنے بیجز دکھاتے ہوئے جہانگیر اور فہد کو ہتھکڑی لگائی.
"اینٹی نارکوٹکس ڈیپارٹمنٹ" نازنین نے زیر لب دہرایا. "زوار کی رپورٹ کیسے ان تک پہنچ گئی"
"میرے بارے میں سوچ رہی تھی" زوار نے اسکے کان کے قریب آکر کہا. وہ تینوں اچھل پڑے.
"تم زندہ ہو" انہوں نے حیرانی سے پوچھا.
"بالکل ایک دم فٹ. اللہ کا لاکھ شکر ہے" زوار صوفے پر چوڑے ہوکر بیٹھ گیا.
"ویسے تم لوگوں نے کسر تو کوئی نہیں چھوڑی تھی. مگر کیا کریں ایک لوہار کی سو سنار کی. کہاوت تو سنی ہی ہو گی" دروازے سے اندر آتے شخص نے اونچی آواز سے کہا. وہ تینوں پیچھے مڑے اور ساکت ہو گئے.
"خاور گردیزی" تینوں کی زبان پر ایک ہی نام تھا.
"ہاں میں خاور گردیزی" خاور نے خود پر انگلی سے اشارہ کیا.
"وقار لے جاو ان دونوں کو یہاں سے" خاور نے ایک پیپر پر سائن کرکے خاور کو دیے. پھر فہد اور جہانگیر کے سامنے آکر کھڑا ہوا.
"جلد کورٹ میں ملاقات ہو گی" زوار اور خاور قہقہے لگا کر ہنسنے لگے.
"زوار لگتا ہے تم اپنی اولاد کو بھول رہے ہو" جہانگیر سیال نے انہیں قہقہے لگاتے دیکھ کر کہا.
"مجھے تو میری اولاد نہیں بھولی. البتہ اب جو بھی ہوگا وہ تمہیں ساری زندگی نہیں بھول پائے گا" زوار نے مسکرا کر کہا. اور ان سب کو ہاتھ کے اشارے سے لے جانے کا کہا. نازنین پیچھے تلملاتے ہوئے زوار کو دیکھ رہی تھی.
............... ............... ......
یہ زندگی کا اصول ہے
جو بچھڑ گیا اسے بھول جا
جو ملا ہے دل سے لگا کے رکھ
جو نہیں ملا اسے بھول جا
نہ وہ دھوپ تھا نہ وہ چاندنی
نہ چراغ تھا نہ وہ روشنی
وہ خیال تھا کوئی خواب تھا
وہ تھا آئینہ اسے بھول جا
وہ جو تیرے دل کے قریب تھا
وہ نہ جانے کس کا نصیب تھا
تجھے ہنس کے اس نے بھلا دیا
تو بھی مسکرا کے اسے بھول جا
اس وقت ان سب کا حال اسی طرح کا تھا.
............... ............... ....
"سائیں آپ کچھ بات کیوں نہیں کر رہے. ہم کب سے بس خاموشی سے چلے ہی جارہے ہیں" فیروز نے ان کی طرف دیکھ کر پوچھا.
"خاموشی دانا کا شعار ہے. خاموشی کا ادب کیا کرو یہ آوازوں کی مرشد ہوا کرتی ہے" انہوں نے ایک گھر کے قریب رک کر جواب دیا.
"سائیں ہم کب سے اس گھر کے گرد ہی چکر کاٹ رہے ہیں. آپکا گھر کہاں ہے" فیروز نے اپنے اردگرد دیکھتے ہوئے ان سے پوچھا.
"ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں اپنے محور کے گرد چکر لگانے والے جب رک جاتے ہیں تو اپنی منزل پا لیتے ہیں"
"یہ گھر...." فیروز نے انکی بات سن کر ایک بار انہیں دیکھا، پھر گھر کی طرف دیکھا، پھر انہیں دیکھا.
" د د د.....در...دران ی ہاوس" فیروز کی آواز، جان اور سانسیں سب اٹک گیا.
"ہاں درانی ہاوس. میرا ہاوس" انہوں نے مسکرا کر جواب دیا.
"مطلب پیر سائیں آپ احمد شاہ درانی کے...."
"ہاں ہم احمد شاہ درانی کے والد عبداللہ شاہ درانی" انہوں نے فیروز کے چھکے چھڑا دیے.
