Friday, November 30, 2018

سانول موڑ مہار قسط 6۔7

http://novelskhazana.blogspot.com/


"ہیلو" زوار ابھی کمرے میں داخل ہی ہوا تھا کہ اسکا فون مسلسل بلنک کر رہا تھا. سونے پر سہاگہ زوار نے ہی سوئی ہوئی سجوہ کو اٹھایا ہوا تھا. فون کی اگلی بیل بجنے سے پہلے اس نے بن دیکھے فون کان سے لگا لیا.
"کبھی ستارے گنے ہیں ایس پی زوار ہاشمانی" فون کے پار سے ابھرتی آواز سن کر زوار کا دل کیا تھا کہ اسے گالیوں سے نوازے مگر اسکی بیٹی سجوہ اسکے ہاتھوں میں تھی جس کی وجہ سے وہ اپنی زبان قابو کیے ہوا تھا.
"میرے پاس اور بہت سے کام ہیں جہانگیر سیال. کبھی وقت ملا تو ضرور گن لوں گا"
"ہاہاہاہا.... ضرور گننا. یہ جتنے بھی ستارے آسمان پر ٹمٹما رہے ہیں اتنے ہی بندے میں آج تک مار چکا ہوں" جہانگیر سیال کا غرور بول رہا تھا.
"اور دو ٹکے کے آفیسر تم میرا ایک کیس نہیں بند کروا رہے" زوار کی خاموشی اسے مزید شیر بنانے لگی تھی.
"جہانگیر سیال...... کبھی چاند دیکھا ہے" زوار نے گہری سانس لیتے ہوئے الٹا اس سے سوال کیا.
"ہاں.... تمہیں کیا لگتا ہے اگر تم نے ستارے نہیں دیکھے تو میں نے بھی چاند نہیں دیکھا ہوگا" جہانگیر سیال نے فٹ سے جواب دیا.
"گڈ آنسر. میں یہی ایکسپیکٹ کر رہا تھا" زوار نے جوش سے کہا.
"یہ چاند آج تک جتنے ستاروں تک اپنی روشنی پہنچاتا رہا ہے اسی طرح میں بھی اتنے ہی لوگوں کو انصاف دلا چکا ہوں. دیکھ لو.... چاند بھی اکیلا..... میں بھی اکیلا.... ہمارا کام اچھے سے چل رہا ہے" زوار اسکی خاموشی پر بولا.
"دیکھو تم اپنی حرکتوں سے باز آجاو. اپنا نہیں تو اپنی بیوی بچوں کیلیے پیچھے ہٹ جاو" جہانگیر سیال نے اسے دھمکی دی. "ویسے بھی مجھے پتہ لگ چکا ہے کہ تم اپنی فیملی سمیت باہر شفٹ ہو رہے ہو"
"بڑے پکے مخبر ہیں تمہارے. بڑی بات ہے" زوار نے سنجیدگی سے جواب دیا
"تو پھر کیا فیصلہ ہے تمہارا؟ کل اوپر رپورٹ نہیں پہنچنے چاھیئے" جہانگیر سیال کو زوار کی بات سن کر یہی لگا کہ وہ اسے ڈرانے دھمکانے میں کامیاب ہو گیا ہے.
"ایسا میں نے کب کہا کہ میں وہ رپورٹ تمہارے حوالے کر رہا ہوں" زوار نے حیرانی سے جواب دیا.
"بھائی اس نے ایسے باز نہیں آنا اسے کسی اور طرح سے ہی کنونس کرنا پڑے گا" زوار کو ایک نسوانی آواز آئی جسے سن کر اسنے دانت کچکچائے.
"زوار ڈارلنگ. تم تو اتنے سمجھدار اور اچھے انسان ہو. مجھے امید ہے کہ تم اتنا بڑا اور اہم فیصلہ کسی جذباتی پن کی نذر نہیں کرو گے" بڑی ادا سے کہا گیا.
"اپنی گندی اور غلیظ زبان سے میرا نام بھی مت لینا نازنین سیال" زوار نے سجوہ کو بیڈ پر لٹاتے ہوئے انتہائی برہمی سے کہا.
"اوکے بے بی تمہارا نہیں تو شاہ زین کا تو نام لے ہی سکتی ہوں. آخر وہ تو میرا دوست ہے نا خاص والا" نازنین نے ناز نخرے ہی ختم نہیں ہو رہے تھے. زوار فون لیکر کھڑکی کے پاس آگیا.
"تھوڑی سی شرم تم میں باقی ہے یا نہیں. شاہ زین سے پہلے تمہارا نکاح ہوا تھا پھر بھی تمہیں اپنے شوہر سے زیادہ دنیا کے ہر مرد کی فکر ہے" زوار کی بات سن کر وہ سیخ پا ہو گئی.
"یہ مت بھولو زوار کہ تم نے ہی مجھے یہ شادی کرنے پر فورس کیا تھا تاکہ تم اپنی بہن کیلیے راستہ صاف کر سکو. ہم تو دوست تھے زوار لیکن تم نے اسکا بھی پاس نہیں رکھا" نازنین کی تھکی تھکی آواز فون پر ابھری.
"دوستی...." زوار نے چیختے ہوئے بات شروع کی. "دوست وہ ہوتا ہے جو دوستی کا حق دوست کی غیر موجودگی میں ادا کرے اور غیروں کی محفل میں اسکی عزت اور اسکے مقام کی حفاظت کرے. اور تم نے دوستی کے نام پر کیا کیا. ہاں...بتاو کیا کیا تم نے. ہم سب کے درمیان غلط فہمی ڈال دی. زندگی میں دو ہی چیزیں مل کر ہر طوفان کا مقابلہ کر لیتیں ہے ایک محبت اور دوسری دوستی. اور تم نے اپنے انہی دو رشتوں میں غلط فہمی ڈال کر سب برباد کر دیا سب ٹکرے ٹکرے کرکے بکھیر دیا" زوار کی سچی باتیں سن کر نازنین دو منٹ خاموش ہی ہو گئی.
