Sunday, December 2, 2018

دکھوں کا حا صل قسط 1 تا 6

http://novelskhazana.blogspot.com/






میرا یہ افسانہ پبلش ہو چکا ہے

دکھوں کا حاصل
قسط نمبر 1
روبینہ رضا
پنجاب کے بعض دیہاتوں میں شادی سے چند دن پہلے ہی یہ سلسلہ شروع ہو جاتا ہے کہ دولہے کو برادری کے لوگ باری باری شام کے وقت ہر روز رُسا (ناراض) کر کے لے جاتے ہیں اور پھر اس کے گھر والے تمام برادری کے ساتھ اور گاؤں والوں کے ساتھ
بینڈ باجے بجاتے ہوئے دولہے کو منانے جاتے ہیں اور میزبان خاندان چائے اور مٹھائی کے ساتھ آنے والوں کی خاطر مدارت کرتاہے پھر خوب ڈھولک پر گیت گانے کے ساتھ ساتھ لڈی وغیرہ بھی ڈالی جاتی ہے
یوں شادی میں دو لہے کی اہمیت کو اجاگر کیا جاتا ہے۔آج کی دولہا رسائی کی رسم میں منیبہ بھی اپنے بچوں کے ساتھ مدعو تھی اب سب لوگ دولہے کو منانے جا رہے تھے۔سب کے چہروں پر خوشی رقصاں تھی منیبہ بھی بہت خوش تھی ۔پھر جانے کون سی کسک اس کے دل میں پیدا ہوئی کہ جس نے اس کے کِھلتے ہوئے چہرے کے تمام رنگ چھین لیے اور وہ چھوئی موئی کی طرح یکسر مرجھا سی گئی۔وہ حسرت بھرے اندازمیں دولہے کے ماں باپ کو دیکھ رہی تھی ۔دولہے کا باپ دولہے کی ماں پر نوٹ وار رہا تھا اور دولہے کی ماں --------- محفل کی جان بنی ہوئی تھی منیبہ نے ایک سرد آہ بھری اور ایک نگاہ اپنے تینوں بچوں بلخصوص اپنے ڈھائی سال کے اکلوتے بیٹے علی پر ڈالتے ہوئے دل ہی دل میں اللہ تعالٰی سے دعا مانگی ۔
یااللہ ۔یہ خوشیوں بھرا وقت میرے نصیب میں بھی لکھ دے۔---------مگر اگلے ہی لمحے وہ سوچنے پر مجبور ہو گئی اور خود سے دکھ بھرے لہجے میں مخاطب ہوئی
ارے منیبہ۔ کیوں خوابوں کے جال بنتی ہے ؟
------نہ کر ایسا--------ورنہ ------- جاتے ہوئے بڑی تکلیف ہو گی --------- مت بھول ۔کہ تیری اوقات کیا ہے----------ارے تُو تو مہلک بیماری کی ذد میں ہے اور دوائیوں کے بل بوتے پر زندگی کی سانسیں چل رہی ہیں خوشیوں کی اس محفل میں منیبہ کے آنسو آنکھوں کے کٹوروں میں بھر گئے جہنیں منیبہ نے بڑی نفاست سے صاف کر دیا۔اور کسی پر ظاہر نہ ہونے دیا۔
مگر پھر زیرِ لب بڑ بڑائی
"وہ بڑا رحیم و کریم ہے وہ جو چاہے کر سکتا ہے"
ماما ۔ماماجی.4 سالہ ہانیہ نے بڑے پیار سے منیبہ کا بازو پکڑ کر ہلاتے ہوئے پکارا۔منیبہ دھیرے سے بولی
جی -----جی بیٹا؟
ماما آپ پریسان تیوں ہیں؟ ہانیہ نے معصومیت سے اپنی گول گول آنکھیں مٹکاتے ہوئے اپنی توتلی زبان میں پوچھا۔ گویا وہ اپنی ماں کے دکھ کو اس کے چہرے پہ محسوس کر چکی تھی ۔بچے ماں کی بے وقت تکلیف کی وجہ سے بہت احساس ہو چکے تھے اسی لیے ماں کے کرب کو فوراً بھانپ لیتے تھے۔
منیبہ نے مسکرا کر ہانیہ کو دیکھا ۔پیار کیا اور سینے سے لگا کر بولی
نہیں ماما کی جان ۔میں تو بہت خوش ہوں ۔ہانیہ بھی خوش ہو گئی
--------***-------***-------***
منیبہ نے ایک بار پھر نمبر ملایا مگر حسبِ معمول دوسری طرف سے نمبر مصروف کر دیا گیااس نے موبائل ٹھوڑی کے ساتھ لگایا اور سوچنے لگی کہ آخر بات کیا ہے؟پھر خیال آیا کہ ہو سکتا ہے وقار مصروف ہو اسی وجہ سے نمبر بزی کر دیتا ہو آدھ گھنٹہ کے بعد دوبارہ کوشش کروں گی۔ اتنی دیر میں ہو سکتا ہے کہ وقار خود ہی کال کر لے۔یہ سوچ کر منیبہ مطمن ہو کر کام میں مصروف ہو گئی۔ایک گھنٹے بعد دوبارہ خیال آیا تو شرمین نے ایک بار پھر نمبر ملایا۔ وقار نے کال اٹینڈ نہ کی ۔منیبہ کو یاد آیا کہ وقار کے چچا زاد بھائی شاہد کے نمبر سے کال کرتی ہوں جب شاہد کے نمبر سے کال کی تو وقار نے کال اٹھا لیاور انتہائی متانت و سنجیدگی سے بولا
اسلام و علیکم
منیبہ سلام کا جواب دینے کی بجائے (کیونکہ وہ جانتی تھی کہ یہ سلامتی وہ شاہد پر بھیج رہا تھا) فوراً بولی ۔وقار کیا بات ہے؟ آپ میرے نمبر سے کال یس کیوں نہیں کر رہے ہیں؟
وقار نے منیبہ کی آواز سنتے ہی کال کاٹ دی۔منیبہ نے دوبارہ نمبر ملایا تو نمبر بند جا رہا تھا
منیبہ کو سب سے زیادہ اذیت تب ہوتی تھی جب کوئی اچانک رابطہ ختم کر دے یا بات کرنا بند کر دے ۔ منیبہ ابھی بھی بہت ہی بے چین مضطرب اور پریشان تھی اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا کرے۔منیبہ نے میسج کیا ۔
کیا بات ہے وقار۔اگر کوئی ناراضگی ہے تو اظہار کرو ۔یوں خاموش رہ کر اپنا اور میرا خون جلانے سے کیا فائدہ؟