............... ..............
"ابھی تھوڑا اور چلنا باقی ہے" وہ بھی فیروز کے پاس رک گئے.
"سائیں اور نہیں" فیروز نے دونوں ہاتھوں کو ہلاتے ہوئے کہا.
"اٹھو اٹھو. ابھی اور آگے جانا ہے. سفر کا بھی ایک نشہ ہوتا ہے" انہوں نے فیروز کو اٹھایا.
"ہماری منزل کتنی دور ہے" فیروز اٹھ کر ان کے ساتھ چلنے لگا. "فاصلہ تو طے ہی نہیں ہو رہا"
"منزلیں اور فاصلے مسلسل ایک دوڑ میں ہیں. پاوں بھی اپنی جگہ ہیں، راستہ بھی اپنی جگہ ہے" فیروز کو ایک چیز کی سمجھ نہیں آئی تھی اس لیے وہ بس خاموشی سے چلا جا رہا تھا.
"ایک بات تو بتاو فیروز میاں" انہوں نے چلتے چلتے اچانک سوال کیا.
"ٹیرھے میڑھے، الٹے سیدھے، بھول بھلیوں والے راستے تو اپنی منزل تک پہنچ جاتے ہیں. لیکن جو اپنے محور کے گرد چکر کاٹتی چیزیں ہیں وہ کیسے اپنی منزل پائیں گی" فیروز سر نیچے کیے خاموشی سے چلتا رہا.
"گول گول گھومنے والی چیزیں جب رک جاتی ہیں تو اپنی منزل پا لیتی ہیں. چلنے والے دو پیروں میں کتنا ہی فرق ہے. بس ایک آگے ہے اور ایک پیچھے. لیکن نہ آگے والے نے کبھی غرور کیا ہے نہ پیچھے والے نے توہین کا شکوہ. کیونکہ دونوں کو پتہ ہے کہ پل بھر میں یہ بدلنے والے ہیں. اسی کو زندگی کہتے ہیں" پیر سائیں نے بڑے پیار اور تحمل سے فیروز کے سارے شکوے دور کیے.
...............
"کیا کروں کس کو بتاوں کہ ڈاکٹر صاحبہ اور انکے شوہر پر کسی نے فائرنگ کر دی ہے" مارتھا وہیں ایمرجنسی وارڈ کے باہر کھڑی سوچنے لگی. اتنے میں ڈاکٹر باہر آگئے. اور آتے ہی پولیس اہلکاروں کو ان دونوں کے مرنے کی اطلاع دیتے آگے چلے گئے.
"ہیلو جی سر کام ہو گیا ہے. اب آگے کیا کرنا ہے..... ٹھیک ہے"
مارتھا نے دیوار کا سہارا لے کر خود کو گرنے سے بچایا. فوراََ وارڈ کے اندر جانے لگی.
"او ہیلو. بی بی کدھر جانے کی تیاری ہے" ایک پولیس والے مارتھا کو روک لیا.
"مجھے.....مجھے ایک بار.... اندر جانا ہے" مارتھا نے مشکل سے جملہ مکمل کیا.
"پولیس کی اجازت کے بغیر کہیں جانے کی اجازت نہیں" اس اہلکار نے سختی سے کہا اور مارتھا کو پکڑ کر سائیڈ پر کیا.
"دیکھو ہم سچ بول رہا ہے. ہم ان دونوں کو جانتا ہے" مارتھا نے آخری حربہ بھی استعمال کرنے کی کوشش کی.
"اچھا..... اگر جانتا ہے تو اسکے گھر والوں کو لے کر آو" اہلکار بھی بضد تھا.
"اچھا ٹھیک ہے تم یہیں رکنا. ہم ابھی انکو لے کر آتا ہے" مارتھا اس سے کہتی بھاگی.
"کیا چیز تھی یہ"
"ابھی سارا کھیل بگاڑ دیتی"
اٹھاو ان دونوں کو اس سے پہلے یہ واپس آجائے" تینوں اہلکار مارتھا کی جلد بازیاں دیکھ کر اپنے اپنے کام لگ گئے.
...............
"تم دونوں یہاں کیا کر رہے ہو" سکینہ نے تیزی سے آگے بڑھتے عارب اور قانیتہ کو روکتے ہوئے پوچھا.