"تم نے مجھے اور شاہ زین کو جتنی اذیت دی ہے اتنی اب بھگتنے کیلیے تیار ہو جاو. کئی سال لگے ہیں مجھے تم لوگوں کے بارے میں ثبوت اکٹھے کرتے. اب بچ سکتے ہو تو بچ جاو" زوار بھی اپنی بات پر اڑ گیا.
"غلطی کر رہے ہو زوار بہت بڑی غلطی" نازنین نے زوار سے کہہ کر فون جہانگیر سیال کو پکڑا دیا.
"بات نہ ماننے والی تمہاری بہت بری عادت ہے زوار. نتائج تمہارا پورا خاندان بھگتے گا" جہانگیر سیال بہن کی دوستی کی وجہ سے خاموش تھے ورنہ انہیں زوار میں زرا دلچسپی نہ تھی.
"میں مانتا ہوں کہ میری عادتیں دنیا والوں سے بہت مختلف ہیں. دوستی ہو یا محبت ہو کم ہی لوگوں سے کرتا ہوں مگر لاجواب کرتا ہوں. گردیزی لاج کی طرف تو دیکھنا بھی مت. جہاں تک میری اور میری فیملی کی بات ہے ہم تمہاری پہنچ سے بہت دور ہیں" زوار نے یکدم اشتعال میں آکر جو منہ میں آیا کہہ دیا اور کھٹاک سے فون بند کیا.
"اس کا جلد ہی کوئی نہ کوئی انتظام کرنا پڑے گا"
"اس کا جلد ہی کوئی نہ کوئی انتظام کرنا پڑے گا" دونوں فریق ایک دوسرے کو ٹھکانے لگانے کا سوچ رہے تھے. جہانگیر سیال نے پلٹ کر اپنے پیچھے دیکھا تو نازنین نے مسکرا کر اپنا فون اٹھایا. دوسری طرف زوار ہاشمانی نے پلٹ کر اپنے پیچھے دیکھا وہاں سندس اس سب معاملے کو سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی.
....................................
"زینب، فاطمہ درگاہ میں ایسا کیا ہوا تھا کہ ابی جان، شاہ زین اور خاص کر زینب تم سب اس قدر ہوش گنوائے بیٹھے ہو" خاور تو اس سب کے ساتھ گئے نہیں تھے اس لیے اصل بات انہوں نے پوچھ ہی لی. کل سے وہ ان سب کے درمیان ایک کھنچاو محسوس کر رہے تھے. جواب میں زینب نے اپنے اور ابی جان کے اور فاطمہ نے اپنے اور شاہ زین کے سارے قصے سنا ڈالے.
"او مائی گاڈ اتنا سب کچھ ہو گیا وہاں" خاور تو سنتے ہی سر پکڑ کر بیٹھ گیا. "ایسی جگہوں پر کچھ بھی کہا اور سنا بلاوجہ نہیں ہوتا. یو شڈ بی کیئر فل. وہ بزرگ صاف صاف کہہ کر تو گئے تھے کہ اپنے بچے کا زیادہ خیال رکھنا. نو ڈاوٹ تم لوگوں کی لاپروائی سے ہی یہ سب ہوا ہے" خاور نے بیوی اور بھابھی کو جی بھر کر سنائیں.
"بھائی ہم سب وہاں پریشان تھے" فاطمہ نے زینب کی حالت دیکھتے ہوئے جواب دیا.
"تم تو رہنے ہی دو. تم کونسا ہوش میں تھیں" خاور نے الٹا اسے ہی چپ کروا دیا.
"اور زینب تم اتنی لاپروا کیسے ہو گئی. اگر بچی مردہ بھی پیدا ہوئی تھی تو تم ہمیں بتاتی ہم اسے کسی جگہ دفنا آتے" خاور نے غصے کرنا شروع کردیا.
"مانا کہ ہم اسکا جنازہ نہیں پڑھ سکتے تھے مگر دفنا تو سکتے تھے." خاور ان دونوں کو مسلسل ڈانٹ رہا تھا.
"بھائی مجھے لگتا ہے کہ مجھے زوار بھائی کی بد دعا لگ گئی ہے" فاطمہ روتے ہوئے بولی.
"فضول باتیں مت کرو فاطمہ. کیا کیا ہے تم نے آخر. صرف اتنا ہی کہ اس کی بات نہیں سنی. بس اتنا ہی." خاور نے ہاتھ کی انگلی سے اشارہ کرتے کہا.
"نہ تم نے حکم عدولی کی نہ ہی نافرمانی تو کس بات کی بد دعا لگی ہے. خبردار جو اب تم دونوں نے زوار کے بارے میں ایک لفظ بھی کہا" خاور ان دونوں پر بگڑتا کمرے سے باہر نکل گیا.
"ہم نے کیا کہا ہے" دونوں اپنے رونے بھول کر خاور کے رویے کے بارے میں سوچنے لگیں.
................................
"زوار ہاشمانی آپ ایک نمبر کے جھوٹے اور دھوکے باز انسان ہیں" سندس اشتعال سے آگے بڑھتی زوار کا گریبان پکڑ کر کہنے لگی. زوار اسکے ردعمل پر دم بخود رہ گیا. اسے سندس سے اس رویے کی رتی بھر توقع نہ تھی. وہ تو کچھ اور ہی سوچے بیٹھا تھا. تھوڑی سی ہمدردی، تھوڑی سے توجہ مگر یہاں تو سین ہی الٹا تھا.
