Friday, November 30, 2018

سانول موڑ مہار قسط 4اور 5

http://novelskhazana.blogspot.com/





#_سانول_موڑ_مہار

#_ماریہ_اشرف

#_قسط_نمبر_4

کمرے میں ہولناک خاموشی چھائی ہوئی تھی. جب انسان اپنی وقعت کھو دے تو اس وقت اس کیلیے بہترین پناہ خاموشی ہی بچتی ہے. یہی حال جلال گردیزی کا تھا. اور اس وقت مدحت بیگم انکا بھرپور ساتھ دے رہی تھیں. انہیں جلال گردیزی سے سوال کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی کیونکہ خاموشی بھی اپنے آپ میں ایک جواب ہے. ساری رات آنکھوں میں کٹی تھی. مدحت بیگم سارا وقت انکی خاموشی کو سمجھتی رہی تھیں اب انکے لفظوں کو سمجھنا چاہتی تھیں. آخر بول پڑیں.
"سنیے آپ کی شاہ زین سے کوئی بات ہوئی" مدحت یزدانی نے ایک نظر جلال گردیزی پر ڈالتے ہوئے پوچھا.
"نہیں..... شاید اب زندگی بھر نہ ہو سکے" جلال گردیزی کا چہرہ برسوں کا بیمار اور زرد دکھائی دے رہا تھا.
"اتنا دکھی مت ہوں. جانتے ہیں دکھ اور تکلیف کے لمحات وقتی ہوتے ہیں. اگر انسان ان لمحات کو جیسے تیسے برداشت کرلے تو اس تاریک حال میں ہمارے لیے ایک روشن مستقبل چھپا ہوتا ہے" مدحت گل زیادہ دیر تک انہیں پریشان نہیں دیکھ سکتی تھیں.
"ایسا ہمارے ساتھ ہی کیوں ہوا. کہاں کہاں نہیں جاکر میں نے دعائیں کیں، منتیں مانگیں. لیکن ہماری تو ساری دنیا ہی تہہ و بالا ہو گئی" جلال گردیزی نڈھال سے لگ رہے تھے.
"عبادتیں کبھی کبھی ہمیں اس مقام تک نہیں پہنچاتیں جہاں غم پہنچا دیتے ہیں. ویسے بھی وہ جس کی امانت تھی اس نے واپس لے لی" انہوں نے جلال گردیزی کو تسلی دی.
"آپ اتنے سکون سے کیسے بیٹھی ہیں مجھے تو رات سے ایک پل قرار نہیں آیا" انہوں نے بے چینی سے اپنا سینہ ملتے ہوئے کہا
"میں نے سب کچھ وقت کے دھارے چھوڑ دیا ہے. وقت انسان کو جینے کا ہنر سکھا دیتا ہے. پھر کیا نصیب، کیا مقدر، کیا خوشی و غم" مدحت بیگم نے مسکرا کر جواب دیا.
"اتنا حوصلہ نہیں ہے مجھ میں. میں اپنی اولاد کو دیکھتا ہوں تو میرے ملال میں اضافہ ہو جاتا ہے"جلال گردیزی کی حالت اس شخص کی مانند ہو گئی تھی جسکی زندگی سے سکون لفظ ہی گم ہو گیا ہو.
"اگر اپنے غم کو اشتہار بنائیں گے، ہمدردیاں اور تسلیاں سمیٹے گے تو روز گھر میں نئے نئے تماشے لگیں گے" مدحت گردیزی نے انہیں اس حبس زدہ ماحول سے باہر نکلنے کا اشارہ دیا. ابھی تو گھر میں صرف دو لوگ ایک دوسرے کا سامنا نہیں کر پا رہے تھے. باقی سب کو کیسے فیس کرتے.
"میں ہوں نا آپ کے ساتھ. ڈر کی تو کوئی بات ہی نہیں ہے" صرف تین لفظوں کے مجموعے "میں..ہوں..نا" نے انہیں نئے سرے سے جینے کی نوید دے ڈالی. مسکرا کر انکے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر 'ہاں'' میں سر ہلا کر وہ ناشتے کیلیے تیار ہونے چلے گئے.
........................................
"زین بس بھی کر دیں. کب تک مجھے گھورنے کا پروگرام ہے" فاطمہ نے بند آنکھوں سے شاہ زین سے کہا.
"اٹھ گئیں تم" شاہ زین کسی سوچ میں اتنا ڈوبا ہوا تھا کہ ہڑبڑا کر سیدھا ہوا.
"میں کب سے اٹھی ہوئی تھی. آپ بتائیں آپ کن سوچوں میں ڈوبے ہوئے تھے" فاطمہ نے تو بات ہی کی تھی مگر یہ بات شاہ زین کے دل پر جا کر لگی.
"آپ کے علاوہ کسی کی یادوں میں نہیں ڈوب سکتا سو فکر مت کریں" شاہ زین نے منہ بناتے ہوئے کہا.
"میں نے ایسا کب کہا" فاطمہ نے حیرانی سے پوچھا. پھر اسکی خاموشی پر چونک پڑی.
"آپ نے گھر والوں سے کچھ کہا ہے"
"ہاں بہت کچھ کہہ دیا ہے. اب انکے جانے کے بعد احساس ہو رہا ہے کہ نہیں کہنا چاہیئے تھا" شاہ زین نے شرمندگی سے کہا
"کیوں انہوں نے کیا کیا تھا" فاطمہ سارے واقعات سے لاعلم تھی.
"انہوں نے کچھ نہیں کیا بس میرے اندر ہی جنگ چھڑی ہوئی تھی" شاہ زین نے فاطمہ کا ہاتھ تھامتے ہوئے آہستگی سے جواب دیا
"پھر جیتے یا ہارے" فاطمہ نے اسکے ماتھے سے بال پیچھے کرتے ہوئے پوچھا
"مطلب" شاہ زین کو اسکے سوال کی سمجھ نہ آئی.
"انسان جب اپنوں سے لڑے تو ہارنا لازمی ہے اگر خود سے لڑے تو جیتنا. اب آپ مجھے بتائیے آپ فتح یاب ہوئے یا ناکام لوٹے" فاطمہ نے مسکرا کر کہا.
"میں...میں شہید ہو گیا" زین نے گہری سانس خارج کرتے ہوئے جواب دیا. "مجھے خود اپنی کیفیت کا نہیں پتہ لگ رہا"
"اپنا نکتہ نظر بدل لیجیے سارے جذبات خود بخود تبدیل ہو جائیں گے" شاہ زین اسکی طرف دیکھتا رہا کہ فاطمہ نے خود ہی جواب دیدیا.