"ہمیں پھپھو سے بات کرنی ہے" عارب نے پریشانی سے کہا
"وہ ابھی گھر نہیں ہیں" سکینہ نے جان چھڑانے والے انداز سے کہا
"اچھا حدید یا نائل بھائی، ابی جان، گل جان کوئی تو گھر پر ہوگا" قانیتہ جلدی جلدی بولی.
"اگر کوئی ہو بھی تو میں کیوں کسی کو بلاوں. تم لوگ اسی سلوک کے قابل ہو جو تمہارے باپ نے بڑی سیٹھانی اور ابی جان کے ساتھ کیا ہے. نکلو یہاں سے" سکینہ پہلے ہی اپنے مالکوں کی بے عزتی پر سلگی ہوئی تھی. زرا سی ہوا لگتے ہی بھڑکنے لگی.
"سکینہ بی یہ لڑنے کا وقت نہیں ہے ہمیں ابھی کے ابھی کسی سے بات کرنی ہے" عارب انہیں پیچھے کرتے اندر جانے لگا. گل اوپر چھت پر کھڑی انہیں آپس میں باتیں کرتا دیکھ رہی تھی لیکن جب سکینہ نے انہیں روکا تو فوراََ نیچے بھاگی.
"اندر جانے کی کوشش مت کرنا" سکینہ نے اسے روکا.
"سکینہ بی آپ ایسا کیوں کر رہی ہیں. جانتی نہیں ہمیں. ہم فاطمہ پھپھو کے بھائی کے بچے ہیں" عارب بے یقینی سے سکینہ کو دیکھتے ہوئے بولا.
"اور میری حدید سے شادی بھی ہوئی تھی. آپ وہ بھی بھول گئیں" قانیتہ بھی اسی کیفیت میں کھڑی تھی.
"تم لوگوں کی اصلیت سے ہم اچھے سے واقف ہیں. اور یہاں کوئی اس شادی کو نہیں مانتا" سکینہ نخوت سے بولی.
"جس دن حدید بابا تمہارا ہاتھ پکڑ کر گھر لائیں گے ہم اسی دن تمہیں اس گھر کی بہو مانیں گے" سکینہ قانیتہ عدن کی طرف مڑتے ہوئے کہنے لگی.
"نکلو یہاں سے فوراََ. اس سے پہلے کہ میں کسی گارڈ یا چوکیدار کو بلاوں. نکل جاو یہاں سے" سکینہ نے دھکے دیتے ان دونوں کو گھر سے نکال دیا.
"سکینہ بی بچے آئے تھے کیا کہہ رہے تھے" گل نے پھولے سانس لیتے سکینہ سے پوچھا.
"تمہیں سلام کہہ رہے تھے. ہونہہ" سکینہ نفرت اور حقارت سے کہتی اپنے کوارٹر کی طرف چلی گئی.
...............
"سجوہ میری پیاری بہن، اپنے بھائی کے ہاتھ سے فیڈر پیے گی" سنعان اکیلا گھر بیٹھا سجوہ سے باتیں کرتا اسے فیڈر پلا رہا تھا. اتنے میں گھر کی بیل ہوئی.
"بڑی جلدی بے عزتی کرا کے آگئے" سنعان سجوہ کو لیے باہر آگیا. مگر دروازہ کھولنے پر عارب اور قانیتہ کی جگہ مارتھا کو دیکھ کر حیران رہ گیا.
"آپکو کیا ہوا ہے" سنعان نے اسکی روتی صورت دیکھ کر پوچھا.
"باقی دونوں کہاں ہیں" مارتھا جلدی جلدی اندر کو بھاگی.
"او ہیلو. کہاں جارہی ہیں" سنعان اسکے پیچھے اندر بھاگا.
"اگر انسان کسی دوسرے انسان سے کم سے کم امیدیں رکھے تو دنیا سے آدھے دکھ کم ہو جائیں" عارب خاموش خاموش سی ساتھ آتی قانیتہ سے کہہ رہا تھا.
"لو جی اس سست انسان سنعان نے گیٹ بھی نہیں بند کیا تھا" عارب اور قانیتہ اندر آتے ہوئے کہہ رہے تھے.
"رکو مارتھا گھر کوئی نہیں ہے. یہیں کھڑی رہو ابھی بھائی آجائیں گے" سنعان تلاشی لیتی مارتھا سے کہہ رہا تھا.