"سندس پلیز میری بات تو سنو. کیوں خوامخواہ شور مچا رہی ہو" زوار نے اسکے ہاتھ تھامتے ہوئے پیار سے کہنا چاہا.
"کیوں سنوں میں کوئی بات. اور میں....خوامخواہ......شور....مچا رہی ہوں" سندس تو بالکل ہی آوٹ ہو گئی تھی.
"ایک بار بھی نہیں بتایا کہ آپ کوئی آفیسر ہیں...."
"صرف آفیسر نہیں سیکرٹ سروس آفیسر" زوار نے اسکی بات کاٹ کر تصیح کی.
"ہوں.... آفیسر بے عزتی اور سیکرٹ سروس آفیسر عزت واحترام" سندس نے خونخوار اور کھا جانے والی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا.
"اسی لیے میں کہوں کہ آفس میں آپکا دل کیوں نہیں لگتا" سندس کمر پر ہاتھ رکھ کر تڑختے ہوئے بولی.
"یہ تو مجھے اب پتہ لگ رہا ہے کہ آپ کو آتا جاتا ہی کچھ نہیں" سندس نے ماتھے پر ہاتھ رکھتے دکھی دل سے کہا.
"نہ بیگم اب ایسی بھی بات نہیں. بہت سے مارشل آرٹس سیکھے ہیں میں نے" زوار نے اپنی بڑائی بیان کی.
"ہاں جی میاں جی آپکے مارشل آرٹس کا مجھے کیا فائدہ ہوگا. میں نے کونسا گھر میں اکھاڑے کا میدان لگانا ہے" سندس کی ناراضی ہنوز برقرار تھی.
"ہاہاہاہا....بیگم غصے میں بھی آپ مذاق اچھا کر لیتی ہیں" زوار نے اسکے ہاتھ تھامے اور اسے لیے صوفے پر بیٹھ گیا.
"اور وہ کمینی چھپکلی نازنین ہی تھی نا جو آپکو دھمکیاں دے رہی تھی" سندس نے اپنا رخ یکدم زوار کی جانب موڑا.
"ہاں بھی اور نہیں بھی. ففٹی ففٹی" زوار نے یکدم سنجیدگی کا لبادہ اوڑھ لیا.
"اسکا بھائی جہانگیر سیال اور شوہر فہد سیال دونوں ہی اسمگلنگ کا کاروبار کر رہے ہیں. مگر جیسے ہی ہم ان دونوں کے بارے میں کوئی ٹھوس قدم اٹھانے لگتے ہیں. وہ اپنی جگہ تبدیل کر لیتے ہیں. اب بڑا خاص راز ان دونوں کا ہمارے ہاتھ لگا ہے. اس بار انہیں بھاگنے کا موقع نہیں مل پائے گا" زوار اپنی مٹھیاں بھینچے بول رہا تھا اور سندس کی سانسیں اٹک رہی تھیں.
......................................
"زوار ہاشمانی نے جانتے بوجھتے ہم سے ٹکر لی ہے" فہد سیال ایک جگہ سے دوسری جگہ چلتا بول رہا تھا.
"اسے پتہ ہی نہیں کہ کتنے غلط لوگوں سے اس نے پنگا لیا ہے" جہانگیر سیال کو بھی سکون نہیں مل رہا تھا.
"اسے اب پتہ لگے گا کہ غلط آخر ہوتا کیا ہے" نازنین تنفر سے بولی. وہ تینوں سر جوڑے زوار ہاشمانی سے نبٹنے کی تیاری کرنے لگے.
.....................................
"سنیے زوار اور شاہ زین کے مابین تلخی بڑھتی ہی جا رہی ہے" مدحت گردیزی کھانا کھاتی یکدم جلال گردیزی سے بولیں.
"تو آپ کیا چاہتی ہیں کہ ہم ٹارزن بن کر انکے جھگڑے میں گھس جائیں" جلال گردیزی کو انکا بولنا زرا پسند نہ آیا.
"ایک بار جاکر زوار سے بات کر کے دیکھتے ہیں. ہو سکتا ہے کہ وہ ہماری سالوں سے چلی آئی دوستی کا ہی مان رکھ لے" مدحت گردیزی صلح کیلیے انہیں منانے لگیں. "وقت بدلتے ویسے بھی دیر نہیں لگتی"
"ہممم... وقت تو اپنے وقت پر ہی بدلے گا مگر کون کب بدل جائے اسکا تعین کرنا بہت مشکل ہے" جلال گردیزی بھی انکاری تھے.
"صرف ایک بار چلے چلتے ہیں. صرف میرے کہنے پر چلتے ہیں" مدحت گردیزی نے اتنی آس سے کہا کہ ان سے انکار ہی نہ کیا گیا.
.................................
"زوار آپ اس فیلڈ میں آخر کیسے آئے" سندس زوار سے اسکی جاب کے حوالے سے پوچھنے لگی.
"ہماری فیلڈ میں ایسے ہی عام حلیے میں لوگوں میں گھلنا ملنا ہوتا ہے اور عام عوام سے میل جول رکھ کر انفارمیشن نکلوانی ہوتی ہے" زوار نے موبائل پر میسج ٹائپ کرتے ہوئے جواب دیا.
"یہی آپ نے آفس میں کیا. چٹے ان پڑھ ہونے کے باوجود آفس میں بابو بن کر بیٹھ گئے" سندس چٹختے ہوئے بولی.
"آفس جانا ضروری تھا نازنین وہاں بزنس پارٹنر ہے اس پر آسانی سے نظر رکھی جا سکتی تھی" زوار نے تسلی سے جواب دیا.
"صحیح. اب آپکے کیا پلان ہیں" سندس نے مزید الجھنا ملتوی کر دیا.