مگر کوئی رسپونس نہ ملا۔
گھنٹے بعد منیبہ نے دوبارہ نمبر ملایا ۔منیبہ چاہتی تو اس کو چھوڑ دیتی پھر جب اس کا جی چاہتا کال کر لیتا مگر وہ وقار سے محبت کرتی تھی وہ اس کو کھونا نہیں چاہتی تھی۔ اسی لیے بار بار کال کر رہی تھی ۔آخر کر اس کی محنت سفل ہوئی اور وقار نے فون اٹھا لیا ۔مگر غصے سے چلایا۔
" میں یہاں ملازمت کرتا ہوں میں صبح سے ابھی تک گاڑی ڈرائیو کر رہا ہوں تم لوگ مجھے آرام سے نوکری کرنے دو گے یا نہیں "
منیبہ کو دھچکا سا لگا مگر خود کو سنبھالتے ہوئے بڑے اطمینان سے بولی-------------
دکھوں کا حاصل
قسط نمبر 2
از روبینہ رضا
وقار۔ گھر میں بھی سو قسم کے مسائل ہوتے ہیں مگر میں آپ کو اس لیے نہیں بتاتی کہ آپ پریشان نہ ہوں اور اپنے طور پر خود ہی ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش رتی رہتی ہوں۔ اگر آپ وہاں بھوکے پیاسے کام میں مصروف ہیں تو میں بھی گھر کی ذمہ داریاں پوری کرتی ہوں یہ ہمارا فرض ہے کسی پر احسان نہیں ۔منیبہ نے اطمینان سے جواب دیا
وقار ۔اونہہ مثلاً کون سے مسائل ؟
مثلاً دو دن سے علی کو بخار تھا اور میری اپنی طبیعت بھی--------
بس بس طبیعت خراب تھی تبھی ولیمہ کھانے گئی تھی کل رات کو ۔
منیبہ تھوڑا خاموش رہنے کے بعد بولی ۔شادی کل ہے اور رخصتگی اس سے اگلے دن ۔ تھوڑی دیر دونوں طرف خاموشی رہی اس کے بعد منیبہ نے کال کاٹ دی ۔مگر وقار کی باتیں ہتھوڑے کی طرح منیبہ کے دماغ پر برسنے لگیں۔
--------***--------***--------***
زینب بولی ۔یاسر کیوں کال کی ہے
یاسر ۔وہ مجھے منیبہ آپی سے بات کرنی ہے ان کا فون بند ہے تو سوچا تمہیں بولوں بات کروا دو ۔
زینب ۔ اس وقت شام کو وہ ٹھنڈ کی وجہ سےکمرے میں چلی جاتی ہیں اور پھر باہر نہیں نکلتیں ۔اور ان کے کمرے میں سگنل نہیں ہوتے ۔
یاسر ۔تم ان سے کہو تو ۔مجھے آج انہیں پمپ کرنا ہے ۔میں نے آج ان کا اور وقار کا جھگڑا کروانا ہے انہیں بتانا ہے کہ میں نے آج وقار کو کسی خوبصورت لڑکی کے ساتھ گاڑی میں جاتے ہوئے دیکھا ہے
زینب بولی ۔چھوڑو یاسر منیبہ بھابھی کبھی یقین نہیں کریں گیں ۔
یاسر بولا تم جاؤ تو ۔
چارو ناچار زینب کو جانا پڑا ۔یاسر نے مرچ مثالہ لگا کے بتانا شروع کیا۔منیبہ اس کی بے تکی باتیں سن کر تنگ آکر بولی ۔دیکھو یاسر ان باتوں کا کوئی مقصد نہیں ہے ۔وقار ڈرائیور ہیں اور جن کے ساتھ وہ کام کرتے ہیں ان کی بہو بیٹیوں کو آگے پیچھے لے کر جانا ان کا کام ہے۔میں سردی کی وجہ سے زیادہ دیر باہر کھڑی نہیں رہ سکتی۔
نہیں منیبہ باجی وہ ڈیٹ پہ تھا آپ میری بات سمجھیں میں جھوٹ نہیں بول رہا ۔یاسر بولا
دیکھو مجھے اس سے کوئی پریشانی نہیں جب وہ لوٹ کر آتا ہے تو میرے ہی پاس آتا ہے۔باقی میں تمہاری اوٹ پٹانگ حرکتوں سے باخوبی واقف ہوں ۔تم نے اگر جھگڑا بنوانا ہی ہے تو ایسا ہی ایک فون وقار کو کرو کہ آج میں نے منیبہ باجی کو بازار میں یا ہوٹل میں کسی لڑکے کے ساتھ دیکھا ہے ۔پھر دیکھنا فوری نتیجہ ملے گا بغیر تصدیق کے تینوں وہیں سے نہ دیں تو بولنا ۔یہ سوچے بغیر کہ میں جگر کے کینسر میں مبتلا ہوں ۔اور جس کو جان کے لالے پڑے ہوں اس کے لیے یہ سب بے معنی ہوتا ہے
یاسر حیرت اور شرمندگی کی ملی جلی کیفیت میں بولا تینوں کیا------- ؟
پھر خود ہی جواب دیتے ہوئے سوالیہ انداز میں بولا ۔طلاقیں---------؟
--------ہاں ۔اور منیبہ نے فون کاٹ دیا۔
منیبہ کو جگر کا کینسر تھا ابتدائی سٹیج پر ہی تشخیص ہو گئی تھی ۔ایک آپریشن ہو چکا تھا مگر منیبہ زندہ دلی سے جینا چاہتی تھی اسی لیے وہ زیادہ اس بارے میں دھیان نہ دیتی اور خود کو مصروف رکھتی ۔اسی وجہ سے ابھی تک اس کی خوبصورتی مانند نہیں پڑی تھی اور نہ ہی بیماری نے اس پر اپنی پر چھائی ڈالی تھی