"اب جائیں پلیز کچھ کھانے کو لائیں. بہت بھوک لگ رہی ہے. سب کو تو آپ نے بھیج دیا ہے اب آپ ہی جائیں گے" فاطمہ نے شاہ زین کو بھیجا
"اور سب کو لیکر ہی لوٹیئے گا" شاہ زین اسے گھورتا ہوا باہر جا رہا تھا کہ فاطمہ نے پیچھے سے اسے آواز دی. جواب میں شاہ زین زور سے دروازہ مار کر باہر نکل گیا.
................................
"سکینہ یہ بچے کیوں نہیں ابھی تک ٹیبل پر پہنچے" مدحت گردیزی ناشتے کا سارا انتظام دیکھتے ہوئے اچانک سکینہ سے پوچھنے لگیں.
"بڑی سیٹھانی وہ....وہ...." سکینہ سے بہانہ بھی نہیں بنایا جا رہا تھا.
"سکینہ ہم کچھ پوچھ رہے ہیں" جلال گردیزی نے بھی اچانک اینٹری دی. سکینہ کو اپنی کم بختی نظر آنے لگی.
"وہ جی بچے رات دیر سے گھر آئے تھے. اس لیے اب تک سو رہے ہیں" سکینہ اپنی بات کہہ کر فوراََ وہاں سے بھاگ گئی.
"اتنے لاعلم تو ہم کبھی نہیں ہوئے کہ بچے رات غائب رہے اور ہمیں پتہ بھی نہیں لگا" وہ دونوں حیرانی سے کھڑے کے کھڑے رہ گئے کہ اتنے میں ان کے پیچھے گڈ مارننگ کہتا حدید آکر ٹیبل پر بیٹھ گیا.
"تم دونوں رات کہاں گئے تھے" ان دونوں نے کڑے تیوروں سے حدید سے پوچھا
"ہاسپٹل" حدید ایک نظر انہیں دیکھ کر کہتا سلائس پکڑنے لگا
"وجہ" ابی جان نے بھی اتنا ہی مختصر سوال پوچھا
حدید نے سب کچھ ٹیبل پر واپس رکھا اور اپنے دونوں بازو باندھ کر ٹیک لگا کر بیٹھ گیا. "آپ نے جو بھائی کی امیدیں توڑی ہیں انہیں ہی جوڑنے گیا تھا" حدید نے ان دوںوں کو دیکھتے ہوئے جواب دیا.
"حدید ایسے کیوں کہہ رہے ہو بیٹا ہم نے کسی کو کوئی دھوکہ نہیں دیا" ابی جان تو ساکن بیٹھے رہ گئے. گل جان نے انکی حالت دیکھتے ہوئے حدید سے کہا.
"ٹھیک کہا آپ نے انسان کم ہی دھوکہ دیتا ہے. اصل دھوکہ تو وہ امیدیں دے دیتی ہیں جو ایک انسان دوسرے انسان سے کرتا ہے" نو سال کا بچہ آج انہیں آئینہ دکھا رہا تھا.
"ایسے مت کہو میری جان" اسکی باتیں سن کر تڑپتے ہوئے گل جان اور ابی جان دونوں اٹھ کر اسکے پاس آئے.
"کیوں میرے معاملے میں بھی تو آپ سب نے مل کر یہی کیا تھا." حدید نے سرخ آنکھوں سے انہیں دیکھتے ہوئے کہا. حدید کی بات سن کر وہ دونوں نظریں چرانے لگے. کچھ نقصان تو حدید کا بھی ہوا تھا مگر اس وقت پتہ نہیں وہ کس کس نقصان کی بات کر رہا تھا.
"جن چیزوں پر پردے پڑے ہیں انہیں پڑے رہنے دیں. ایک دم سے جھٹکے سے ہٹائیں گے تو سارا گرد و غبار خود پر ہی گرے گا. میں تو پھر بھی سنبھل گیا. لیکن بھائی کو سنبھلنے میں بہت ٹائم لگے گا" ان دونوں کی خاموشی پر حدید انہیں دیکھتے ہوئے کہنے لگا. "آج کے بعد کسی کو جھوٹی امید مت دلائیے گا. امیدیں ٹوٹنے کے بعد پھر سے خود کو جوڑنے کا ہنر کسی کسی کے پاس ہی ہوتا ہے. اور یہ سب میں نے وقت کے ساتھ سیکھ لیا ہے. آپ کو اصل فکر اس بارے میں کرنی چاہیے کہ اس گھر میں صرف ایک ہی حدید گردیزی ہے" حدید ان دونوں کو آندھیوں کی زد میں چھوڑتا ٹیبل سے اٹھ گیا.
"سکینہ آپا پلیز ناشتہ تیار کردیں. ہم سب بچے تھوڑی دیر میں مما سے ملنے جا رہے ہیں" سامنے سے آتی سکینہ کو دیکھ کر حدید اسے کہتا اپنے کمرے میں چلا گیا.
............................
شاہ زین پھوں پھاں کرتے کینٹین کی طرف جا رہا تھا کہ اسکی نظر سامنے بینچ پر سوئے خاور اور زینب پر پڑی. "میں نے ان دونوں کو گھر چلے جانے کا کہا تھا اور یہ دونوں صبح سویرے مجھے ہی شرمندہ کرنے کیلیے بینچ پر کیسے آرام سے سو رہے ہیں" شاہ زین نے اپنا کوٹ زینب بھابھی کے اوپر ڈالتے ہوئے سوچا
"اتنا نہیں کسی سے ہوا کہ چائے ناشتہ ہی ادھر بھجوا دیں. پر نہیں ہم تو سوتیلے ہیں نہ" شاہ زین نے غصے سے سوچتے ہوئے بینچ پر ہی اپنا پاوں زور سے مارا
"کیا ہوا....... کیا ہوا" خاور اور زینب ہڑبڑا کر اٹھے
"زلزلہ آگیا تھا" شاہ زین نے سر جھٹکتے ہوئے کہا
"اتنے سڑیل تو تم کبھی نہیں تھے" اسکی شکل دیکھ کر زینب نے مسکرا کر پوچھا
"آپ سے تو میں بات ہی نہیں کر رہا" ناشتہ نہ پہنچنے پر وہ زینب سے کہنے لگا.