"تم سب کو ملک سے باہر بھیجنے کا پلان بنایا ہے" زوار نے پاسپورٹ اسکے آگے کیے.
"لیکن ابھی تو ہمیں پتہ کرنے جانا تھا" سندس نے پاسپورٹ اسکے ہاتھ سے لیے. اتنے میں زوار کا موبائل بپ کیا.
"ہاں ہم ابھی چلتے ہیں. بچے گھر پر ہی رہیں گے. چلو سجوہ کے اٹھنے سے پہلے واپس آتے ہیں" زوار نے میسج پڑھتے ہی جلدی مچا دی.
...................................
"مدحت یہ آخری بار میں صرف آپکے کہنے پر زوار سے ملنے جا رہا ہوں. مگر مجھے امید نہیں کہ وہ ہمیں کچھ بھی بتائے گا" جلال گردیزی سیڑھیاں اترتے مسلسل مدحت گردیزی سے بحث ہی کر رہے تھے.
"کچھ نہیں ہو جاتا. تھوڑا سا تو حوصلہ رکھیں" مدحت گردیزی اسکے علاوہ کیا کہتیں.
"چلو چل کر دیکھ لیتے ہیں کیا ہونا باقی ہے" جلال گردیزی انکی بات سن کر غصہ کرنے لگے.
"ہاں جی جلدی جلدی چلتے ہیں. فاطمہ کو بھی چند گھنٹوں میں چھٹی ملنے والی ہے" فاطمہ کا نام سن کر جلال گردیزی کا جلال تو کم نہیں ہوا البتہ خاموشی ضرور چھا گئی تھی. مدحت گردیزی کیلیے یہی بہت تھا.
....................................
"جتنا مرضی ان ہاشمانی اور گردیزیز کو لڑانے کی کوشش کر لو حرام ہے جو ان پر کوئی اثر ہو. لے دے کے آخر میں ایک دوسرے کے ہی غم و خوشی میں شامل ہونے چلے جاتے ہیں" جہانگیر سیال اس وقت سے تپے بیٹھے تھے جب سے احمد شاہ درانی ٹی وی پر انٹرویو دے کر گئے تھے اور جواب میں جلال گردیزی ایک لفظ تک نہیں بولے تھے. "نازنین تمہیں آفس کے سارے ڈاکومنٹ اسی سستی مارے کو دینے تھے. سارا سسپنس ہی کرکرا ہو جاتا ہے"
"آپکو سسپنس کی پڑی ہے. یہی دیکھ لیں کہ زوار اور شاہ زین کی کتنی زبردست لڑائی کروائی ہے" نازنین اپنے ہی کارنامے پر خود ہی خوش ہو رہی تھی.
"ہاں یہ تو ہے. مگر اب جو ہوگا وہ دنیا دہلا دے گا" فہد سیال اپنے بیٹے کو آتا دیکھ کر خاموش ہو گئے.
"مام ڈیڈ میں زرا دوستوں کے ساتھ باہر جا رہا ہوں. ہو سکتا ہے کہ لیٹ ہو جاوں" انگلی پر گاڑی کی چابی گھماتا وہ باہر نکل گیا.
"نجانے اسکو کب عقل آئے گی" تینوں پیچھے بیٹھے اسے جاتا دیکھ کر سوچنے لگے.
..................................
"کیا کر رہے ہو. تھوڑا ٹھیک سے کرو" فیروز سخت گرمی میں کھڑا کب سے دریاں بچھاتے آدمی سے سر کھپا رہا تھا. "پھر سے قطار غلط کر دی. سیدھی کرو اسے"
"زندگی میں ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا ہم جو کرتے ہیں وہ ہمیں کبھی غلط نہیں لگتا. ہمیں صرف وہی غلط لگتا ہے جو دوسرے کرتے ہیں" پیر سائیں نے محفل کی تیاری کرتے فیروز کو کسی پر غصے ہوتا دیکھ پیار سے سمجھایا.
"سائیں آپ ان لوگوں کو جانتے نہیں" فیروز جھنجھلایا ہوا تھا.
"ہم سب سمجھ رہے ہیں. تیرے دل میں بخت روشن کی فکر بس گئی ہے"
"سائیں زمانہ بھی تو ٹھیک نہیں. نجانے کہاں ہو گی"
"اپنی غلطیوں پر پردہ ڈالے ہر شخص کی زبان پر آجکل ایک یہی جملہ ہے. پہلے خود کو تو ٹھیک کرلو. زمانے کی بعد میں اصلاح کرنا."
"سائیں منزلیں اتنی آسانی سے نہیں مل جایا کرتیں" فیروز بضد تھا.
"چاہے بھٹک کر ہی سہی منزلیں مل جایا کرتی ہیں. فکر تو ان کیلیے ہے جو ابھی گھروں سے ہی نہیں نکلے ہیں اور وہیں بیٹھے سب کچھ ٹھیک ہو جانے کا انتظار کر رہے ہیں" پیر سائیں فیروز کا کندھا تھپتھپاتے آگے چلے گئے.
"اٹھ فریدا ستیا تے جھاڑو دے مسیت
توں ستا رب جاگدا تیری ڈہڈےنال پریت"
(خواجہ غلام فرید)
......................................

خدا ہر انسان کی اصلیت بڑے اچھے سے جانتا ہے کس کے دل میں کیا کچھ چھپا بیٹھا ہے کس کے دماغ میں کونسا شطرنج کا کھیل کھیلا جا رہا ہے خدا ہر راز سے بخوبی واقف ہے.