"یہ مارتھا اس وقت یہاں کیا کر رہی ہے" عارب اور قانیتہ سنعان کی آوازیں سن کر اس طرف تیزی سے بھاگے.
"خیریت مارتھا اس وقت یہاں" عارب نے اس سے پوچھا.
"کچھ بھی ٹھیک نہیں ہے تم لوگ جلدی سے میرے ساتھ چلو" مارتھا جلدی جلدی کہتی انہیں اپنے ساتھ رکشے میں بٹھا کر ہاسپٹل لے آئی.
"مارتھا آپ ہمیں بتانا پسند کریں گی یہاں کیا ہے" قانیتہ مارتھا کی مچائی افراتفری پر اکتا گئی تھی.
"ایک منٹ تم دونوں یہیں رکو" مارتھا کو کوئی اہلکار نظر نہ آیا تو وہ اپنی ساتھی نرسوں سے پوچھنے گئی.
"وہ سب.... وہ تو انکے گھر والے آگئے تھے وہی انہیں لے کر چلے گئے"
"مارتھا کون تھا یہاں" عارب نے زرد چہرے سے پوچھا.
"تم لوگوں کے ماں باپ..... وہ اب اس دنیا میں کہیں نہیں" مارتھا نے ان تینوں کے پیروں تلے زمین کھسکا دی.
...............
"چیئرز..... مبارک ہو تم سب کو. زوار نامی کانٹا ہمارے راستے سے نکل گیا ہے" خرم نے جب سے جہانگیر سیال کو بتایا تھا ان سب سے خوشی ہی سنبھالی نہیں جا رہی تھی.
"یہ ہوئی نا بات. بہت اڑ رہا تھا وہ زوار" فہد اپنا پسندیدہ مشروب گلاس میں ڈالتے ہوئے بولا.
"ابھی ہمارا ایک کام ختم ہوا ہے" نازنین فہد کے پاس بیٹھتے ہوئے بولی.
"دوسرا کام ایس پی خرم خود کرے گا" جہانگیر نے قہقہہ لگاتے ہوئے اسے بتایا.
"اگر آخر میں یہ سب ہی ہونا تھا تو ہمیں پہلے ہی کردینا چاہیئے تھا" فہد نے سکون سے کہا.
"اب پتہ چلے گا ان سب کو. بڑی بےعزتی کی تھی آج گردیزیز نے" نازنین کو زینب سے ہوئی بےعزتی یاد آگئی.
"فائن اٹس اوکے. اب ان کے پر کٹ چکے ہیں زیادہ دیر اڑ نہیں سکتے سو تمہیں بھی فکر کرنے کی ضرورت نہیں" جہانگیر سیال نے اسکے غصے کو کم کرنا چاہا.
"رکیے آپ ایسے کیسے اندر داخل ہوئے جا رہے ہیں"
"یہ اس وقت کون آگیا" وہ تینوں آوازیں سن کر کھڑے ہو گئے.
ان تینوں نے آوازوں پر پیچھے مڑ کر دیکھا. کئی باوردی اہلکار ان تینوں کو گھیرے میں لیے کھڑے ہو گئے.
...............
"مارتھا ایسے کیسے ہو سکتا ہے" عارب نے سب سے پہلے شاک سے نکلتے ہوئے پوچھا.
"تو کیا ہم جھوٹ بولتا ہے. ابھی یہاں پر سب میرے سامنے ہی تھا" مارتھا خود پریشان تھی.
"بکواس بند کرو اپنی اور نکلو یہاں سے" قانیتہ نے اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا.
"چلیں بھائی چلو سنعان اور سجوہ کو مجھے دو" قانیتہ نے ان دونوں سے کہتے ہوئے سجوہ کو اسکے ہاتھ سے لیا.
"کہاں جاتا ہے. جو تمہارے ماں باپ کو مار سکتا ہے وہ تم تینوں کے پیچھے بھی آئے گا" مارتھا سیڑھیاں اترتے ان تینوں سے کہہ رہی تھی.
"ہم تمہاری بہت باتیں سن چکے ہیں. اب ہمارے پیچھے مت آنا" عارب بھی قانیتہ کی بات سے متفق تھا.
