Sunday, December 2, 2018

سا نو ل موڑ مہار قسط 10

http://novelskhazana.blogspot.com/



"بڑی سیٹھانی کچھ کھانے کو لاوں" سکینہ نے اپنے کمرے کی طرف بڑھتی مدحت بیگم سے پوچھا.
"تمہیں ان حالات میں کھانے پینے کی سوجھ رہی ہے. میرا یہاں سانس خشک ہوا پڑا ہے" مدحت بیگم غصے سے سکینہ کی طرف مڑیں.
"بڑی سیٹھانی آپ مجھ پر کیوں غصہ کر رہی ہیں" سکینہ نے روہانسے لہجے میں کہا. "میں نے کیا کیا ہے"
"سکینہ میں بتاوں تمہیں کہ تم نے کیا کیا ہے. لگتا ہے تمہاری یاداشت آجکل کمزور ہونے لگی ہے" مدحت بیگم کا بس نہیں چل رہا تھا. ایک طرف انکا بی پی لو ہوا پڑا تھا دوسری طرف انکے شوہر کا ہائی.
"سیٹھانی جو بھی ہوا اب بھول جائیں. آئیندہ ایسی غلطی نہیں ہوگی" سکینہ منتوں پر آگئی.
"اچھا اچھا ٹھیک ہے. ابھی تو تم جاو. جب کچھ چاہیے ہوگا تو بتا دوں گی" مدحت بیگم نے اسکے آنسو ٹپکنے سے پہلے ہی اسے وہاں سے بھگا دیا.
"شکر ہے خدا کا ابھی زوار سائیں کے بچے اس گھر میں داخل نہیں ہوئے تھے نہیں تو آج وہ بھی خوب بے عزتی کرواتے" سکینہ منہ میں بڑبڑاتے ہوئے سیما کے پاس سے گزری.
"یہ آپ نے اچھا نہیں کیا سکینہ بی. حدید بابا جتنے تحمل مزاج دکھتے ہیں اتنے ہیں نہیں. اب میں آپ کو کیسے سمجھاوں کہ وہ نائل بابا نہیں ہیں" سیما من ہی من سکینہ کو سنا رہی تھی.
"اللہ خیر کرے. جب حدید بابا کو پتہ لگے گا تو کیا ہوگا. میں نے تو انہیں اپنے ہاتھوں میں پالا ہے. رگ رگ سے واقف ہوں" سیما افسوس سے سر جھٹک کر اپنے کاموں میں لگ گئی.
.....................................
"یہ تمہارے بھائی کہاں رہ گئے ہیں" زینب ایک سیزیرین کرکے بھی لوٹ آئی تھی مگر خاور تب کا گیا واپس نہیں آیا تھا.
"بھابھی ابھی آپ کہہ رہی تھیں کہ آپکو بھائی کے آنے جانے پر زرا فکر نہیں ہوتی. اب بڑی فکر ہو رہی ہے" شاہ زین زینب کو تنگ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا تھا.
"بکواس بند ہی رکھو شاہ زین. نہیں تو میں کچھ اٹھا کر تمہیں مار دوں گی" زینب نے ادھر ادھر نظریں دوڑاتے ہوئے کہا.
"اتنی آپ جان سینا کی شاگرد" شاہ زین نے پھر سے لقمہ دیا.
"فاطمہ......" زینب اتنی زور سے چیخی کہ فاطمہ بھی دہل گئی.
"سمجھا لو اپنے شوہر کو. نہیں تو اس نے آج میرے ہاتھوں بچنا نہیں" زینب نے لڑاکا عورتوں کی طرح اپنے ہاتھ ہلاتے ہوئے کہا.
"شاہ زین بس بھی کردیں. دیکھ نہیں رہے بھابھی کے شوہر لاپتہ ہیں. کتنی پریشان ہیں وہ" فاطمہ نے بھی مسکراہٹ دبا کر شاہ زین سے کہا. جواب میں شاہ زین نے اونچا قہقہہ لگایا. ان دونوں مسخروں کو دیکھ کر زینب کو پتنگے لگ گئے.
"مرو تم دونوں یہیں. جا رہی ہوں میں" زینب غصے سے کہتے کمرے سے نکل گئی.
"قسم سے بڑے ہی منہ پھٹ واقع ہوئے ہیں میرے دیور اور دیورانی" ان دونوں کی ہنسی سن کر زینب کمرے سے باہر نکل کر خاور کو فون کرنے لگی.