دیکھو جو غور سے، چہرے کے پیچھے بھی اک چہرہ ہے
سوچو جو غور سے، پردے کے پیچھے بھی اک پردہ ہے
گہرا گہرا راز گہرا بڑا، کس کے دل میں ہے کیا کسے پتہ
ڈوبا کوئی سوچ میں، کوئی دھن دولت سے یہاں مغرور ہے
کوئی پھنسا چال میں، کوئی تو شہرت سے یہاں مشہور ہے
جدا سب کی منزلیں، جدا ہیں راہیں،جدا سب کی چاہت، ہے جدا
گہرا گہرا راز گہرا بڑا، کس کے دل میں ہے کیا کسے پتہ
ٹوٹا نشہ پیار کا، جھلمل شمع جو جل رہی بے نور ہے
جھوٹا یقیں یار کا، لوگو زمانے کا یہی دستور ہے
زرا سی ہے بے اثر لوگوں کی آہیں، وفا میں بھی تو ہے جفا
گہرا گہرا راز گہرا بڑا، کس کے دل میں ہے کیا کسے پتہ
........................................
"فرصت مل جائے اس آئینے کے آگے بیٹھے رہنے سے تو اب ہم ہاسپٹل چلیں" فہد سیال کب سے نازنین کو تیار ہوتا دیکھ کر چڑ گیا.
"ہاں چلتے ہیں بس تھوڑی دیر اور" نازنین نے اپنے ناخن اسکو دکھاتے ہوئے بڑے ناز سے کہا جن پر ابھی نیل پالش لگانی باقی تھی.
"فخری تم جاو یہاں سے" اپنی نوکرانی کو فہد نے باہر نکل جانے کا کہا. وہ تو فوراََ باہر بھاگ گئی. ابھی اس کمرے میں زبان سے ڈبلیو ڈبلیو ایف چلنے والی تھی. دونوں ہی اپنی اپنی زبان میں ایک دوسرے کو اکھاڑتے پچھاڑتے رہتے تھے.
"کیا مسئلہ ہے آخر آپ کے ساتھ" نازنین ڈریسنگ ٹیبل پر اپنا برش مارتے کھڑی ہوئی.
"مسئلہ میرے ساتھ نہیں تم دونوں بہن بھائیوں کا ہے. ایک بندہ نہیں مروایا جا رہا تم لوگوں سے. میرا کتنا ہی مال پھنسا ہوا ہے صرف اس زوار کی وجہ سے" فہد غصے سے کہتا اسکے سامنے آکر کھڑا ہوا.
"ہم اپنی طرف سے پوری کوشش کر رہے ہیں اس سے زیادہ کیا کریں. اس زوار کی کوئی نہ کوئی تو ضرور مد د کر رہا ہے" نازنین تھوڑا دھیمی پڑی.
"تم دونوں زوار زوار کر رہے ہو. ایسا بھی تو ہو سکتا ہے کہ وہ رپورٹ کسی اور کے پاس ہو" فہد نے اپنا خدشہ بتایا.
"ہاسپٹل تو جا ہی رہے ہیں وہیں جاکر دیکھتے ہیں کہ کیا صورتحال ہے" نازنین بولی.
"کوئی فائدہ نہیں زوار وہاں نہیں آیا ہوگا. اکڑ تو اس میں بہت ہے" فہد نے کوٹ پہنتے کہا.
"بھائی سے کہتی ہوں کہ زوار کے پیچھے کسی آدمی کو لگائیں تاکہ اسکی حرکتوں کا ہمیں علم رہے" نازنین اور فہد اپنی اپنی فکروں میں گھرے ہوئے تھے.
......................................
"بچہ پارٹی خبردار جو ڈرائیور انکل کو تنگ کیا" خاور بچوں کو گاڑی میں بٹھاتا تنبیہہ کر رہا تھا.
"تایا جان جان محمد کیوں نہیں آئے. ہمیں انہی کے ساتھ جانا ہے" بچوں کو آج تک وہی لاتا لے جاتا رہا تھا اسلیے بچے بھی ضد میں آئے ہوئے تھے.
"حدید جان وہ ابی جان کے ساتھ ہیں اسلیے آپ آج ان کے ساتھ چلے جاو. پلیز" خاور نے آخر ان سب سے التجا کی.
"اوکے ڈیڈی لیکن صرف اس بار" نائل نے آخر باپ کی بات مان کر اس پر احسان کیا تھا. خاور کیلیے بھی اس وقت یہی غنیمت تھا کہ وہ سب ابھی جانے کیلیے تیار ہو گئے تھے.
خاور ان کے جانے کے بعد پارکنگ ایریا سے باہر آیا تو اسکے ساتھ ساتھ دوسری لین میں شاہ زین چلا آرہا تھا. دھیان اسکا کسی بھی چیز کی طرف نہیں تھا. آخر خاور کو خود ہی اسے بلانا پڑا.
"رکو شاہ زین کہاں سے آرہے ہو" شاہ زین اپنی ہی دھن میں سامنے سے چلا آرہا تھا.
"کہیں نہیں تھا. آپ بتائیں فاطمہ کو ڈسچارج کر دیا کہ ابھی نہیں" وہ دونوں باتیں کرتے وہیں سامنے بنے بینچ پر بیٹھ گئے.
"نہیں ابھی نہیں" خاور نے اسکی غائب دماغی نوٹ کرتے ہوئے بتایا. خاور کو اب سمجھ آیا تھا کہ اسکا سارا دھیان زوار کی طرف تھا. "شاہ زین"
"جی بھائی"
"نکل آو اپنے ماضی سے. دوست تو ویسے بھی قیمتی خزانے کی طرح ہوتے ہیں" خاور پیار سے بولا.
"صحیح کہہ رہے ہیں آپ بھائی کچھ دوست سچ میں خزانے کی طرح ہی ہوتے ہیں دل کرتا ہے کہ انہیں زمین میں ہی گاڑھ دیں" شاہ زین نے جلے کٹے انداز میں کہا.