"اچھا مت مانو میری بات. میں بھی تم لوگوں کے ساتھ چلتا ہے" مارتھا آخر ہار مان کر ان کے ساتھ ہی چل پڑی.
ابھی تھوڑی دور ہی گئے تھے کہ ایک پولیس وین انکے پاس آکر رکی.
"اتنی سنسان سڑک پر اس وقت تم ان بچوں کو کہاں لےکر جا رہی ہو" ایس پی خرم نے وین سے اترتے ہوئے مارتھا سے پوچھا.
"ہم ان بچوں کا گارڈین ہے" مارتھا نے تھوک نگلتے ہوئے بتایا.
"اچھا...." خرم نے اسے سر سے پیر تک دیکھا.
"مجھے تو تم سب وارداتیے زیادہ لگ رہے ہو" خرم نے ہنستے ہوئے کہا. ان سب نے اپنے آپ کو اوپر سے نیچے دیکھا. سب کے سب اول فول حالت میں گھر سے آئے تھے.
"اور یہ کیا لپٹا کر پکڑا ہوا ہے. کہیں کوئی حملہ آور چیز تو نہیں" خرم نے سجوہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا.
"دیکھو آپ میرے ممی پاپا کو نہیں جانتے. وہ ابھی آجائیں گے. پھر دیکھنا وہ تمہارا کیا حال کریں گے" عارب نے اسے ڈرانے کی کوشش کی.
"ہاہاہا. بیوقوف سمجھا ہے کیا جو میں تم لوگوں کی باتوں میں آوں گا" خرم خباثت سے ہنستا انسب کی طرف بڑھنے لگا. اتنے میں ایک گاڑی اسکے پاس آکر رکی.
"ممی پاپا آ گئے" قانیتہ اور سنعان نے خوشی سے اچھلنا شروع کردیا. مارتھا ہکا بکا کھڑی رہی. اسے ان بچوں کی قابلیت پر پورا بھروسہ تھا. آنے والی گاڑی بھی ٹھیک ٹھاک بارعب دکھائی دے رہی تھی. خرم بھی ٹھٹک گیا.
"پاپا کی جان میں نے آپکو وہیں رکنے کا کہا تھا آپ یہاں کیسے آگئے" گاڑی سے اترنے والے شخص نے عارب، قانیتہ اور سنعان کو پیار سے کہا. آنے والے شخص کو دیکھ کر عارب نے جہاں شکر کیا تھا وہیں مارتھا کی جان نکلی تھی. خرم کو اس شخص میں کسی کی شبیہہ دکھائی دی تھی.
"جانو ایسے تو نہیں کرتے. پتہ ہے ہم کتنے پریشان ہو گئے تھے" ایک عورت بھی باہر آئی.
"اچھا اب میرے بچوں کو ڈانٹیے تو مت. ان کو گاڑی میں بٹھائیے ہم ابھی ایس پی صاحب سے بات کرکے آتے ہیں" وہ عورت بچوں اور مارتھا کو لے کر گاڑی میں بیٹھ گئی.
"جی آفیسر کچھ ہوا ہے کیا"
"نن....نہیں تو. ہم تو بس پٹرولنگ پر تھے. بچوں سے انکے گھر کا ہی پوچھ رہے تھے" جب گارڈز کی فوج نے اسے گھیرے میں لیا تو خرم جیسے بندے کی بھی ہوا نکل گئی.
"اب پتہ لگ گیا ہے نا تو یہاں سے چلتے بنیے. آئیندہ میرے بچوں کے آس پاس بھی دکھائی دیے تو نتائج کے ذمے دار آپ خود ہوں گے" مصافحہ کرتے خرم کا ہاتھ اچھے سے دبا کر دھمکی دی گئی. خرم تو فوراََ وہاں سے بھاگا.
اتنے میں وہ شخص گاڑی میں آکر بیٹھا.
"مارتھا تم رات تک بچے لیے باہر کیا کر رہی تھی" مارتھا سے کافی سختی سے پوچھا گیا. اس سے پہلے مارتھا کوئی جواب دیتی. عارب بول پڑا
"انکل مارتھا کا کوئی قصور نہیں ہے. ہمارے ممی پاپا کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے اور وہ مل نہیں رہے. مارتھا کہتی ہے کہ وہ اس ہاسپٹل میں مر گئے ہیں" عارب نے روتے ہوئے جواب دیا. سنعان اور قانیتہ تو ان انکل آنٹی کا شکریہ ادا کرکے اجازت لینے والے تھے مگر عارب کی اتنی فرینکنس دیکھ کر رک گئے.