"ہوں...اب مسکرانا بھی مصیبت ہو گیا ہے. سب یہی سمجھتے ہیں کہ مجھے تو کوئی غم ہی نہیں ہے" زینب کے اپنے غم شروع ہو گئے. اسکے ہاتھ میں کوٹ تھما کر وہ آگے جانے لگیں کہ شاہ زین نے فوراََ اسے روک لیا. "ویٹ ویٹ بھابھی کیوں شاہین ایکسپریس ٹرین بنی ہوئی ہیں ہم اگر بات نہیں کریں گے تو لڑیں گے کیسے" شاہ زین نے مسکراتے ہوئے کہا
"مطلب. تم مجھ سے اور ابی جان سے ناراض نہیں ہو؟" زینب نے حیرت سے پوچھا.
"نہیں بالکل بھی نہیں. ناراضی اور لڑائی جھگڑوں سے رشتوں میں اتنی دوری آجاتی ہے کہ فاصلہ کبھی سمٹتا ہی نہیں." شاہ زین ان دونوں سے کہتا وہیں بینچ پر بیٹھ گیا. "اپنی اولاد تو میں نے کھو ہی دی تھی آپکی اکلوتی اولاد کو کیسے دور جاتا دیکھ سکتا تھا"
"نائل... کیا ہوا اسے" خاور اور زینب دونوں چونکے
"کل جب ہم فاطمہ کو یہاں لیکر آئے تھے تو وہ یہیں تھا. اسکے چہرے پر صاف لکھا تھا کہ اسے ہمارا بےبی گھر لانے کا غم ستا رہا تھا. اب ایسے میں میں بھی آپ سب کے ساتھ مل جاتا تو آپکا بیٹا ہم سب سے ضرور دور ہو جانا تھا. اتنا کم ضرف میں کبھی نہیں ہو سکتا" شاہ زین نے ان دونوں کو دیکھتے ہوئے کہا
"دیور جی باتیں خوب بنا لیتے ہیں" شاہ زین کو دکھی دیکھ کر زینب فٹ سے بولی.
"کم سے کم آپ لوگوں کی طرح کسی کو بھوکا تو نہیں مارتا" شاہ زین بھی اسی طرح بولا
"او نو ہم بھول گئے" خاور بھی بول پڑے. فون نکال کر گھر کھانا لانے کا کہا.
"چلیے آپ کی دیورانی آپ کو یاد کر رہی ہے جب تک آپ نہیں جائیں گی میرا داخلہ بھی ممنوع ہے" اسکے فون رکھتے ہی شاہ زین ان دونوں کو ساتھ لیے اندر جانے لگا.
........................................
"فاطمہ کی آج بیٹی پیدا ہوئی ہے" ڈائیننگ ٹیبل پر یقیناََ جنگ چھڑنے والی تھی.
"تو" بچوں کی موجودگی کی وجہ سے بڑا سنسر سا جواب آیا تھا. سنعان تو فوراََ سے پہلے اندر بھاگ گیا.
"ایک بار دیکھ ہی آتے. اسکی بچی کا ہماری لڑائی سے کیا تعلق" انہوں نے چائے کا گھونٹ بھرتے ہوئے کہا
"بیگم آپ جانتی ہیں کہ میرے لیے نہ کا مطلب نہ ہی ہوتا ہے تو آپ فضول سی باتیں کیوں کر رہی ہیں" باپ کا پارہ ہائی ہوتا دیکھ کر اسکی بیٹی عدن سامنے آئی اور باپ سے بولی.
"ڈیڈ باہر کچھ لوگ آپ سے ملنے آئے ہیں" بیوی کی رات والی باتوں کو یاد کرتے وہ سر جھٹک کر باہر جانے لگے کہ پیچھے سے آواز آئی "دھیان سے دروازہ کھولیے گا کہیں آپکی بھانجی ہی نہ آپ سے خود ملنے پہنچ گئی ہو" بیوی کو گھورتے ہوئے وہ باہر نکل گئے.
"کون آیا ہے باہر" بات میں دخل دینے پر سخت بد مزہ ہوتے انہوں نے بیٹی کو گھورتے ہوئے پوچھا.
"کوریئر سروس" عدن نے مسکراہٹ چھپاتے ہوئے جواب دیا.
"شاباش ہے بیٹا. اتنی مشکلوں سے تمہارے باپ کو منا رہی تھی کہ ایک بار جا کر دیکھ ہی آتے فاطمہ اس گھر میں ٹھیک تو ہے. مگر آفرین ہے میری اولاد پر. ماں کے ہر کام میں دخل ضرور دے گی" ماں نے دانت پیستے ہوئے عدن سے کہا.
"مام اسے منانا نہیں کہتے. ایسے منایا جاتا ہے کسی کو. اور ایک بات اور آپ خود کونسا ان لوگوں سے بات کرنا پسند کرتی ہیں جو ڈیڈ کو ادھر بھیج رہی ہیں" بیٹی بھی ڈھیٹوں کی سردار تھی. تاک تاک کر نشانے لگا رہی تھی.
"ہاں یہ سچ ہے کہ میں ان لوگوں کو بالکل بھی برداشت نہیں کر سکتی مگر یہ کہاں لکھا ہے کہ بہن بھائی لڑوا دیں اور ان کی لڑائی چپ چاپ بیٹھ کر دیکھتی رہوں" ماں نے خود کو پرسکون کرتے ہوئے جواب دیا.
"مام جیسے آپ منا رہی تھیں نہ اسے منانا کم پمپ کرنا زیادہ کہتے ہیں. اگر ڈیڈ وہاں چلے گئے تو خوامخواہ لڑائی بڑھ جانی ہے" لیکن عدن نے قسم کھائی تھی کہ ماں کو سکون سے نہیں بیٹھنے دینا.
"اب کیا ہوا ہے" ماں نے تلملاتے ہوئے پوچھا.
"پھپھو کے گھر کوئی بچہ نہیں پیدا ہوا" عدن نے ماں کا چائے کا کپ اٹھاتے ہوئے جواب دیا.
"ایسے کہتے ہیں. بدتمیز نہ ہو تو" ماں نے اسکے بازو پر ایک لگائی. پہنچ ہی وہیں تک تھی. کھڑی ہوتیں تو ایک آدھ کمر پر لگتی.
"تو کیا نائل بھائی کی طرح یہ کہوں کہ پری آرہی ہے. سب کو پتہ ہے پریاں کیسے آتی ہیں" عدن نے چائے کا کڑوا گھونٹ بمشکل اندر کیا تھا. منہ بناتی ماں سے بولی.
"عدن باز آ جاو" بیٹی کی دیدہ دلیری پر ماں نے اسے تنبیہہ کرتے ہوئے کہا
"ویسے کیا فاطمہ کے ہاں بیٹا پیدا ہوا ہے" اسکی چائے میں بھر بھر کر چینی ڈالتے ماں نے پوچھا.