"ہو سکتا ہے کہ زوار کی اس سب میں کوئی غلطی نہ ہو" خاور اسے کسی طرح منانا چاہ رہا تھا.
"بھائی ہماری برسوں کی کمائی لٹ گئی. ہمارا بزنس زوار کی وجہ سے ٹھپ ہو گیا. کمپنی میں ہماری حیثیت کیا سے کیا ہو گئی ہے اور یہ تو آپ بھی جانتے ہیں کہ درانی گروپ ہماری کمپنی میں ففٹی ون پرسنٹ کا مالک بن گیا ہے. یعنی ہم ان کے نوکر اور وہ ہمارے آقا" شاہ زین نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا.
"جانتا ہوں سب جانتا ہوں لیکن زوار سے ہمارا ایک ہی رشتہ تو نہیں"
"تو آپکو فاطمہ نے اسکی وکالت کیلیے بھیجا ہے" شاہ زین نے غصے سے پوچھا.
"فاطمہ کہاں سے آگئی" خاور حیران ہوا.
"اسے بھی رات سے اپنے بھائی کی یاد آرہی ہے"
"آنا بھی چائیے اکلوتا بھائی ہے اسکا. دیکھو شاہ زین چھوٹے چھوٹے شکووں سے بڑے بڑے رشتے کمزور ہو جاتے ہیں. تمہیں نہیں لگتا کہ تم اس سے بات نہ کرکے خود کو تکلیف دے رہے ہو" خاور نے اسکی سڑی ہوئی صورت دیکھ کر بمشکل اپنی ہنسی روکی ہوئی تھی.
"بھائی مجھے وہ سب کسی طرح نہیں بھولتا. ابی جان کی اس وقت کتنی بےعزتی ہوئی تھی. جو لوگ بات تک نہیں کرتے تھے اب وہی لوگ اونچی آواز میں بات کرنے لگے ہیں"
"دیکھو میری جان خدا کو دو گھونٹ بہت پسند ہیں ایک صبر کا دوسرا غصے کا" خاور نے اسکے گھٹنے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولنا شروع کیا.
"بھائی زخم بھر بھی جائیں تو انکے داغ ہمیشہ رہ جاتے ہیں" شاہ زین اسکی بات کے درمیان میں بول پڑا.
"معاف کردینے سے ہر انسان کی اپنی روح پاک صاف ہوتی ہے. کسی کو اسکی زندگی میں معاف کردینا اس انسان کی قبر پر فاتحہ پڑھنے سے بہت بہتر ہے" خاور نے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
"زوار پر کتنے ہی الزام لگے، تم نے اور ابی جان نے اسے اسکی بہن سے ملنے سے روک دیا، گھروں میں دیوار کھڑی کی، بچوں کا مستقبل داو پر لگا دیا اس سب کے باوجود زوار نے کبھی تمہاری طرح یوں سر نہیں جھکایا. صرف آنکھیں جھکائی ہیں. سر اور آنکھیں جھکانے میں زمین اور آسمان جتنا فرق ہے" خاور کی بات سن کر شاہ زین نے فوراََ سر اٹھا کر اسکی طرف دیکھا.
"سب کچھ ٹھیک ہو سکتا ہے ایک بار اللہ پر بھروسہ تو کرکے دیکھو. وہ دونوں بہن بھائی زبان سے ایک لفظ نہیں کہیں گے مگر اندر ہی اندر گھل گھل کر ختم ہو جائیں گے" خاور اسے سوچوں کے بھنور میں چھوڑ کر اندر چلا گیا.
.....................................
"زوار بات سنیں" سندس نے ڈاکومنٹس چیک کرتے زوار کو بلایا.
"کیا ہوا" زوار صوفے سے اٹھتا اسکے پاس بیڈ پر آکر بیٹھ گیا. "سجوہ تو ٹھیک ہے نا ورنہ اسکے بہن بھائیوں نے ہمارا جینا حرام کر دینا ہے"
"ہوں.... سجوہ ٹھیک ہے.... آپ نے اسکی آنکھوں کا رنگ دیکھا ہے" سندس نے سجوہ کی آنکھوں کے آگے ہاتھوں کا پیالہ بنایا تاکہ وہ کم روشنی میں اپنی آنکھیں کھول سکے.
"بہت پیاری بیٹی ہے ہماری. بالکل ڈول سی"زوار نے سجوہ کے گال پکڑ کر لاڈ سے کہا جیسے سجوہ ساری باتیں سمجھ رہی ہو.
"مارتھا کا اللہ بھلا کرے. کسی کے گھر کے چراغ کو کیسے آسانی سے بجھانے چلی تھی. نجانے لوگ اتنے سپرسٹیشیس کیوں ہوتے ہیں" سندس نے مارتھا کی حرکتیں یاد کرتے کہا.
"کہتی تو سچ ہی تھی کہ منتوں سے مانگے بچے بڑے ہلے ہوئے ہوتے ہیں. اس سے پہلے کہ میری بیٹی کو جلال آئے ہمیں جلدی جاکر واپس بھی آنا ہے" زوار کو مذاق سوجھنے لگا.
"آپ بھی نا. ابھی باہر نکلتے ہیں شاید سچ میں جلال گردیزی سامنےآ جائیں" سندس نے اسکے مزاق کے جواب میں اسے ڈرایا.
"کیا یاد دلا دیا بیگم" زوار نے بیڈ پر گرتے ہوئے کہا.
"اب تو سانسوں کے اکھڑ جانے کے دن ہیں......ایسے موسم میں کہاں جاہ و جلال آتے ہیں"
"خیریت تو ہے. آج لگتا ہے شاہ زین یاد آرہا ہے. یہ بیت بازی تو اسی کے ساتھ آپکی چلتی ہے" سندس نے بھنویں اچکاتے ہوئے زوار سے پوچھا.