اگر چہ مبینہ ٹھیک ہو چکی تھی مگر زندگی خوشی اور بے خوفی سے جینے کی بجائے ہر وقت موت کا خوف طاری رہتا تھا ۔کئی راتیں جاگ کر گزار دیتی کیونکہ اس کا ذہن اچانک موت کے لیے تیار نہ ہو رہا تھا ۔ایسے میں اگر وقار کی طرف سے پریشانی ملتی تو وہ اور زیادہ پریشان ہو جاتی تھی ۔مگر وقارکو تو منیبہ کے رنگ روپ کو لے کر اپنے شک کے علاوہ کسی چیز کی پرواہ ہی کب تھی ڈاکٹر بھی تو یہی بتا چکے تھے کہ اگر آپ خوش رہیں گی تو جہاں چند ماہ جینا ہے وہاں سالوں جی سکیں گی یہی وجہ تھی کہ اندر کے دکھ تو اگر چہ موجود تھے مگر وہ اپنے آپ کو ہنستے مسکراتے اورخوبصورت چہرے کو میک اپ سے مزین رکھتی صاف ستھر ے لباس میں ملبوس رہتی اِسطرح اُسے دیکھ کر اُ س کے چہرے اور جسامت سے اُ س کی بیماری کا تاثر کبھی نہ جھلک سکا۔ وہ خاموشی سے مرنا چاہتی تھی کیونکہ ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ اگر کوئی بیمار ہو کر چارپائی لگ جائے تو کہا جاتا ہے اللہ کی طرف سے پڑی ہوئی ہے اب دیکھنا کیسے کُڑ کُڑ کر مرے گا اسی جہاں میں دے کر جائے گا اور منیبہ اپنے بارے میں یہ سب کچھ نہیں سننا چاہتی تھی ۔
ایسا کہنے والوں کو جب خود کو مصیبت آ گھیرتی ہے تو کہتے ہیں یہ تو اللہ کی طرف سے آزمائش ہے کیونکہ وہ تو ہمیشہ ہی اپنے پیاروں کو آزماتا ہے کبھی دے کر کبھی لے کر ۔
ہم نے بس اپنی مرضی اور اپنے مطلب کا اسلام بنا لیا ہے۔اپنے مطلب کے معنی نکال لیے ہیں۔
منیبہ دل کو بہلانا چاہتی تھی خوب گھومنا چاہتی تھی اپنے بچوں اور اپنے شوہر کے ساتھ ہر محفل میں جانا چاہتی تھی وہ اپنے بچے کچھے وقت کے ایک ایک لمحے کو یادگار بنانا چاہتی تھی مگر وقار اب بھی یہی چاہتا تھا کہ اس کے سوا منیبہ کو کوئی نہ دیکھے وہ اب بھی منیبہ کے رنگ و روپ میں کھویا رہتا تھا۔اسے کبھی بھی منیبہ کی بیماری ۔بدحالی اور حالت ِ زار پر ترس نہ آتا تھا وقار کو کبھی خیال نہ آیا کہ منیبہ اپنی زندگی جینا چاہتی ہے اپنے بچوں کو بڑھتے دیکھنا چاہتی ہے بچوں کی خوشیاں دیکھنا چاہتی ہے۔ اور میں اس کو جینے میں اسکی مدد کر سکتا ہوں منیبہ اکثر سوچتی تو غمزدہ ہو جاتی ۔کیا وقار میرے مرنے کے بعد دوسری شادی کر لے گاکیا میرے بچوں کا نصیب بھی میرے جیسا ہو گا کیا انہیں بھی سوتیلی ماں کے ظلم و ستم برداشت کرنے پڑیں گے۔نہیں ---------نہیں ------منیبہ تڑپ کر رہ جاتی۔
نہ خدایا نہ -----اے بزرگ و بالا تر تجھے واسطہ ہے تیری خدائی کا میرے بچوں کو ان کی ماں کے لیے کبھی نہ ترسانا۔۔جیسے کہ میں اور میرے بہن بھائی ترسے ۔انہیں سوتیلی ماں کے ظلم وستم سے بچانا ۔وہ اپنی دعا میںاپنے بچوں کو بھی شامل کر لیتی وہ بھی ہاتھ اٹھا لیتے۔منیبہ رو رو کر بولتی رہتی ۔یا اللہ میرے معصوم بچوں کے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں کی لاج رکھ لینا جو گناہوں سے پاک بہت ہی معصوم ہیں۔یا اللہ مجھے میری زندگی میرے لیے نہیں چاہیے بس میرے بچوں کی ماں لوٹا دے۔
مگر اب بیماری اور وقار کے شکی مزاج کو ساتھ لے کر چلنا مشکل ہو رہا تھا ۔اسی لیے پریشانی میں اس نے دوائی لینی چھوڑ دی جس کی وجہ سے منیبہ کی طبعت بہت خراب ہو گئی ۔ اتوار کا دن تھا منیبہ نے ناشتے کے بعد واشنگ مشین لگا لی پھر برتن دھوئے اس کے بعد دن کا کھانا بنا یا۔مسلسل کام کرنے کی وجہ سے منیبہ کا جسم کانپنے لگا اور سانس اکھڑنے لگا
منیبہ دکھ اور غم کی کیفیت سے دو چار تقریباً گرنے ہی والی تھی کہ اچانک کسی کام کے سلسلے میں زینب کچن میں داخل ہوئی لڑھکھڑاتی ہوئی منیبہ کو سہارا دے کر اندر بیڈ پر لٹایا۔لحاف اوڑھا کر ہیٹر آن کیا اور وقار کو فون کر کے منیبہ کی طبیعت سے آگاہ کیا۔ وقار ایک دم پریشان ہو کر بولا اچھا میری بات کرواؤ منیبہ سے اس نے دوائی کیوں نہیں لی ۔زینب بولی ۔بھائی ابھی وہ آپ سے بات کرنے کی کنڈیشن میں نہیں ہیں ۔ وقار جانتا تھا کہ یہ منیبہ کا ردِ عمل ہے اس نے لازمی دوائی چھوڑ دی ہو گی ۔وقار نے ادھر فون بند کیا اور اپنی امی کو کال کی کہ جا کر منیبہ سے بولیں وہ دوائی لے ۔امی نے آکر منیبہ کی منت کی کہ وہ بہت پریشان ہے اٹھو اور دوائی لے لو ۔منیبہ نے ساس کو ٹالنے کے لیے کہ دیا میں نے دوائی لے لی ہے ۔تھوڑی دیر گزری تو وقار کی بڑی بہن آ گئی اور بولی مجھے وقار نے فون کیا ہے کہ ابھی منیبہ کے پاس جاؤ اور اس سے پوچھو دوائی ہے کہ نہیں اگر نہیں ہے تو مجھے بتائے میں لے کر آؤں۔
سعدیہ باجی دوائی ہے میرے پاس۔
اچھا دکھاؤ کہاں ہے منیبہ نے کافی ٹالنے کی کوشش کی مگر سعدیہ آپی نے لپک کر دوائیاں اٹھا کر دیکھیں تو وہ تقریباً خالی تھیں۔ سعدیہ بولی ۔دیکھو منیبہ تمہاری حالت ایسی نہیں ہے کہ تم ضد بازی کرو ۔کسی کا کیا جانا ہے نقصان تو تمہارا ہی ہو گا سعدیہ نے جو بھی کہا منیبہ کو تیکھا ہی لگا دل میں سوچنے لگی بہن تو اسی کی ہے نا ۔بات تو ساری معلوم ہو گی پھر بھی بجائے اِس کے کہ اُس کو سمجھائے کہ یہ بلا وجہ کے شکوک و شبہات چھوڑ دو ۔ اب اس کی حالت ہے کہ وہ تمہاری ایسی اوٹ پٹانگ باتیں برداشت کرے ۔اونہہ۔