"ماں جی ماں جی خدا کا واسطہ ہے. غور سے سن لیں پھپھو کا مسکیرج ہو گیا ہے" عدن نے چڑتے ہوئے اپنے ہی کہے کی تشریح کی.
"یہ کیسے ہوا. تمہیں کس نے بتایا" ادھر اسکی ماں اچھل پڑی.
"حدید نے" بیٹی نے ماں کے سر پر بم پھوڑا.
"حدید.... نے... تم ابھی تک حدید سے کانٹیکٹ میں ہو. تمہارے باپ کو پتہ چل گیا تو سخت خفا ہوں گے" ماں نے اسے آنکھیں دکھائیں.
"آپ ڈیڈ کی بات کر رہی ہیں. پوری دنیا کو پتہ ہے کہ قانیتہ عدن حدید بن شاہ زین گردیزی کی منکوحہ ہے" عدن نے کپ ٹیبل پر پٹختے ہوئے جواب دیا.
"زیادہ بکواس مت کرو" ماں چند لمحے اسے دیکھنے کے بعد مشکل سے بولی. اسکی بیٹی کو زمانے کے لحاظ سے بہت کچھ اتنی سی عمر میں پتہ تھا.
"لڑائی آپ لوگوں کی ہوئی ہے ہماری تو نہیں. آپ سب کو کیا لگتا ہے کہ گھر میں یہ ایک پردہ کرکے، دروازے الگ کرکے، اپنا الگ کھانا بنا کر ہمیں الگ کر دیں گی. ڈیڈ نے تو آج تک اپنا آفس الگ نہیں کیا. بزنس ہی الگ کیا ہے. آپ بھی تو زینب تائی کے ساتھ ایک ہی ہاسپٹل میں جاب کرتی تھیں. چاہے اب الگ ہو گئے ہیں آپ دونوں مگر پہلے تو سب اکٹھے ہی ہوتے تھے. ہمارا بھی تو اسکول ایک، کلاس ایک، ٹیوٹر ایک. اب کہاں کہاں اس سے ملنا بند کردوں" عدن کے لہجے سے شکوہ جھلک رہا تھا. ماں تو اسکے انداز پر ششدر رہ گئی. ماں کو سکتے سے نکالتے ہوئے عدن نے ماں کو اٹھاتے ہوئے کہا. "اب چلیں پلیز دیکھیں ڈیڈ کو کہیں پھپھو سے ملنے ہی نہ چلے جائیں"
.................................
"کیسی ہو فاطمہ" زینب نے ہمت کرکے فاطمہ سے پوچھا. خاور اور زینب کو کمرے میں دیکھ کر فاطمہ آرام سے اٹھ کر بیٹھ گئی.
"بھابھی میں ٹھیک ہوں. لیکن بھابھی معاف کیجیے گا میں آپ کی امانت کی حفاظت نہیں کر سکی" فاطمہ نے شرمندگی سے آہستہ آواز میں خاور اور زینب سے کہا
"ایسے مت کہو فاطمہ" زینب نے اسے گلے لگاتے ہوئے رندھے ہوئے لہجے میں کہا
"لیکن میں نے نائل سے وعدہ کیا تھا بھابھی. اگر مجھے پہلے پتہ ہوتا تو میں اس بچے کو کوئی امید کی کرن نہ دکھاتی" فاطمہ کو نائل کی پرواہ ہونے لگی.
"نائل بچہ ہے سنبھل جائے گا. تم فکر نہ کرو" خاور نے بھی فاطمہ کی شرمندگی دور کرنا چاہی.
"لیکن بھائی وہ ہماری محبت کی نشانی تھی" شاہ زین شرارت سے کہتا خاور کے گلے لگ گیا. زینب اور فاطمہ ان دونوں بھائیوں کے ڈراموں پر شرم سے سرخ پڑتیں منہ نیچے کرکے بیٹھی رہیں.
"وہ محبت کی نشانی تھی تو ہم کیا ہیں" سائر نے کمرے میں داخل ہوتے ہی زور سے نعرہ لگایا. ان "بچوں" کو وہ ابھی چھوٹا کہہ رہے تھے. خاور اور شاہ زین نے خاک جواب دینا تھا وہ بھی منہ نیچے کرکے بیٹھ گئے.
"مما کتنی دیر سے آپ گھر سے باہر رہی ہیں. گھر نہیں آنا کیا" سائر تھانیدار کی تفتیش شروع ہو چکی تھی.
"آج مما گھر آ جائیں گی. فکر نہیں کرو" فاطمہ نے سائر کو بیڈ پر آتا دیکھ کر جواب دیا. زینب شاہ زین اور خاور تو گھر سے آئے ناشتے کو دیکھنے میں مشغول تھے. رائد باپ کے ساتھ چمڑا ہوا تھا جسے گوند سے چپکایا ہوا ہو. اتنے میں نائل خاموشی سے آکر فاطمہ کے گلے لگ گیا. فاطمہ نے حدید سے اشارے سے پوچھا تو حدید نے اس کے اوکے ہونے کا کہہ دیا.
جب سے نائل نے اپنی جان سے پیاری چچی کو اسٹیچر پر بے سدھ پڑے دیکھا تھا تب سے ساری رنجشیں دور ہو چکی تھیں.
......................................
"جی آپ لوگ کون ہیں اور یہ بڑی بڑی گاڑیاں یہاں کیا کر رہی ہیں" احمد درانی ماتھے سے پسینہ صاف کر رہے تھے کہ ان کے پیچھے سے آواز آئی. انہوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا ایک لڑکا انہیں پہچاننے کی کوشش کر رہا تھا.
"برخودار پہلے آپ بتائیے آپ کون ہیں" انہوں نے الٹا اس لڑکے سے پوچھا. لڑکے کی نظریں مسلسل گاڑی کے اندر دبکی بیٹھی مارتھا پر تھیں.
"عارب ہاشمانی"
"احمد شاہ درانی" دونوں نے مصافحہ کرتے اپنا اپنا تعارف کروایا.
"او...... اچھا..... وہ درانی گروپ آف انڈسٹریز کے اونر. ویسے انکل آپ کا یہاں کیا کام" عارب نے یاد پڑنے پر ان سے حیرانی سے پوچھا.
"یہ آپکی بہن ہے" انہوں نے گارڈ سے بچی کو پکڑ کر عارب کے سامنے کیا.