"اتنی آسانی سے تو وہ نہیں بھولے گا. فاصلہ کسی رشتے کو جدا نہیں کرسکتا اور وقت کسی نئے رشتے کی تخلیق نہیں کر سکتا. اگر انسان کے جزبات سچے ہوں تو رشتے ہمیشہ قائم رہتے ہیں" زوار نے اوپر سیلنگ فین کو دیکھتے ہوئے جواب دیا.
"زوار کیا آپ نے آج تک سچ میں احمد درانی کو نہیں دیکھا" سندس نے زوار سے پوچھا.
"نہیں...میں آج تک اس سے نہیں ملا. مگر جو جو اس سے ملا ہوا ہے اس تک بہت جلد ہم پہنچنے والے ہیں" زوار نے بیڈ سے اٹھتے ہوئے جواب دیا.
"زوار آپکے دل و دماغ میں کیا چل رہا ہے" سندس نے آخر زوار سے پوچھ ہی لیا.
"کچھ نہیں. چلو شام ہونے والی ہے جلدی واپس بھی آنا ہے" زوار نے سندس کے اگلے کسی بھی سوال پوچھنے سے پہلے کہہ دیا.
..............................
"سر آپ فکر نہیں کریں ہمارے کئی آدمی زوار ہاشمانی کے گھر کے اردگرد گھیرا ڈالے کھڑے ہیں"
"نو سر اسکی گاڑی ابھی یہیں کھڑی ہے"
"جی جی اسکا صاف مطلب یہی ہے کہ وہ ابھی گھر سے نہیں نکلا"
"اوکے سر جیسے ہی کام ختم ہوتا ہے ہم آپ کو فون کرتے ہیں" فون بند کرکے ایک آدمی نے اپنے سامنے مختلف جگہوں پر کھڑے کئی آدمیوں کو ہاتھ سے ڈن کا اشارہ کیا. مطلب صاف تھا کہ انہیں کام ختم کرنے کیلیے گرین سگنل مل چکا تھا.
.................................
"ڈرائیور انکل رکیں رکیں" چلتی گاڑی کو یکدم نائل اور حدید نے بریک لگوا دی.
"کیا ہوا بابا" ڈرائیور نے مڑ کر ان دونوں سے پوچھا.
"انکل وہ سامنے دیکھیں. وہ تو ناز آنٹی کا بیٹا ہے نا. فرہاد" نائل اور حدید نے ڈرائیور سے پوچھا.
"جی بابا ہیں تو وہی. لیکن وہ یہاں اکیلے پارک میں بیٹھے کیا کر رہے ہیں" ڈرائیور گاڑی سے نکلتے ہوئے کہنے لگا.
"ہم بھی آتے ہیں" حدید اور نائل کہنے لگے.
"نہیں بالکل بھی نہیں. آپ سب یہیں بیٹھیں گے ہم انہیں یہیں لے کر آتے ہیں" ڈرائیور نے سختی سے انہیں وہیں بیٹھنے کا کہا اور خود جاکر فرہاد سیال کو وہیں لے آئے.
"آپ سب یہیں بیٹھیں میں ابھی آپ کیلیے کچھ نہ کچھ لے کر آتا ہوں" ڈرائیور نے ان سب کو گاڑی میں بٹھا کر گاڑی لاک کی.
"تم یہاں کیا کر رہے تھے اور کب سے یہاں بیٹھے تھے."
"میں اپنے گھر سے تنگ آکر یہاں بیٹھا تھا. کسی کے پاس میرے لیے وقت نہیں ہے" فرہاد نے روہانسے لہجے سے کہا.
"او ہو اگر انسان کی نیت صحیح ہو تو خدا کی مد د آ ہی جاتی ہے. مجھے پورا یقین ہے کہ تم اس وقت بہت سیڈ فیل کر رہے ہو تو کیوں نا تھوڑی دیر کیلیے کسی جگہ چلتے ہیں" حدید کی بات سن کر باقی سب نے اسکی طرف دیکھا.
"اگر گھر پتہ لگا نا تو گھر والوں نے یہیں سے مارتے مارتے واپس لیکر جانا ہے" نائل نے غصے سے کہا.
"بھائی آپ ایک تو ڈرتے بہت ہیں. پاپا کو بتا دیتے ہیں. ڈرائیور انکل ہمارے ساتھ ہی ہیں اور پیچھے گاڑی میں گارڈ انکل بھی ہیں. تھوڑی دیر کیلیے پلیز" حدید نے اسے قائل کرنا چاہا.
"آگئے ڈرائیور انکل کرو چاچو کو فون اور کہو کہ نائل کا دل کر رہا ہے" نائل کی بات سن کر حدید خوش اور فرہاد پریشان ہوگیا.
"حدید کیوں نائل بھائی کو پھنسانا چاہتے ہو"
"کچھ نہیں ہوتا. بھائی نے اپنے بڑے ہونے کے سارے حق وصول کیے ہیں" حدید فرہاد سے کہتا موبائل پر باپ کا نمبر ملانے لگا. ڈرائیور ہکا بکا ان افلاطون بچوں کو دیکھنے لگا. اچھا بھلا وہ انہیں یہاں چھوڑ کر گیا تھا.
"تھینکس پاپا. میں بھائی کو بتا دیتا ہوں" حدید نے باپ سے ساری بات کرکے آخر میں کہا اور فون رکھ دیا.
"یس پاپا مان گئے. تھینک یو بھائی" نائل انہیں مسکرا کر دیکھنے لگا. اب رات تک وہ پانچوں تھے اور انکی مستی تھی.
...................................
"ممی...... ڈیڈی....." زوار اور سندس گھر سے نکلنے لگے جب انکی اولاد نے اچانک چھاپہ مار دیا.