.......................................
"بھائی ہم اتنی دیر سے یہاں موجود ہیں. کچھ کھا لیں" سائر نے بینچ پر بیٹھے نائل سے پوچھا.
"بہت شکریہ. کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے ابھی مجھے" نائل کا دل کر رہا تھا کہ اسی بینچ پر پیر پھیلا کر لمبی تان کر سو جائے.
"بھائی جب آپ سچ میں اتنی پیاری دل موہ لینے والی صورت بنا لیتے ہیں تو آپ پر بڑا پیار آتا ہے" حدید نے نائل کے گرد بازو پھیلا کر کہا.
"زیادہ ڈرامے نہیں کرو. انسان بن کر جلدی جلدی کھیل کود ختم کرو. پھر گھر بھی جانا ہے" نائل نے اسکے بازو ہٹا کر مڑتے ہوئے کہا.
"بھائی آپ کو لگتا ہے کہ ہم آپکو مسکے لگا رہے ہیں" فرہاد بھی بینچ پر بیٹھتے ہوئے بولا.
"مجھے لگتا نہیں مجھے یقین ہے کہ یہ جو تم دونوں گھنٹوں بھر وہاں کھڑے مذاکرات کرتے رہے ہو اور اب یہاں آکر مسکرا رہے ہو یقیناََ کوئی تو غم ہے تم دونوں کو" نائل نے حدید اور فرہاد کو دیکھتے ہوئے کہا.
"نہیں تو بھائی ایسی تو کوئی بات نہیں ہے" حدید نے نظریں چراتے ہوئے کہا.
"میں نے کب کہا کہ جو ویسی بات ہے وہ مجھے بتاو. لیکن یہ مت سمجھنا کہ تم دونوں کی حرکتیں میری نظروں سے مخفی ہیں" نائل نے اپنی ٹانگوں سے چمڑے رائد کو اٹھاتے ہوئے نرمی سے کہا
"بھائی آپ ایسا کیوں کہہ رہے ہیں" حدید اور فرہاد تڑپ کر اسکے گلے لگ گئے. بینچ پر بیٹھا سائر جوس اور چپس سے انصاف کرتا انہیں ایک نظر دیکھ کر واپس اپنے کام میں مشغول ہو گیا.
"بس کردو. سانس گھٹنے لگ گیا ہے میرا" نائل نے دو تین منٹ ان دونوں کے پیچھے ہٹنے کا انتظار کیا. آخر تھک ہار کر خود ہی بول پڑا.
"بھائی میرا گھر میں اکیلے دم گھٹتا ہے. ماموں، مما اور پاپا کو اپنے کاموں سے فرصت نہیں. درجنوں گھر میں ملازمین ہیں اور انکے درمیان میں اکیلا" فرہاد نے اپنا دکھ بتایا.
"تو میرے بھائی تمہیں کس نے کہا کہ تم تنہا ہو. تنہا ہونا یہ نہیں ہوتا کہ آپ کے پاس کوئی نہیں اصل میں تنہا ہونا یہ ہوتا ہے کہ سب آپ کے پاس ہوں لیکن آپ کا کوئی نہ ہو" نائل نے بڑے بھائیوں کی طرح اسے سمجھایا.
"بھائی اسی طرح سے زندگی گزرتی رہی تو میں نے تو مر جانا ہے" فرہاد ڈپریشن کی انتہا پر تھا.
"تو میری جان زندگی کو اسی وقت ہی تو جیا جاتا ہے جب وہ آپکو مار رہی ہو" نائل نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے بینچ پر بٹھایا.
"تمہیں زندگی میں اتنا کچھ ملا ہے مگر تم نے اسی کا حساب کیوں رکھا جو تمہیں نہیں ملا" نائل نے سائر سے جوس کا ڈبہ کھینچتے ہوئے فرہاد سے پوچھا.
"آئی ایم سوری بھائی" فرہاد نے سر جھکائے کہا.
"اٹس اوکے. اب تم یہاں بیٹھ کر حساب کتاب مت شروع کردینا اور ابھی ہمارے ساتھ ہمارے گھر ہی چلو. ناز آنٹی سے میں بات کر لوں گا. ویسے بھی سفارش کرنے کو تم سب نے مجھے ہی آگے لگایا ہوتا ہے" نائل کی بات سن کر وہ سب ہنسنے لگے.