"کون سی بچی وہ جو مارتھا کے پاس تھی" عارب نے ایک نظر مارتھا پر ڈال کر احمد درانی سے معصومیت سے پوچھا. "ویسے آپ بہن کو چھوڑیے یہ بتائیے مارتھا کہاں ہے. ایک کام نہیں ہوا اس سے" عارب نے عجلت میں ان سے بچی کو پکڑتے ہوئے ان سے پوچھا.
"کونسا کام" احمد درانی نے حیرت سے پوچھا.
"بہن پیدا ہوئی تھی تو میں نے منت مانی تھی کہ وہاں درگاہ سے کوئی ایسا شخص لیکر آئے جسے بیٹی کی قدر پتہ ہو. کہاں گئی مارتھا. اگر ممی یا ڈیڈ کو پتہ لگ گیا تو انہوں نے مجھے بڑا ڈانٹنا ہے" عارب نے نظریں چراتے ہوئے بہانہ بنایا.
"وہ رہی گاڑی میں" عارب کی آسکر ایوارڈ کی حامل اداکاری سے انکا دل پسیج گیا. جھٹ سے گاڑی کی طرف اشارہ کر دیا.
"تھینک یو سو مچ انکل. آپ سچ میں بہت اچھے ہیں" عارب خوش ہوتے ہوئے کہا.
"اسکا خیال رکھا کرو. ایویں کے اعتقاد ہیں تم لوگوں کے ابھی بچی کو کچھ ہو جاتا تو" احمد درانی تاسف نے بچی کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے تاسف سے عارب اور مارتھا سے کہا.
"سوری انکل" اپنی مٹھیوں کو بھینچتے ہوئے عارب نے انکل کو گاڑی میں بٹھاتے ہوئے کہا اور انکل مسکرا کر اس سے ہاتھ ملاتے چلے گئے.
"چلیں مارتھا ابھی منت صحیح سے پوری نہیں ہوئی" غصے سے پیچھے مڑ کر عارب مارتھا سے کہنے لگا اور اسکا بازو پکڑ کر گھر کے اندر لے گیا.
.............................
گھر کا مین گیٹ بند کرکے عارب چند لمحے وہیں کھڑا رہا. اسکی نظریں مسلسل بچی کو ہی دیکھ رہی تھیں. البتہ مارتھا خوف سے نچڑ کر رہ گئی تھی. شاید چند لمحے وہ مزید وہیں کھڑے رہتے اگر بچی سوئی رہتی. مگر اس نے تو اٹھتے ہی وہ شور مچایا کہ گھر کی بنیادیں تک ہل گئیں. عدن، سنعان، زوار ہاشمانی اور سندس ہاشمانی بھاگے باہر آئے مگر عارب کے ہاتھ میں روتی بچی اور مارتھا کی کانپتی ٹانگیں دیکھ کر ایک منٹ کیلیے ٹھٹک گئے.
"یہ سب کیا ہے عارب" زوار ہاشمانی نے حیرت سے عارب سے پوچھا.
"آپ کی اور مام کی سب سے چھوٹی بیٹی" عارب نے سرخ آنکھوں سے مسکراتے ہوئے جواب دیا.
"بیگم ایسا تو کوئی سین نہیں تھا" زوار ہاشمانی کو اس وقت بھی مذاق سوجھ رہے تھے.
"پلیز دو منٹ رک جائیں. مجھے ان دونوں سے بات کر لینے دیں" سندس ہاشمانی ان سے کہتی آگے بڑھ آئیں.
"تم مارتھا ہی ہو نا جو ہمارے ہاسپٹل میں ہوتی ہے" سندس نے مارتھا کو پہچانتے ہوئے پوچھا.
"ممی یہ وہی تو نہیں جو لوگوں سے جاکر پیسے لیتی ہیں جن کے بچے پیدا ہوتے ہیں" عدن نے اتنی اونچی آواز سے کہا کہ ماں کو اسے آنکھیں دکھا کر چپ بیٹھنے کا کہنا پڑا.
"مارتھا یہ کیا چکر ہے" سندس نے مارتھا کو گھورتے ہوئے پوچھا. جواب میں مارتھا نے انہیں ساری کہانی سنا دی.
"اتنی سفاکی مارتھا. تم ایک بچی کو وہیں چھوڑ کر آنے والی تھی" زوار ہاشمانی نے غصے سے مارتھا سے کہا. سندس، عدن، سنعان اور عارب تو حیرت سے سن کھڑے تھے. اسکا زرا دل نہیں پسیجا تھا.
"ہم کیا کرتا یہ اتنی منتوں مرادوں سے پیدا ہوا ہے. ہم اسے کیسے اپنے ساتھ لے جاتا. منتوں سے پیدا ہوئے بچے زرا ہلے ہوئے ہوتے ہیں. ہم اسکو اپنے ساتھ لیکر کبھی بھی نہیں جاتا" مارتھا منمنا کر وضاحت دی.
"ہاں چاہے وہ انکل تمہیں جیل لے جاتے. اگر میں نہ دیکھتا تو تم تو آج گئی تھیں مارتھا" عارب نے غصے سے مارتھا سے کہا
"اب اسکا کیا. ہم اس بچی کا کیا کریں" سندس نے زوار سے پوچھا. اس سے پہلے وہ کچھ بولتا بچے آگے آکر اس بچی کو اٹھا کر گھمانے لگے.
"ممی آج سے یہ یہیں رہے گی ہماری بہن بن کر" عدن نے اسکے رخساروں پر پیار کرتے ہوئے ماں اور باپ دونوں سے کہا.
"دماغ خراب مت کرو عدن یہ پتہ نہیں......"
"نہیں ڈاکٹر صاحب مسلمان گھرانے کا بچی ہے یہ. بہت امیر گھر تھا. آپ اس کو رکھ لو" مارتھا نے سندس کے سارے خدشات مٹا دیے.
"لیکن لوگوں کو ہم کیا جواب دیں گے" سندس ابھی بھی ہاں اور ناں میں ڈول رہی تھی.
"کیا نہ ممی. آپکا سوشل سرکل اتنا ہے نہیں. ڈیڈ کو کوئی پوچھتا نہیں ہم کسی کو بتائیں گے نہیں. رہ گئی مارتھا اگر اس نے منہ کھولا تو سیدھا جیل میں جائے گی" عارب ماں باپ کے اچھے خدشے دور کرتا اسے لیے اندر بڑھ گیا.
مارتھا کو بھیج کر عدن اور سنعان عارب کے پیچھے اندر کو بھاگے. اپنی آنکھوں کے سامنے بہت سے سوال لیے سندس اور زوار بھی انکے پیچھے ہی تھے.