"بھائی آپ انہیں کیسے جانتے ہیں"
"یہ احمد انکل ہیں. احمد شاہ درانی" عارب نے انہیں بتایا.
"کون سے انکل" قانیتہ نے بھنویں اچکاتے ہوئے بھائی سے پوچھا.
"وہ والے احمد انکل" عارب نے سجوہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اسے دانت پیستے ہوئے جواب دیا.
"اچھا وہ والے احمد انکل" قانیتہ نے منہ سے اچانک نکل گیا.
"انکل ہو سکتا ہے کہ ممی اور پاپا گھر آگئے ہوں. اب ہم چلتے ہیں" عارب نے احمد شاہ درانی سے کہا.
"آپ سب کہیں نہیں جا رہے" احمد شاہ درانی کی وائف جو سجوہ کو بہلا رہی تھیں. ان سب سے بولیں.
"دیکھو بیٹا ابھی ابھی آپ کسی بڑی مصیبت سے بچے ہیں. خوامخواہ کسی اور مصیبت میں پڑ جائیں گے. آپ سب ہمارے ساتھ ہی چلیں گے"
"لیکن آنٹی...." عارب نے بات شروع کی کہ آنٹی نے بات کاٹ دی.
"سب سے پہلی بات آنٹی نہیں مما کہیے. دوسری بات ہم اپنی بات کہہ چکے ہیں اب بدلیں گے نہیں. تیسری بات آپکے گھر کے باہر گارڈ ہوں گے جب آپ کے گھر والے آجائیں تب آپ چلے جائیے گا"
"لیکن ایسے کیسے" قانیتہ سنعان اور عارب نے ایک دوسرے کو دیکھ کر کہا. مارتھا تو اس سارے تماشے کے ختم ہونے کا انتظار کر رہی تھی. بچے محفوظ ہاتھوں میں تھے.
"ابھی میری جان آپ نے اتنے لوگوں کی موجودگی میں ہمیں مما کہا ہے تو یہ آپکی مما اور پاپا کی خواہش سمجھ کر چلے چلیے. ویسے میرا نام ماہ پارہ درانی ہے" ماہ پارہ درانی نے بچوں سے بات کرتے احمد درانی کی طرف دیکھا. انہوں نے سر کے اشارے سے ہاں میں سر ہلا دیا.
"دیکھیے میری جان جلدی چلتے ہیں میرے اپنے بچے گھر میں میرا انتظار کر رہے ہونگے" ماہ پارہ نے مسکراتے ہوئے ان سب سے کہا. سجوہ ابھی تک انہی کے ہاتھ میں تھی.
"اچھا اب ہم بھی چلتا ہے" ہیپی اینڈنگ دیکھ کر مارتھا کو بھی جانے کی جلدی پڑ گئی.
"مارتھا میرا خیال ہے کہ تم ان بچوں کے گھر ہی رہتی ہو. جب بچے کہیں نہیں جارہے تو تم نے اکیلے گھر جاکر کیا کرنا ہے. چپ چاپ تم بھی گاڑی میں بیٹھ جاو" احمد درانی نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے مارتھا سے غصے سے کہا. مارتھا نے عارب کی طرف دیکھا اسنے بھی اسے اشارے سے گاڑی کے اندر بیٹھ جانے کا کہا. مارتھا ہمیشہ ان بچوں کی مد د کرنے کے چکر میں خود پھنس جاتی تھی.
...............
رکیے آپ ایسے کیسے اندر داخل ہوئے جا رہے ہیں"
"یہ اس وقت کون آگیا" وہ تینوں آوازیں سن کر کھڑے ہو گئے.
ان تینوں نے آوازوں پر پیچھے مڑ کر دیکھا. کئی باوردی اہلکار ان تینوں کو گھیرے میں لیے کھڑے ہو گئے.
"ک...کک....کون ہو تم لوگ اور یہاں کیا کر رہے ہو" جہانگیر سیال نے اٹکتے ہوئے پوچھا.