سعدیہ کے جانے کے بعد منیبہ کی بڑی بہن صنوبر کا فون آ گیا ۔ منیبہ نے کال اٹینڈ کرتے ہوئے دھیرے سے بولی
اسلامُ علیکم ۔
صنوبر باجی نے جواب دیا وعلیکم سلام ۔کیسی ہو ؟
ٹھیک ہوں منیبہ ہر بات کی پردہ داری کرتے ہوئے بولی
تھوڑی دیر دونوں طرف خاموشی رہی شاید صنوبر باجی سمجھ نہ پا رہی تھیں کہ بات کہاں سے اور کیسے شروع کریں ۔لیکن منیبہ سمجھ رہی تھی کہ وقار نے ہی امی اور سعدیہ باجی کے بعد اب صنوبر باجی کو کال کی ہو گی کہ اس کو سمجھائیں کہ دوائی لے لے۔
صنوبر بولی ۔منیبہ ۔وقار کی کال کیوں نہیں اٹھا رہی اور اس سے بات کیوں نہیں کرتی ۔
آپ کو کس نے بتایا اور جس نے بھی بتایا کیا اس نے وجہ نہیں بتائی؟ منیبہ نے جواب دینے کی بجائے الٹا سوال ہی کر ڈالا ۔
صنوبر بولی بتایا ہے ۔اسے اپنی غلطی کا احساس ہے اب معاف کر دو وہ بہت پریشان ہے تمہاری طبیعت کے حوالے سے اور بچوں کے حوالے سے بھی ۔دیکھو منیبہ خود کو اور اپنے بچوں کو سزا مت دو ۔
اسے یہ سمجھنا ہو گا کہ اگر وہ مجھے خوش نہیں رکھ سکتا تو دکھ بھی مت دے ۔میری جو زندگی ہے میں کھل کے جینا چاہتی ہوں اور وہ کیا کر رہا ہے رسمِ رسائی مِیں مَیں اسکے تمام بہن بھائیوں کے ساتھ گئی تو اسے گھٹیا طریقے سے بات کرنے کی کیا ضرورت تھی میں اگر اکیلی جاتی تو بھی غصہ کرتا .
صنوبر بولی ۔بیوقوف ہے دفع کرو ۔ عقل ہوتی تو ایسا کیوں کرتا۔
تو اب اسے کیا تکلیف ہے میں جیوں یا مروں۔
دیکھو منیبہ ۔تم اگر یہ کہو نا کہ تم اس کو بدل سکتی ہو وہ جو ہے وہی رہے گا خوا مخواہ خود کو تکلیف مت دو ۔
سکھ میں تو وہ بھی نہیں ہے تبھی تو ہر کسی کو کالز کر رہا ہے اسے بدلنا پڑے گا ورنہ میری موت کے بعد تو ضرور ہی بدل جائے گا ۔اچھا موجاں کرو دونوں۔جیسا وہ ویسی تم ۔کرو خود کشی ۔
جاری ہے
دکھوں کا حاصل
قسط نمبر 3
از روبینہ رضا

وقار کی بے چینی کا اندازہ مبینہ اچھی طرح لگا چکی تھی ۔صنوبر باجی وقار کا آخری حربہ تھا جو وہ آزما چکا تھا ۔جب اس کی بے چینی حد سے بڑھی تو اس نے اپنے صاحب سے بات کی۔سر میری بیوی سخت بیمار ہے اور بچے بہت چھوٹے ہیں اس کا خیال رکھنے والا کوئی نہیں ہے اور سب بہت پریشان ہیں اُس کی دوائی ادھر سے ہی لے کر جاتا ہوں
جمشید صاحب بولے تو آپ کو چھٹی چاہیے تم تو جانتے ہو یہاں بھی تمہارے بغیر کام نہیں چلتا۔
لہذا دو دن کافی ہیں؟
"جی سر مہربانی آپ کی -------"
وقار وہاں سے فوراً نکل آیا کیونکہ اسے گھر آنے سے پہلے ڈاکٹر سے منیبہ کی دوائی بھی لینی تھی
-------**--------***--------***
دروازے پر دستک ہوئی ہانیہ نے دروازہ کھولا ۔وقار نے اسے پیار کیا اور پھر منیبہ کے کمرے کی طرف چل پڑا ۔وہاں تانیہ اور علی بھی موجود تھے ان کو پیار کیا اور بیگ سے برفی اور چاکلیٹ نکال کر بچوں کو دئیے ۔پھر منیبہ کی طرف بڑھا وہ آنکھیں موندیں وقار کے آنے سے بے خبری کا اظہار کرتے ہوئے بدستور لیٹی رہی ۔وقار نےاپنے دائیں ہاتھ کی پشت منیبہ کے ماتھے پر رکھ دی ۔منیبہ نے آنکھیں کھول کر دیکھا تو وقار نے منیبہ کے گال کھینچے۔
منیبہ دل میں تو بہت خوش ہوئی اور شرمائی مگر اپنی شرماہٹ اور خوشی کو اپنے چہرے سے عیاں نہ ہونے دیا۔وقار ہوٹل سے کھانا لے کر آیا تھا ۔نکالا اور بچوں کو بھی اپنے ساتھ کھانا کھلایا ۔جبکہ منیبہ کو گرم دودھ کے ساتھ ڈبل روٹی کا پیس تھمایا۔ کھانا کھانے کے بعد منیبہ کو دوائی سمجھائی۔
منیبہ کی طبیعت اب گزشتہ دن سے قدر ے بہتر ہو چکی تھی مگر وقار کو آزمانے یا پھر شاید سزا کے طور پر بولی کہ آپ علیحدہ بیڈ پر سو جائیں میں تو اب علی کو بھی پاس نہیں سلاتی ۔لہذا مجھے ڈسٹرب کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے
وقار بولا تم پریشان مت ہو میں علیحدہ سو جاتا ہوں ۔وہ دوسرے بیڈ پر خاموشی سے لیٹ گیا یوں لگتا تھا کہ اسے تو منیبہ کا خوشی اور سکھ عزیز ہے ۔