"بھائی آپکا اور عدن کا نام ایک جیسا ہی ہے نا تو میں اسکا نام اپنے نام کے ایس سے رکھوں گا" سنعان بچی کو اچھل اچھل کر دیکھتا ان سب سے کہہ رہا تھا.
"ٹھیک ہے تو ہم اسکا نام سجوہ ہاشمانی رکھتے ہیں" عارب نے عدن اور سنعان کو دیکھتے ہوئے پوچھا.
"ٹھیک ہے اسکا نام آج سے سجوہ ہاشمانی ہی ہوگا" ان دونوں کے اوکے کرنے پر عارب نے اونچی آواز سے کہا.
"ٹھیک ہے نا"
"ٹھیک ہے"
"آواز نہیں آرہی ٹھیک ہے نا" عارب نے مسکراتے ہوئے زور سے پوچھا.
"ٹھیک ہے... ٹھیک ہے" جن سے پوچھا گیا تھا وہ ایک دوسرے کو دیکھ کر سر ہلاتے بچوں سے زیادہ خود کو یقین دلانے لگے.
...........................................

#_سانول_موڑ_مہار

#_ماریہ_اشرف

#_قسط_نمبر_5

"آج تو مارتھا نے ساری حدیں ہی پار کر دیں" سندس صوفے پر بیٹھتی ہوئیں زوار سے مخاطب تھیں. "اتنی توہم پرستی"
"بیگم ساری غلطی آپکی ہے. اس کی جرات کو سلام کرتیں آپ اس ننھی بچی کو اپنے گھر لے آئیں" زوار نے دبے دبے غصے سے سندس سے کہا
"واہ ساری غلطی میری کیسے ہو گئی آپ بھی تو بچی کی شکل دیکھنے کو بے قرار تھے" سندس نے اپنا رخ ان کی طرف کیا. "آپکا پیار بھی امڈ امڈ کر باہر آرہا تھا"
"اب اس بچی کا کیا کرنا ہے" زوار نے بات کو مزید آگے بڑھائے بغیر سندس سے پوچھا
"کیا مطلب کیا کرنا ہے. آپکی مسخری اولاد کے ساتھ اب یہ بھی یہیں رہے گی. انہی کے ساتھ ہنسے گی، روئے گی پروان چڑھے گی" سندس نے اپنی اولاد کو والہانہ پیار نچھاور کرتے ہوئے دیکھا. جوان میں ان سب کی سجوہ نے گلا پھاڑ پھاڑ کر رونا شروع کردیا.
"او مائی گاڈ پلیز سندس اسکا رونا تو بند کرواو. اتنے درد بھری آوازوں میں روتی ہے نہ کہ بس ہی ہے" زوار نے سندس کو سجوہ پکڑاتے ہوئے کہا.
"میں کیا کروں گی اسے پکڑ کر" سندس نے انکے ہاتھ میں بچی پکڑنے سے انکار کر دیا. "اسے آپ اپنے پاس ہی رکھیں میں دیکھتی ہوں شاید رفیق آگیا ہو تو اس سے فیڈر اور میجی ملک منگوا لوں" سندس بچوں کو باپ اور سجوہ کے پاس بٹھا کر باہر ڈرائیور کو دیکھنے چلی گئی.
...................................
"سورج کو بھی آج ہی سڑنا یاد آیا تھا" مارتھا پیدل چلتے چلتے تھک چکی تھی. ایک تو گرمی شدید قسم کی تھی. اوپر سے تپش اور دھوپ کی تمازت سے اسکا جسم تنور کی مانند تپنے لگا تھا. غصے کا گراف تو پہلے ہی ہائی تھا.
"مجھے سکھاتے ہیں انسانیت، محبت، خلوص کے درس. خود کتنے پانی میں ہیں سب جانتے ہیں. مجھے کس پاگل کتے نے کاٹا ہے کہ بھری جوانی میں ایک بچی کو پالوں. پہلے خود تو زندگی کے مزے لے لوں" مارتھا مسلسل بڑبڑاتی سجوہ کو ہی رو رہی تھی.
"پلیز گاڈ مجھے مزید اس بچی کی شکل نہیں دیکھنی. پلیز کچھ ایسا کر دو کہ اس سے میری جان چھوٹ جائے" مارتھا سلگتے ہوئے سوچتی مین روڈ پر آچکی تھی جہاں سے اسے ہاسپٹل کیلیے نکلنا تھا.
..............................
جلدی کے چکر میں سیڑھیاں چڑھ کر وہ اس قدر ہانپ چکا تھا کہ حجرے کے ہی باہر وہ تھوڑی دیر سانس لینے کو رکا. اپنی سانسوں کو دو منٹ بحال کرنے کے بعد فیروز اندر داخل ہوا. پیر سائیں آنکھیں کھڑکی سے باہر ٹکائے کسی چیز کو دیکھ رہے تھے. فیروز انکی محویت کسی چیز میں محسوس کرتا لوٹنے ہی لگا تھا کہ پیر سائیں کی بات سن کر وہ اپنی جگہ جم گیا.
"اور بھئی فیروز رات کیسی کٹی" پیر سائیں نے اسکے چہرے پر پھیلی طمانیت دیکھتے ہوئے پوچھا. فیروز نے چونک کر انکی طرف دیکھا.
" مجھے معاف کردیں سائیں میرا مقصد ہرگز آپکو پریشان کرنا نہیں تھا. میں تو جا رہا تھا مگر سائیں آپکو کیسے محسوس گیا کہ میں یہاں موجود ہوں" فیروز وہیں نیچے زمین پر عقیدت سے بیٹھ گیا.
"احساس بڑی ہی عجیب چیز ہے لیکن آجکل انسان نے محسوس کرنا اس لیے چھوڑ دیا ہے کیونکہ اسے ان چیزوں سے محبت ہو گئی ہے جن میں رتی بھر احساس نہیں" پیر سائیں کی باتیں سن کر فیروز نے انہیں دیکھا. "کیوں تمہیں کچھ الگ الگ محسوس نہیں ہورہا"
"کیا یہ سکون اور اطمینان عارضی ہے" سب سے پہلے اسکے ذہن میں یہی بات آئی تھی.
"سائیں باہر تو بڑی دھوپ نکل آئی ہے. چرند پرند اور انسان سب اپنے اپنے کام کاج پر لگ گئے ہیں. ایسا کیا ہے جو الگ ہے" فیروز نے ہمت کرکے پوچھ لیا.
"دھوپ تو بس بدنام ہی ہے یہاں انسان انسان کو بھسم کرنے کا سوچ رہا ہے" پیر سائیں نے دو منٹ کی خاموشی کے بعد کہا.