"ہاہاہا" رائد ان سب کو پہلے تو ہنستا دیکھتا رہا پھر اچانک وہ بھی ہنسنے لگا. سب نے اسکی حرکت پر پھر سے ہنسنا شروع کر دیا.
.............................................
"سر جی آپ کو ایسے نہیں لگتا کہ یہ چھٹانک بھر بچے ہمیں دھوکہ دے کر چلے گئے ہیں" خرم کے ساتھ بیٹھے ڈرائیور نے نظروں سے اوجھل ہوتی گاڑی کو دیکھتے ہوئے پوچھا.
"ککک....کیا مطلب" خرم نے موبائل پر سے نظریں ہٹا کر ڈرائیور کو دیکھا.
"تمہیں ایسا کیوں لگا" خرم نے اسکی نظروں کے تعاقب میں دیکھ کر سوال کیا.
"سر جی وہ گاڑی جس راستے سے آئی تھی اسی راستے واپس مڑ گئی ہے" ڈرائیور بولا
"تو...میں کیا کروں" خرم نے تنک کر پوچھا.
"وہ لوگ تو کہہ رہے تھے کہ ہمیں آگے جانا ہے. مگر وہ گاڑی لیکر پیچھے مڑ گئے ہیں. بہت چالاک آدمی ہے یہ احمد شاہ درانی" ڈرائیور اپنی ہی کمنٹری کیے جا رہا تھا. ایک بار اگر خرم کی شکل دیکھ لیتا تو زبان تالو سے ضرور چپکا لیتا.
"وہ.... آں....وہ آدمی.... جو ابھی ابھی بچوں کو یہاں سے لیکر گیا ہے...... وہ... احمد شاہ درانی تھا" خرم کے ذہن میں جو خاکہ بنا تھا وہ بالکل صحیح تھا.
"جی سر وہ احمد شاہ درانی ہی تھا" ڈرائیور نے بھی اسکے شک کی تصدیق کر دی.
"تو میری شکل کیا دیکھ رہے ہو. پیچھا کرو انکا. زوار کے بچے ہیں کچھ بھی کر سکتے ہیں" خرم نے غصے سے کہا. ڈرائیور نے فوراََ گاڑی کا پیچھا کرنا شروع کیا.
"عمریں دیکھو انکی اور حرکتیں دیکھو. پولیس کو دھوکہ دے کر بھاگ گئے. ہاتھ آو ایک بار پھر پوچھتا ہوں" خرم موبائل کو ہاتھ میں گھماتے سوچ رہا تھا.
....................................
"سنیے اب آپ کی طبیعت کیسی ہے " مدحت گردیزی آخر انکی طویل خاموشی پر بول پڑیں. "آپ اتنا سوچ سوچ کر کیوں اپنی طبیعت بگاڑ رہے ہیں"
"جس پرندے کے پر کاٹ دیے جائیں اس پرندے کا کیا حال ہو سکتا ہے" جلال گردیزی نے آنکھیں بند کیے ہی جواب دیا.
"آپ ان سب باتوں کو مت یاد کریں. جو ہو گیا اسے تو ہم بدل نہیں سکتے"
"میرے لیے زیادہ دکھ کی بات یہ ہے کہ اب ہمارا ایک دوسرے کے دکھ سے بھی کوئی واسطہ نہیں رہا. نہ اب زوار سے ہمارا کوئی واسطہ رہا نہ اسکا ہم سے" جلال گردیزی نے مدحت گردیزی کو دیکھتے ہوئے کہا.
"مگر ہم اسے کبھی بھی تنہا نہیں چھوڑیں گے. اسکا اپنا طریقہ ہے نفرت نبھانے کا ہم اپنے طریقے پر عمل کریں گے" جلال گردیزی کا لہجہ مدحت گردیزی کو ٹھٹکا.
"آپ کے کہنے کا کیا مطلب ہے. ابھی ہال میں تو آپ اس سے سارے رشتے توڑ آئے تھے"
"رشتے اگر ضرورت کے ہوتے تو شاید توڑے بھی جاتے مگر ہمارا رشتہ تو جذبات کا تھا. اتنی آسانی سے نہیں توڑا جا سکتا. کاش لوگ سمجھ پائیں کہ رشتے بنانا اصل بات نہیں، انہیں نبھانا بھی پڑتا ہے"جلال گردیزی مدحت بیگم سے کہہ کر خاموش ہو گئے.