منیبہ نے کہ تو دیا مگر اسے بھی کب نیند آنے والی تھی وقار کے بغیر ۔جب وہ نہیں ہوتا تھا تب تو اور بات تھی مگر جب اتنا پاس ہو کر بھی دور ہو تو ایسے میں نیند کا بھاگ جانا ایک فطری عمل تھا ۔وہ سوچ رہی تھی ابھی وقار آ جائے گا مجھے بلائے گا مگر جب وہ ایک گھنٹے تک ہلا جلا نہ ۔منیبہ کو خیال آیا یہ نہ ہو کہ وقار تو آرام سے سو جائے اور مجھے رات بھر اکیلے جاگنا پڑے ۔منیبہ بیڈ پر بیٹھ گئی بچے سو چکے تھے ۔اور سائیڈ ٹیبل پر رکھے جگ سے اپنے لیے گلاس میں پانی ڈال کر پینے لگی ۔اسی دوران اس نے کن اکھیوں سے وقار کو دیکھا تو وہ ابھی بھی بٹر بٹر آنکھیں کھولے دیھ رہا تھا۔ منیبہ کو تسلی ہو گئی کہ نیند تو وقار کو بھی نہیں آرہی ۔خود ہی آئے گا لہذا دوبارہ لحاف میں گھس گئی ۔وہ اپنی بیماری کے ہاتھوں بہت خوفزدہ تھی ۔ورنہ ابھی شادی کو سال ہی کتنے ہوئے تھے ۔جوانی میں بیماری نے گھیر لیا ورنہ جذبات تو اپنی جگہ جواں ہی تھے وہ مرنا نہیں ۔جینا چاہتی تھی اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ ایک بھر پور زندگی ۔ وہ لحاف کے اندر منہ دے کر یہی سب کچھ سوچ رہی تھی ۔وہ سوچ رہی تھی کہ آخر مجھے نیند کیوں نہیں آرہی ۔میں تو وقار سے سخت غصہ تھی اور ناراض تھی تو اب وہ غصہ کافور کیوں ہو گیا اور میرے دل میں اس کو دیکھتے ہی محبت کے جذبات کیوں گھر کر رہے ہیں ۔
مجھے تو بیڈ پر لیٹتے ہی نیند آجاتی تھی مگر آج ڈیڑھ گھنٹہ ہونے کو ہے ۔
منیبہ نےآہستہ سا لحاف اٹھا کر گھڑی کی طرف دیکھا تو گیارہ بج رہے تھے ۔ پھر آہستہ سا اٹھ کر وقار کی طرف دیکھا تو وہ دوسری طرف کروٹ لے کر سو رہا تھا ۔منیبہ سمجھی کہ شاید وقار سو چکا ہے اسی لیے مدھم سی آواز میں پکارا۔----------- وقار-----
تو فوراً جواب آیا ۔ہوں
سو گئے ہو کیا--------؟
نہیں تو۔وقار نے اٹھتے ہوئے کہا
منیبہ شرماتے ہوئے بولی ۔مجھے نیند نہیں آرہی حالانکہ میں تو بستر میں لیٹتے ہی سو جاتی تھی
وقار سب کچھ سمجھتے ہوئے بھی بولا تو پھر -------کیونکہ وہ منیبہ کے منہ سے سننا چاہتا تھا
وہ آپ میرے پاس بیڈ پر آ جاؤ ۔باتیں کرتے ہیں نیند تو ویسے بھی نہیں آرہی ۔مجھے آپ کے بغیر نیند نہیں آئے گی ۔جب میں سو جاؤں تو پھر آپ اپنے بیڈ پر چلے جانا۔
وقار فوراً جمپ لگا کر منیبہ کے پاس پہنچ گیا انھے کو کیا چاہیں دو آنکھیں ۔
تھوڑی دیر تک بات چیت کی کہ منیبہ کو نیند آنے لگی ۔اس ے سونے کے بعد وقار کو تو ابھی بھی نیند نہیں آرہی تھی ۔وقار کی نظر سائیڈ ٹیبل پر رکھی ایک فائیل پر پڑی۔وقار اٹھ کر بیٹھ گیا ۔اور فائیل اٹھا کر اسے کھول کر دیکھا تو پہلے صحفے پر لکھا تھا ۔
"ڈھول کی دھمک ۔شہنائیوں کی گونج ۔بارود کی بو۔مسلسل فائرنگ ۔کہیں لڑکیوں کے کھلکھلاتے ہوئے قہقہے ۔تو کہیں بارود کی دیواریں ہلا دینے والی آواز پر شیر خوار بچوں کی چیخ و پکار ۔رنگ برنگی روشنیاں ۔میوزک کی گونج ۔ڈانس مقابلے ۔کیا کچھ نہ تھا ۔ہر طرف مستی ہی مستی چھائی ہوئی تھی ۔ کہ منیبہ کی نظر دولہے کی ماں پر پڑی۔ کس شانِ بے نیازی سے چلتی تھی ۔آخر دولہے کی ماں تھی ۔منیبہ نے اپنے بچے کو حسرت سے دیکھتے ہوئے اللہ تعالی سے دعا مانگی ۔
یا اللہ ۔یہ خوشیوں بھرا وقت میرے نصیب میں بھی لکھ دے ۔مگر اگلے ہی لمحے وہ یہ سوچنے پر مجبور ہو گئی ۔اور خود سے مخاطب ہوئی ۔ارے منیبہ ۔کیوں خوابوں کے محل بناتی ہے -----؟ نہ کر ایسا -----ورنہ جاتے وقت بہت تکلیف ہو گی------مت بھول کہ تو ایک مہلک بیماری کی زد میں ہے -----اور دوائیوں کے بل بوتے پر زندگی گزار رہی ہو ۔"
منیبہ کی عادت تھی کہ وہ اکثر اپنے دل کی باتوں کو کہانی کی صورت میں کاغذ پر بکھیر دیتی تھی اور پھر چھپا دیتی تھی ۔یہ بات وقار کو معلوم تھی کیونکہ منیبہ اکثر تحریریں وقار کو پڑھواتی بھی تھی مگر اکثر چھپا بھی دیتی تھی آج چونکہ وقار بتائے بغیر اچانک آ گیا تو فائیل ٹیبل پر ہی رہ گئی اور اسے وہاں سے ہٹانا بھول گئی۔
وقار کے ہاتھ کانپنے لگے۔آنکھوں سے دو موٹے موٹے آنسو لڑھکے جن کو اس نے اپنے ہاتھوں کے پوروں سے صاف کر دیا ۔ اس عہد کے ساتھ کہ میں آئندہ منیبہ کو کبھی تنگ نہیں کروں گا۔پھر فون پر منیبہ سے کہی گئی تمام باتیں وقار کو یاد آنیں لگیں ۔کہ اس نے منیبہ کے بار ے میں کس قدر غلط سوچا ۔