"سائیں آپ اس بچی کی وجہ سے پریشان ہیں"
"بچی کا ایک نام ہے. اسے اسکے نام سے ہی پکارا کرو بخت روشن" فیروز کی بات سن کر قدرے برہمی سے جواب آیا.
"سائیں بخت روشن ابھی تک اپنے ٹھکانے پر نہیں پہنچی آپ اس لیے پریشان ہیں" فیروز کو کسی گڑبڑ کا احساس ہوا.
"میں اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا." پیر سائیں نے فیروز کے صحیح اندازے لگا جانے پر دو منٹ کی خاموشی کے بعد کہا. فیروز کی سانس اٹک گئی. ابھی رات کی ہی تو بات تھی جب اسے بتایا گیا تھا کہ بچی... نہیں نہیں بخت روشن رونق میلے میں پہنچ چکی تھی اب کیا ہوا تھا کہ پیر سائیں اتنا فکر مند تھے.
"جو باتیں کہی نہیں جاتیں انہیں فرض کر لیا جاتا ہے چلو یہی فرض کر لیتے ہیں" پیر سائیں نے فیروز کے کچھ پوچھنے سے پہلے ہی بتانا شروع کیا.
"طوفان چاہے اندر کا ہو یا باہر کا ہمیشہ تباہی ہی مچاتا ہے. اسی طوفان سے بچانے کیلیے بخت روشن کا ٹھکانہ تبدیل کیا گیا ہے. ایک گندہ ذرہ پھوڑے میں پیپ کی مانند پورے جسم میں جس تیزی سے پھیلتا ہے اسی تیزی سے گندی مچھلی پورے تلاب کو گندہ کرتی ہے. اسی گندگی سے اسے بچانے کیلیے خدا نے کچھ اور ہی سوچ رکھا ہے. یہ سب مقدر کے کھیل ہیں. بہت سی قسمتوں کے رنگ لے کر وہ ابھرے گی" پیر سائیں نجانے گتھیاں سلجھا رہے تھے یا الجھا رہے تھے فیروز تو دم سادھے انہیں دیکھ رہا تھا.
"رنگ سے یاد آیا بھئی فیروز کتنے ہی دن ہو گئے یہاں کسی نے "رنگ" نہیں پڑھا. آج عصر کے بعد محفل سماع کا تو بندوبست کرو" فیروز سے کہتے وہ دوبارہ کھڑکی سے باہر دیکھنے لگے.
.................................
"عارب جاو بیٹا پھر سے دیکھ کر آو مما آئیں کہ نہیں" زوار نے جھنجھلاہٹ سے کہا. کوئی دس دفعہ وہ بچوں کو باہر دیکھنے کیلیے بھیج چکا تھا. سجوہ بھی رو رو کر ہلکان ہوئی پڑی تھی.
"مما آگئیں" قانیتہ نے ماں کو دیکھتے ہی نعرہ لگایا. زوار نے پلٹ کر سندس کو ٹائم دیکھنے کا اشارہ کیا. سندس مسکرا کر کچن میں بھاگی گئیں.
"بس بس مما ابھی آرہی ہیں رونا نہیں" سجوہ پھر سے رونے کا پروگرام بنانے لگی تو زوار اسے کچن میں ہی لے آیا.
"نجانے کن لوگوں کے جگر کا ٹکرا ہوگی اتنی پیاری سی تو ہے" سندس نے فیڈر دیتے ہوئے زوار سے کہا. زوار کسی گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا. سندس کی بات سن کر چونک اٹھا.
"کیا کہہ رہی تھیں؟ میں نے صحیح سے سنا نہیں" زوار نے سندس کو سجوہ پکڑاتے ہوئے پوچھا.
"زوار کیا بات ہے جب سے سجوہ آئی ہے آپ کسی گہری سوچ میں ہی ڈوبے ہوئے ہیں. کہیں اس چھپکلی کی وجہ سے تو پریشان نہیں"
"وہ چھپکلی اب کسی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی. کم از کم شاہ زین اور فاطمہ کی زندگی سے تو دور ہی رہے گی"
"آج کتنے دنوں کے بعد آپ نے فاطمہ کا نام لیا ہے" سندس نے خوشی سے زوار کو دیکھا اس سے پہلے تو وہ صرف سجوہ کو ہی دیکھے جا رہی تھیں.
"اسی کیلیے ہی تو یہ سب کیا ہے میں نے ورنہ کیسے اپنی بہن کو ان شاطر لوگوں میں چھوڑ دیتا" زوار نے بےبسی سے کہا
"پھر پریشانی والی کیا بات ہے" سندس نا سمجھی سے کہنے لگیں.
"پریشانی کی یہ بات ہے" زوار نے ایک انویلوپ سندس کی طرف بڑھایا.
"کوریئیر سروس کی طرف سے یہ آیا ہے" سندس نے اس لفافے کو کھولا. اسکے اندر سے نکلنے والے پیپر نے انکے ہوش اڑا دیے.
.................................
ہاسپٹل کے کمرے میں سب حد درجه بیزار اور کوفت کا شکار دکهائی دے رهے تهے. زینب نے فاطمہ کی دیکھ بھال میں کسی کو آگے تک نہیں آنے دیا تھا. سب ایک قطار میں بیٹھے ہوئے تھے.
"زینب بس کردو کیوں چھپکلی کی مانند اسکے سر پر سوار ہو. شاہ زین ہے نا یہاں. ہم سب چلتے ہیں" خاور کی آخر بس ہو گئی تھی.
"آپ کو جانا ہے تو آپ جائیں. میں تو ابھی کہیں نہیں جا رہی" زینب بھی اسکے بیڈ پر چڑھ کر بیٹھ گئی.
"خدا کا خوف کرو زینب" خاور غصے سے کہتا واپس بیٹھ گیا.
"بھابھی میری پیاری بھابھی پلیز میری بیوی کو میرے لیے بھی چھوڑ دیں" شاہ زین زچ پڑا تھا.
"ایک بار تم دونوں کو اکیلا چھوڑنے کا انجام دیکھ چکی ہوں. سوری اب میں کوئی رسک نہیں لے سکتی" زینب بھی اپنے نام کی ایک تھی وہیں ڈٹ کر بیٹھی رہی.
..............................
"یہ کیا ہے زوار ایسے کیسے ہو سکتا ہے" سندس نے زوار کے آگے وہ صفحہ کرتے ہوئے پوچھا.