"اور اونچی آواز میں بولو. تاکہ جو گھر رہ گئے ہیں انہیں بھی اطلاع ہو جائے" سندس نے غصے سے قانیتہ اور سنعان سے کہا.
"آپ دونوں کہاں جا رہے ہیں" آوازیں سن کر عارب بھی باہر آگیا.
"ہم زرا..... ایک آفس جا رہے تھے آپ بتائیے کیا ہوا" زوار نے دو منٹ سوچ کر جواب دیا.
"اچھا تو ہم نہیں جا رہے" سنعان نے فوراََ پوچھا.
"نہیں آپ لوگ گھر پر ہی رہیں گے. سجوہ کے ساتھ" سندس بولی.
"لیکن ممی آپ ہمیں یہاں کس کے سہارے چھوڑ کے جا رہی ہیں" عارب نے ماں کے پاس آکر پوچھا.
"میری جان ہم یوں گئے اور یوں آئے" سندس نے چٹکی بجاتے کہا.
"اور میرے شیر بیٹوں کو دنیا میں کس کے سہارے کی ضرورت پڑ گئی. اللہ کا سہارا ہی بہت زیادہ ہوتا ہے" زوار نے اسکے بالوں کو سنوارتے کہا.
"اور میری جان ہمارے آنے تک ان کا خیال رکھنا. خاص کر سجوہ کا" سندس اور زوار عارب کو نصیحتیں کرتے باہر چلے گئے.
................................
"سائیں محفل تقریباََ ختم ہونے والی ہے. سب آپکا ہی انتظار کر رہے ہیں تاکہ "رنگ" پڑھ کر محفل کا اختمام ہو" فیروز نے حجرے میں داخل ہوتے ہی انہیں آگاہ کیا. لیکن انکی محویت نہ ٹوٹی. فیروز صبح سے نوٹ کر رہا تھا کہ وہ کھڑکی سے باہر ہی بس دیکھے جا رہے ہیں. دو تین بار باہر بھی آئے مگر پھر اندر بند ہو جاتے.
"سائیں کوئی پریشانی لاحق ہے" ہمت کرکے فیروز نے پوچھ لیا.
"پریشانی تو انہیں ہونی چاہیئے جو وقت سے پہلے اور ضرورت سے زیادہ کی چاہ کرتے ہیں. میں تو بس کچھ سوچ رہا ہوں" پیر سائیں نے فیروز پر ایک نظر ڈال کر پھے سے باہر دیکھنا شروع کر دیا.
"سائیں کہیں آپکی سوچ کا محور بھی ایک ہی مرکز کے گرد تو نہیں گھوم رہا" فیروز نے سجوہ کی بابت پوچھا.
"اللہ سب ٹھیک ہی کرے. اس وقت تو بخت روشن اللہ کے سپرد ہے. اللہ نے اس کیلیے بہتر ہی سوچ رکھا ہوگا. محور سوچ اس وقت میرا اور میرے خدا کا ایک ہی ہے. بس فرق اتنا ہے کہ مجھے اس سے اور اسے خود سے فرصت نہیں. بےنیازی تو اسے ہی کہتے ہیں" انکے چہرے پر سنجیدگی تھی.
"آخر ان سب کو سمجھ کیوں نہیں آرہا. یہ سب بخت روشن کو انسانوں کے ہی سپرد کیوں کیے جارہے ہیں. جب تک انہیں سمجھ آئے گا تب تک دیر ہو جائے گی. میں نے تو بس یہی سوچ کر عمر کی چڑھائیاں چڑھی رہی ہیں کہ وقت اور سمجھ بہت خوش قسمت لوگوں کو زندگی میں ایک ساتھ ملتی ہیں. اکثر وقت پر سمجھ نہیں آتی اور جب سمجھ آتی ہے تو وقت ہاتھ سے نکلا ہوتا ہے. صرف وقت کے ایک تمانچے کی دیر ہے پھر میری فقیری بھی کیا، تیری بادشاہی بھی کیا."
فیروز دم سادھے ان کی باتوں کا مفہوم جاننے کی کوشش کر رہا تھا. "جاو جاکر "رنگ" پڑھوا دو. ہم یہیں سن رہے ہیں. اور جاتے ہوئے یہ کھڑکی بند کر دینا. ہواوں کا رخ بدلنے لگا ہے" وہ فیروز سے کہہ کر آنکھیں بند کرکے بیٹھ گئے. فیروز نے ان کے کہے پر عمل کرتے کمرے سے باہر نکل گیا.
"اگر ہوائیں موسموں کا رخ بدل سکتیں ہیں تو دعائیں مصیبتوں کا. وہ رب کریم ہے ضرور ہاتھ تھامے گا" فیروز کے جانے کے بعد وو اونچی آواز میں کہتے دعا کرنے لگے. جبکہ باہر محفل کے اختمام کیلیے قوال نے "رنگ" پڑھنا شروع کیا.
آج رنگ ہے اے ماں رنگ ہے ری
مورے محبوب کے گھر رنگ ہے ری
سجن ملاورا سجن ملاورا، مورے آنگن کو
جگ اجیارو جگت اجیارو،
میں تو ایسو رنگ اور نہیں دیکھی رے
موہے پیر پایو نجامودین اولیا
نجامودین اولیا، نجامودین اولیا
میں تو جب دیکھوں مورے سنگ ہے ری ماں
دیس بدیس میں ڈھونڈھ پھری ہوں
تورا رنگ من بھایو نجامودین
آج رنگ ہے اے ماں رنگ ہے ری
مورے محبوب کے گھر رنگ ہے ری
........................................
جاری ہے



No comments:

http://novelskhazana.blogspot.com/