میں تو بس یہ سوچ رہا تھا کہ منیبہ تیارہو کر گئی ہو گی وہاں کافی مرد ہوں گے ۔زمانہ اس قدر خراب ہے مگر منیبہ کے جذبات کے بارے میں تو سوچا ہی نہیں کہ اسے تو اپنی جان کے لالے پڑے ہیں .یہ تو ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ مرد صرف اپنے زاویوں سے عورت کو دیکھتا ہے کہ اسےمیرے سوا کوئی اور نہ دیکھے ۔مگر اس کے دکھ اور کرب کو نہیں دیکھ پاتا۔لعنت ہے مجھ پر جو اپنی بیوی پر شک کیا ۔
جاری ہے

دکھوں کا حاصل
قسط نمبر 4
از روبینہ رضا
وقار نے فائیل بند کی اور سونے کی کوشش کرنے لگا۔وقار منیبہ کے چہرے کو غور سے دیکھنے لگا ۔پھر بڑے پیار سے اس کے چہرے پر بکھری زلفوں کو پیچھے ہٹانے لگا تا کہ چہرے کو پوری طرح دیکھ سکے مبینہ کا چہرہ جمیل کے بہت قریب تھا اتنا قریب کہ اس کے سانسوں کی حدت سے منیبہ کی آنکھ کھل گئی اور وہ نیم وا اکھیوں سے وقار کو تکنے لگی ۔دونوں ایک دوسرے کی سانسوں کی تپش
اور دھڑکنوں کو واضح سن سکتے تھا ۔وقار بہت پیار سے منیبہ کے چہرے کو سہلاتے ہوئے بولا ۔منیبہ ۔ایک بات پوچھوں اتنی بڑی بیماری کے باوجود تم چہرے سے بلکل بیمار نہیں لگتی ہو اور بہت خوبصورت ہو ۔کہ میں تمہارے حسن میں یوں دیوانہ ہو جاتا ہوں کہ نجانے کیوں میں ایسا سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہوں کہ تمہیں میرے علاوہ کوئی نہ دیکھے۔مجھے معاف کر دو ۔ جو میں نے تم سے شادی والے گھر جانے پر غصہ کیا
منیبہ جمیل کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے بولی ۔وقار ۔میں اس بات سے بہت خوفزدہ رہتی ہوں کہ میری بیماری کا عکس میرے چہرے پر کبھی نہ جھلملائے ۔اسی لیے میں استغفار کے ساتھ ساتھ یا نورُ کا ورد کرتی رہتی ہوں ۔اور میں یہ چاہتی ہوں کہ میری جو زندگی رہ گئی ہے اسے میں آرام اور سکون سے جیوں۔کچھ اپنی مرضی سے زندگی کو جیوں ۔مرنے سے پہلے کچھ کرنا چاہتی ہوں اور اس کے لیے آپ کی رضامندی اور آزادی کی ضرورت ہے ۔
وقار نے ایسا کرنے کا وعدہ کیا ۔ بلکہ بولا میں تمہیں ایک نمبر دیتا ہوں تم ایک دفعہ ان سے بات کر لو میں جانتا ہوں تمہیں لکھنے کا شوق ہے ۔یہ نمبر ایک ایسی خاتون کا ہے جو ایک مشہور ماہنامے کی مینجنگ ایڈیٹر ہیں ۔منیبہ مسکرا کر وقار کے گلے لگ گئی۔
اگلی صبح دونوں پیار کے چشمے سے سر شار ہو کر بہت ہی اجلے اجلے ناشتے کے ٹیبل پر بیٹھے نہ صرف ناشتہ کر رہے تھے ۔بلکہ آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے کو یہ تاثر دے رہے تھے کہ جیسے یہ زندگی کی نئی صبح ہو اور آج کے بعد کوئی دکھ ان کی زندگیوں کو نہیں چھو سکے گا منیبہ کا لہجہ جو بیماری کی وجہ سے چڑ چڑا اور کرخت ہو چکا تھا اب اس کے لہجے میں اظہارِ تشکر کے طور پر بہت ہی نرمی اور اپنائیت کا جذبہ موجزن تھا ۔
--------****--------****--------****
سات آٹھ دنوں کے دکھ ۔تکلیف اور کرب سے سے نکل کر منیبہ کے لیے آج کا دن کتنا خوشگوار تھا ۔منیبہ دل ہی دل میں بہت مسرور تھی اور خود پر فخر محسوس کر رہی تھی کہ کوئی ہے جو اس سے بے حد و بے حساب پیار کرتا ہے اس کا خیال رکھتا ہے ۔ وہ دن بھر ہواؤں میں اڑتی رہی ۔عورت ایسی ہی ہوتی ہے وہ اپنے زخم بہت جلد بھول جاتی ہے بس مرد پیار کے دو بول ۔بول کر رستے ہوئے زخموں پرذرا سی مرہم رکھ دے تو فوراً زخم بھرنے لگتے ہیں ۔اللہ تعالی نے عورت کے اندر بہت برداشت رکھی ہے ۔منیبہ بھول گئی کہ وہ زخم وہ تکلیف وہ کرب ان کا سبب بھی تو وقار ہی تھا ۔مگر وہ عورت جو اپنے شوہر کے ساتھ مرتے دم یعنی آخری سانس تک رہنا چاہتی ہو اس کا کردار یوں ہی ہوتا ہے ۔
اور وہ مرد بھی جو اپنے گھر کو توڑنا نہ چاہتے ہوں ان سے بھی اگر غلطی ہو جائے اور بیوی ناراض ہو جائے ۔اور غصے میں آ جائے تو اس کو انا کا مسلہ بنانے کی بجائے اس کو دئیے گئے زخموں پر اپنے پیار کا مرہم رکھتا ہے ۔ہاں البتہ یہ الگ بات ہے کہ چند دنوں بعدغیر ارادی طور پر انہوں نے کرنا پھر بھی وہی ہوتا ہے۔ جس کی معافی مانگ چکے ہوتے ہیں۔
----------*****-------*****--------
شام کو وقار ٹی وی دیکھ رہا تھا کہ منیبہ بھی سبزی اٹھا کر وہیں آ کر بیٹھ گئی اور ٹی وی دیکھنےکے ساتھ ساتھ سبزی بنا رہی تھی کہ ٹی وی پر گانا لگ گیا
اتنی خوشی ملی ہے آج
لگتا ہے کہ میں ہوا میں ہوں