"میں کیا کہہ سکتا ہوں. یہ سب جلال گردیزی کے خرافاتی دماغ کی وجہ سے ہوا ہے" زوار نے دل کی ساری بھڑاس گردیزی لاج پر نکالی.
"انہیں کسی پر یقین کرنے کی عادت ہی نہیں ہے. اب بھی بزنس سے مجھے علیحدہ کردیا ہے" زوار کو اپنی معاشی حالت نظر آ رہی تھی. گھر کا خرچہ، بچوں کی پڑھائی. "بچے تو پہلے ہی ہمیں باتیں مارنے لگے ہیں. ماں کا سوشل سرکل نہیں ہے. باپ کو کوئی پوچھتا نہیں"
"میں نے آپ سے پہلے بھی کہا تھا کہ ملک سے باہر چلتے ہیں. جلال گردیزی نے ہمیں یہاں چین سے جینے نہیں دینا" سندس نے سنجیدگی سے کہا
"اب سجوہ کو کیسے ساتھ لے کر جائیں گے. باقی بچوں کے تو پاسپورٹ بنے ہوئے ہیں" زوار نے گہری سانس خارج کرتے ہوئے کہا.
"سجوہ کو بچوں کو دو اور چلو چلتے ہیں ذرا ایمبیسی پتہ کرکے آتے ہیں کہ کوئی آسان طریقہ ہے یا نہیں. شاید سجوہ بھی ہمارے ساتھ ہی آجائے یا پھر کچھ اور سوچتے ہیں" زوار کو یہی آخری حل نظر آیا. لیکن جو حل المشکلات تھا اس نے تو کچھ اور ہی سوچ رکھا تھا.
..............................
"مجھے سمجھ نہیں آتا آخر کون ہے جو ہمیں اور ہاشمانی خاندان کو لڑانے کی کوشش کر رہا ہے" جلال گردیزی مسلسل ایک جگہ سے دوسری جگہ ہاتھ میں کاغذ کا ٹکڑا لیے ٹہل رہے تھے.
"یہ لڑائی آج کی تو نہیں ہے" مدحت گردیزی کی بات سن کر انہیں بریکیں لگیں.
"آپ کا کہنے کا مطلب ہے کہ یہ سب میں کر رہا ہوں" جلال گردیزی نے پلٹ کر انہیں دیکھا.
"یہ سب قسمت کے فیصلے ہیں" مدحت گردیزی نے آہستگی سے جواب دیا.
"صحیح کہہ رہی ہیں یہ سارے قسمت کے ہی فیصلے ہیں" آخر تھک ہار کر وہ بھی بیٹھ گئے.
"اور جو قسمت پر یقین رکھتا ہے وہ افسردہ نہیں ہوا کرتا" انکی افسردگی دیکھ کر گل جان بولیں.
"لیکن کچھ باتیں انسان کے بس میں نہیں ہوتیں وہ انہیں چاہ کے بھی قبول نہیں کر پاتا" ابی جان نے کہا
"میں آپکے احساسات سمجھ سکتی ہوں. آپکو زوار کی خاموشی چبھ رہی ہے نا" گل جان نے اندازہ لگایا.
"ہاں....اپنا ہی بچہ ہے وہ بھی. مگر مجھے سمجھ نہیں آتا وہ اب تک خاموش کیوں ہے بتاتا کیوں نہیں کہ اسنے آفس کے ڈاکومنٹ لیک نہیں کیے تھے" جلال گردیزی بولے
"یہ تو آپ اور میں جانتے ہیں شاہ زین کو کون سمجھائے" گل جان بولیں
"وہ تو فاطمہ پر بھی پابندی لگائے ہوئے ہیں. اور ساری دنیا مجھے ولن سمجھ رہی ہے" جلال گردیزی اولاد پر بھڑکتے باہر نکل گئے.
............................
"بھائی آپ اپنی بیوی کو کمپنی دے دیں" شاہ زین زینب کی حرکتوں پر جلتا بنتا خاور سے کہتا باہر چلا آیا. بھانت بھانت کے لوگ وہاں موجود تھے. کہیں پر بھی بیٹھنے کی جگہ تک نہیں تھی. غصے میں آکر وہ کمرے سے باہر تو آگیا تھا اب اسے خاور اور زینب کے مسکرانے کی وجہ سمجھ آ رہی تھی. واپسی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا. آخر کینٹین ہی چلا گیا. وہیں اسٹول پر بیٹھ کر چائے پینے لگا کہ ٹی وی پر چلنے والی ہیڈلائنز اسکا سارا سکون غارت کر گئیں.
"آج کراچی چیمبر آف کامرس نے بزنس کے میدان میں بہترین کارکردگی دکھانے والوں کو ایوارڈ دیے. بزنس مین آف دی ایئر کا ایوارڈ احمد شاہ درانی نے حاصل کیا. درانی گروپ کے سی ای او احمد شاہ درانی نے یہ ایوارڈ مسلسل دوسری بار حاصل کیا ہے. پچھلے کچھ سالوں سے درانی گروپ کا شمار دنیا کی بڑی اور بہترین کمپنیز میں کیا جانے لگا ہے. احمد شاہ درانی نے ہمارے نمائیندے سے بات کرتے ہوئے کیا کہا آئیے جانتے ہیں.
نمائندہ: "سر لگاتار دوسرے سال بھی آپکو ایوارڈ ملا ہے کیا کہنا چاہیں گے؟"
احمد شاہ درانی: "دیکھیے سب سے اہم بات اس میں یہ ہے کہ یہ ہمارے اسٹاف کی محنت اور کوششوں کا نتیجہ ہے"
نمائندہ: "سر بزنس میں کامیابی کی وجہ بھی بتا دیجیے؟"
احمد شاہ درانی: "محنت، ایمانداری، سچائی اور یقین. تھینک یو"
"تھینک یو سو مچ احمد درانی مجھے یہ سب یاد دلانے کیلیے. محنت، ایمانداری، سچائی اور یقین. ہونہہ. محنت میری اور ایوارڈ تمہارے. ایمانداری، سچائی اور یقین کی بات تو تمہارے منہ سے بالکل اچھی نہیں لگتیں. اور یہ سب ہوا ہے زوار ہاشمانی تمہاری وجہ سے. تمہیں تو میں وہ سزا دوں گا کہ دنیا یاد رکھے گی" مٹھیاں بھینچتے ہوئے شاہ زین زوار اور احمد درانی سے مخاطب تھا. غصے نے اسکی عقل پر پردہ ڈال رکھا تھا.
....................................
جاری ہے




No comments:

http://novelskhazana.blogspot.com/