"اے این ایف ڈیپارٹمنٹ" انہوں نے اپنے بیجز دکھاتے ہوئے جہانگیر اور فہد کو ہتھکڑی لگائی.
"اینٹی نارکوٹکس ڈیپارٹمنٹ" نازنین نے زیر لب دہرایا. "زوار کی رپورٹ کیسے ان تک پہنچ گئی"
"میرے بارے میں سوچ رہی تھی" زوار نے اسکے کان کے قریب آکر کہا. وہ تینوں اچھل پڑے.
"تم زندہ ہو" انہوں نے حیرانی سے پوچھا.
"بالکل ایک دم فٹ. اللہ کا لاکھ شکر ہے" زوار صوفے پر چوڑے ہوکر بیٹھ گیا.
"ویسے تم لوگوں نے کسر تو کوئی نہیں چھوڑی تھی. مگر کیا کریں ایک لوہار کی سو سنار کی. کہاوت تو سنی ہی ہو گی" دروازے سے اندر آتے شخص نے اونچی آواز سے کہا. وہ تینوں پیچھے مڑے اور ساکت ہو گئے.
"خاور گردیزی" تینوں کی زبان پر ایک ہی نام تھا.
"ہاں میں خاور گردیزی" خاور نے خود پر انگلی سے اشارہ کیا.
"وقار لے جاو ان دونوں کو یہاں سے" خاور نے ایک پیپر پر سائن کرکے خاور کو دیے. پھر فہد اور جہانگیر کے سامنے آکر کھڑا ہوا.
"جلد کورٹ میں ملاقات ہو گی" زوار اور خاور قہقہے لگا کر ہنسنے لگے.
"زوار لگتا ہے تم اپنی اولاد کو بھول رہے ہو" جہانگیر سیال نے انہیں قہقہے لگاتے دیکھ کر کہا.
"مجھے تو میری اولاد نہیں بھولی. البتہ اب جو بھی ہوگا وہ تمہیں ساری زندگی نہیں بھول پائے گا" زوار نے مسکرا کر کہا. اور ان سب کو ہاتھ کے اشارے سے لے جانے کا کہا. نازنین پیچھے تلملاتے ہوئے زوار کو دیکھ رہی تھی.
...............
یہ زندگی کا اصول ہے
جو بچھڑ گیا اسے بھول جا
جو ملا ہے دل سے لگا کے رکھ
جو نہیں ملا اسے بھول جا
نہ وہ دھوپ تھا نہ وہ چاندنی
نہ چراغ تھا نہ وہ روشنی
وہ خیال تھا کوئی خواب تھا
وہ تھا آئینہ اسے بھول جا
وہ جو تیرے دل کے قریب تھا
وہ نہ جانے کس کا نصیب تھا
تجھے ہنس کے اس نے بھلا دیا
تو بھی مسکرا کے اسے بھول جا
اس وقت ان سب کا حال اسی طرح کا تھا.
...............
"سائیں آپ کچھ بات کیوں نہیں کر رہے. ہم کب سے بس خاموشی سے چلے ہی جارہے ہیں" فیروز نے ان کی طرف دیکھ کر پوچھا.
"خاموشی دانا کا شعار ہے. خاموشی کا ادب کیا کرو یہ آوازوں کی مرشد ہوا کرتی ہے" انہوں نے ایک گھر کے قریب رک کر جواب دیا.
"سائیں ہم کب سے اس گھر کے گرد ہی چکر کاٹ رہے ہیں. آپکا گھر کہاں ہے" فیروز نے اپنے اردگرد دیکھتے ہوئے ان سے پوچھا.
"ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں اپنے محور کے گرد چکر لگانے والے جب رک جاتے ہیں تو اپنی منزل پا لیتے ہیں"
"یہ گھر...." فیروز نے انکی بات سن کر ایک بار انہیں دیکھا، پھر گھر کی طرف دیکھا، پھر انہیں دیکھا.
" د د د.....در...دران
"ہاں درانی ہاوس. میرا ہاوس" انہوں نے مسکرا کر جواب دیا.
"مطلب پیر سائیں آپ احمد شاہ درانی کے...."
"ہاں ہم احمد شاہ درانی کے والد عبداللہ شاہ درانی" انہوں نے فیروز کے چھکے چھڑا دیے.
...............
No comments:
Post a Comment