وقار گانے کے ساتھ منیبہ کو دیکھ کر خوشی سے یوں جھوم رہا تھا کہ منیبہ شرما سی گئی مگر پھر شرارت سےا نجانے میں بولی ۔ارے یہ آپ کس کے لیے جھوم رہے ہو ۔جہاں تک میرا خیال ہے کم از کم میرے لیے تو نہیں ۔ لیکن جب منیبہ نے وقار کو دیکھا تو اس کے چہرے کے تاثرات کو دیکھتے ہوئے اس کی آنکھوں سے ہوتی ہوئی اس کے دل میں پہنچ گئی ۔جہاں انجانی ہوائیاں چل رہی تھی ۔تبھی منیبہ چہرے پر دوستانہ مسکراہٹ سجائے وقار کو اپنی نگاہوں کے مظبوط حصار میں جکڑ کر اپنے جواب کا انتظار کرنے لگی ۔
وقار منیبہ کی کیفیت اور موجودہ صورتحال سے غافل اپنے ہی خیالوں میں گم ٹھنڈی آہ بھر کر بولا۔
---------آآ--------ہا--------بس کچھ نہ پوچھو
کل راولپنڈی سے آتے ہوئےجب میں تمہاری دوائی لے کر پلٹا --------تو ------آہ -----ایک بہت ہی خوبصورت چہرے پر نظر پڑی ۔سبحان اللہ۔
منیبہ کے اندر یکدم ٹوٹ پھوٹ ہوئی مگر اس نےمعاملے کی تہہ تک پہنچنے کے لیے خود کو بکھرنے سے بچا لیا اور خود کو مضبوط کرتے ہوئے ماحول کو مزید دوستانہ بناتے ہوئے جمیل کے پیچھے کھڑے ہو کر اس کے گلے میں اپنی باہیں ڈالتے ہوئے بڑے پیار سےبولی اچھا ------پھر------پوری تفصیل بتاؤ نا میری جان۔---------؟
دکھوں کا حاصل
قسط نمبر 5
ازروبینہ رضا
اچھا۔------پوری تفصیل بتاؤ نا ۔----کیا ہوا تھا-----اور خود اس لیے وقار کے پیچھے کھڑی تھی تاکہ وقار صرف اس کی مصنوعی ہنسی کی آواز سن سکے ۔اور اسکی آنکھوں میں تیرتی ہوئی نمی اور چہرے کے تاثرات کو نہ دیکھ سکے۔
منیبہ پہلے ایسی باتوں کی پرواہ نہیں کرتی تھی بلکہ اگر کوئی اس کو وقار کے خلاف بڑھاتا یا چڑھاتا تو اسے کہتی کہ وہ میرا ہے باہر جو مرضی کرے مگر جب لوٹے گا تو میرے ہی پاس آئے گا۔مگر اب وہ بیماری کی وجہ سے دن بدن حساس ہوتی جا رہی تھی ۔اور اب ایسی باتوں سے اس کا دل جلنے لگا تھا ۔
اسی لیے وقار بھی اکثر کھل کر بات کر لیتا تھا آج بھی وقار منیبہ کے ہاتھ میں اپنے ہاتھ پکڑا کر اپنی عشقیہ داستان سنانے لگا۔
کل جب میں تمہاری دوائی لے کر کرسچن کالونی سے نکل رہا تھا تو سڑک کی دوسری طرف میرے ساتھ ساتھ دو خوبصورت لڑکیاں بھی چل رہی تھیں شاید کالج گرلز تھیں اچانک میری نظر ان پر پڑی تو ان میںآسے ایک میری طرف ہی دیکھ رہی تھی اس کے بال کھلے ہوئے تھے اور گورے گورے مکھڑے پہ کالا کالا چشمہ ۔-----ہائے خوب تھاکرشمہ--------
مگر مجھے دیکھتے ہی اس نے نزاکت سے چشمہ آنکھوں سے ہٹا کر بالوں پر رکھ لیا ۔
شرمین بولی ۔اچھا پھر -----؟
پھر میں اڈے کی طرف لے جانے والی ویگن کے پاس پہنچا تو وہی عینک والی لڑکی بھی اسی گاڑی میں سوار ہو گئی ۔ویگن فل بھر چکی تھی میں نے ڈرائیور کو اشارہ کیا کہ مجھے جلد اڈے پہ پہنچنا ہے ورنہ گاڑی نہیں ملے گی تو ڈرائیور نے میری پریشانی کو سمجھتے ہوئے گاڑی روک لی اور مجھے مشورہ دیا ۔ کہ تھوڑا سا ہی فاصلہ ہے تو آپ پھر لیڈیز سیٹ کے سامنے والی چھوٹی سیٹ جو بچوں کو بٹھانے یا سامان رکھنے کے لیے بنی ہوتی ہے اس پر بیٹھ جائیے ۔
منیبہ چونک کر بولی ۔اور تم بیٹھ گئے ۔اس کے سامنے ۔اس کی اور تمہاری ٹانگیں تو ---------
میرا مطلب ہے سیٹوں کے درمیان جگہ اتنی تنگ ہوتی ہے تو بڑے لوگ کس طرح----------ایک دوسرے کے سامنے کیسے ------؟
وقار تھوڑا سا دبکا مگر پھر سنبھل کر بولنے لگا ۔
نہیں نہیں ۔آمنے سامنے نہیں لیڈیز سیٹ پر تین خواتین اور ایک مرد جو ان کے سا تھ تھا وہی میرے سامنے بیٹھا تھا ۔
منیبہ جان گئی کہ وقار نے پانسہ پلٹا ہے پہلے تو کہانی میں کوئی مرد نہ تھا اچانک کہاں سے آ گیا
( اتنی ٹھنڈی آہیں ایسے ہی تو نہیں بھر رہے تھے)منیبہ دل ہی دل میں بڑ بڑائی ۔
پھر کیا ہوا-------- ؟
وقار بولا ۔پھر کنڈیکٹر نے پوچھا کہ بی بی جی آپ کہاں اتریں گی ۔تو وہ میری طرف بغور دیکھتے ہوئے باآواز بلند بولی ۔جیسے مجھے کچھ سمجھانا چاہتی ہو ۔"کھنا پور "
اچھا ۔پھر؟
پھر کنڈیکٹر نے مجھ سے پوچھا تو میں نےبولا
" سواں اڈہ۔"
تو معلوم نہیں اسے کیا ہوا اس نے اپنا ہاتھ ماتھے پر مار کر میری طرف دیکھ کر افسوس کا اظہار کرنے لگی ۔
تمہاری اسی سادگی کی وجہ سے تو میں تم پر بھروسہ کرتی ہوں منیبہ نے دل میں سوچا۔اور پھر وقار کو بتانے لگی
اس کا مطلب تھا کہ تم وہاں ہی اترو جہاں کا نام وہ لے رہی تھی ۔تم بھی وہی نام بولو اسی لیے اس نے باآواز بلند بولا ۔
اب کی بار وقار اپنے سر میں ہاتھ مارکر اپنی بے سمجھی پر افسوس کا اظہار کرنے لگا
جبکہ منیبہ کو وقارکا یہ رویہ بہت تکلیف دے رہا تھا مگر اس نے وقار پر کچھ ظاہر نہ ہونے دیا۔
اچھا پھر -----منیبہ نے بظاہر بھر پور دلچسپی لیتے ہوئے پوچھا ۔
پھر کیا وہ اتر گئی اور میں نہیں اترا ۔اور اڈے پر آ گیا۔


دکھوں کا حاصل
قسط نمبر 6
از روبینہ رضا
اچھا ------یاد کرو کہ اس نے اترنے سے پہلے کوئی مخصوص اشارہ کیا ہو -----؟ منیبہ نے مزید کریدا
ہاں-----ہاں ------- بلکل ------وقارکچھ سوچتے ہوئے بڑبڑانے لگا۔
مجھے اپنا موبائل دکھا کر کچھ لکھنے کا اشارہ کرتی تھی ۔ معلوم نہیں کیوں؟ وقار حیران ہوتے ہوئے بولا
منیبہ بولی میں بتاؤں ؟ پھر وقار کے بولنے سے پہلے ہی خود ہی بتا دیا
موبائل نمبر مانگ رہی تھی ۔
وقار نے اپنے سر میں یوں زور سے ہاتھ مارا گویا اسے اس لڑکی کی بات نہ سمجھنے پر بہت افسوس ہو رہا ہو ۔ساری داستان سن کر منیبہ جو کہ اندر سے پک کر لاوا بن چکی تھی اور پھٹنے کے بلکل قریب ہی تھی وقار کے ہاتھوں سے اپنے ہاتھوں کو چھڑاتے ہوئے وقار کے سامنے آ کھڑی ہوئی
وقارجو منیبہ کے جذبات سے ابھی تک بے خبر تھا اور یہ بھی بھول بیٹھا کہ وہ اپنی بیوی سے بات کر رہا ہے اسے یاد تھی تو صرف وہ لڑکی اور ابھی تک اسی کے خیالوں میں گم تھا یکدم روانی میں کہ بیٹھا۔
"کاش -------- کاش کہ آج مجھے اس کا نمبر مجھے مل جاتا تو تمہاری تو آج چھٹی ہی ہو جانی تھی "
اس کو کچھ یاد نہیں تھا کہ منیبہ بیماری کی وجہ سے چڑ چڑی ہو چکی ہے اور ایسی بات تو کوئی صیح سلامت لڑکی بھی برداشت نہیں کر سکتی ۔اور یہ بھی بھول گیا۔کہ ابھی آج ہی تومنیبہ پچھلی غلطی کی وجہ سے پورے دس دن کے بعد اٹھی تھی
منیبہ سوچ رہی تھی کہ کیسے وہ اپنے دو پل کے چکر میں اپنی بیوی ۔اپنی زند گی کی ساتھی ۔اپنے بچوں کی ماں۔ اس کے خوشگوار اور پر سکون لمحوں کی ساتھی۔ سب سے بڑھ کے ایک انسان اور اس کی بیماری کو بھول بیٹھا ۔یہی ہے ایک مرد کی حقیقت ۔ابھی آج سات آٹھ دن کی پرکھ کے بعد ہی مجھے احساس ہوا تھا کہ وقار مجھ سے بہت پیار کرتا ہے اور کس طرح میری ناراضگی پر تڑپتا رہا اور بے چین رہا۔
مگر اب آخری جملے نے جلتی ہوئی آگ پر تیل کا کام کیا ۔اور اب کوئی بھی بات مزید کہنے سننے کی ہمت نہیں تھی منیبہ میں ۔لہذا فوراً سبزی اٹھا کر کچن کی طرف چلی گئی ۔
وقار کی آواز بار بار منیبہ کے کانوں میں گونج کر قہر برسا رہی تھی ۔ہائے -----کاش ۔کاش ------نمبر مل جاتا-------تمہاری تو آج چھٹی ہی ہو جانی تھی -
منیبہ نے اپنی طاقت کو اکھٹا کیا اور وقار کے پاس جا پہنچی اب اس کے چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ نہ تھی ۔بلکہ کرب اور غصہ تھا۔وہ وقار کے سامنے آ کر کھڑی ہو گئی ۔وقار منیبہ کو دیکھ کر مسکرایا ۔منیبہ کو وقار کی مسکراہٹ بہت ہی نحوست زدہ لگ رہی تھی تبھی وہ کرخت آواز میں بولی ۔عورت کو ایک بے جان کھلونا سمجھتے ہو اس کےکوئی جذبات نہیں ہیں جب چاہو گے کھیلا لو گے ۔ہنسا لو گے ۔رولا لو گے پھر ہنسا لو گے ------ہوں -----بولو -----وہ جس کا نمبر نہ ملنے پر تم افسوس کر رہے ہو کیا سمجھتے ہو اسے ۔----ہاں ---------؟
وہ کوئی شریف زادی یا کالج گرل نہیں تھی بلکہ شکاری کتیا تھی جو سڑکوں پر اپنا شکار تاڑ رہی تھی ۔وہ صرف کالج گرل کا روپ دھارے ہوئے تھی تاکہ تم جیسے دل پھینک مردوں کو شکار کر سکے ۔اور سنو مسٹر ۔تم کوئی شہزادہ سلیم تو ہو نہیں جو وہ تم پر دیکھتے ہی فریفتہ ہو گئی مزید برآں اس نے آپ کی عقلِ سلیم کا نظارہ بھی پا ہی لیا ہو گا ۔جو اس کی بے پناہ محنت کے باوجود آپ اس کا ایک اشارہ تک تو سمجھ نہ پائے ۔ اونہہ۔
مگر اب میں کہتی ہوں کہ کاش-----کاش----- تم اس عورت کے ساتھ ایک بار چلے جاتے ۔پھر وہ تمہیں نانی ضرور یاد کرواتی۔تم اپنی مرضی سے اپنی ٹانگوں پر چل کر جاتے تو ضرور مگر وہ تمہیں جہاں لے کر جاتی وہاں اس کے ساتھی پہلے سے ہی موجود ہوتے جو پہلے تمہاری جیبیں صاف کرتے ۔تم بھول گئے ہو کہ مہینے کی شروعات ہے اور ایسے میں تمام ملازمت پیشہ لوگ ابتدائی تاریخوں میں تنخواہیں لے کر گھروں کو لوٹ رہے ہوتے ہیں۔ اور بعد میں تمہارے احتجاج پر تمہاری وہ حالت کرتے کہ تم گھر تو دور اڈے تک بھی نہ پہنچ پاتے ۔

No comments:

http://novelskhazana.blogspot.com/