"تو جلال صاحب آپ کا زوار سے رشتہ اپنی برداشت کی وجہ سے ابھی تک قائم ہے. جب تک آپ کے اندر برداشت کی سکت موجود ہے تب تک رشتے بھی قائم ہیں" مدحت بیگم دل ہی دل میں ان سے کہہ رہی تھیں.
"لگتا ہے اس عمر میں خالی گھر انکو کاٹنے کو دوڑ رہا ہے. ابھی فون کرکے ان سب کو گھر بلاتی ہوں" مدحت گردیزی اپنا موبائل لے کر کمرے سے باہر آگئیں.
.........................................
"مارتھا..... مارتھا" قانیتہ مارتھا کا بازو پکڑ کر اسے بلا رہی تھی. لیکن مارتھا باربار اپنا بازو جھٹک رہی تھی.
"بچہ پارٹی تم لوگ تو مجھ سے دور ہی رہو. میں بار بار تم لوگوں کی وجہ سے پھنس جاتی ہوں" مارتھا اپنے دائیں بائیں بیٹھےعارب اور قانیتہ سے کہنے لگی.
"زیادہ باتیں مت بناو مارتھا. درانی انکل کو ہمارے گھر کا راستہ کس نے دکھایا تھا. تب تو منہ چھپا کر دبکی بیٹھی تھیں اسی سیٹ پر" عارب نے مارتھا کو یاد دلایا.
"ہاں یہ بھی اچھا ہے. غلطی ہو گئی معاف کردو" مارتھا نے جلے کٹے انداز سے کہا.
"یہ سب اس بچی کی وجہ سے ہے. کہا تھا میں نے کہ یہ منتوں مرادوں سے مانگے ہوئے زندگی سے بہت کچھ لے جاتے ہیں" مارتھا کے دکھڑے سن کر قانیتہ اور عارب کا دل کیا کہ مارتھا کا گلا دبا دیں.
"مارتھا کو چھوڑو تم بتاو کیا کہہ رہی تھیں" عارب مارتھا سے لڑنا ملتوی کرکے قانیتہ سے پوچھنے لگا.
"یہ کیسا راستہ ہے بھائی. مجھے نہیں پتہ تھا کہ ہمارے شہر میں ایسے راستے بھی ہیں" قانیتہ نے باہر دیکھتے ہوئے عارب سے کہا.
"تم بچہ لوگوں کو میں سانس لیتی اچھی نہیں لگ رہی جو مجھے بار بار دل کا دورہ پڑوانا چاہتا ہے" مارتھا نے ڈرتے ہوئے ان دونوں سے کہا.
"مارتھا" ان دونوں نے دانت پیستے ہوئے مارتھا کو خاموش رہنے کا کہا.
"اور یہ سنعان کو تو دیکھو حرام ہے کہ اس نے زرا باہر دیکھا ہو. کب سے بس سجوہ کو ہی دیکھ رہا ہے" قانیتہ نے اگلی سیٹ پر ماہ پارہ کے ساتھ بیٹھے سنعان کو دیکھ کر کہا.
"بھائی پلیز آپ انکل سے پوچھیں" قانیتہ نے عارب کو آگے لگایا.
"اچھا رکو میں ہی پوچھتا ہوں" مارتھا اور قانیتہ کی شکلیں دیکھ کر عارب کو ہی آگے ہونا پڑا.
"انکل.... وہ مجھے....آپ سے کچھ کہنا ہے" عارب نے انجان راستوں پر سے گزرتے ہوئے ڈرتے ڈرتے احمد شاہ درانی سے کہا.
"کہیے بیٹا ہم سن رہے ہیں" احمد درانی چونکہ فرنٹ سیٹ پر بیٹھے تھے اس لیے بنا مڑے کہنے لگے. نظریں انکے پیچھے آتی گاڑی پر ہی تھیں.
"انکل ہمیں آپکے ساتھ کہیں نہیں جانا. ہمارے مما پاپا آگئے اور ہم وہاں انہیں نہ ملے تو وہ پریشان ہوں گے" عارب بولا.
"تو بیٹا آپ کا یہاں کوئی رشتہ دار نہیں تھا جو آپ یوں سڑک پر بھٹک رہے تھے" احمد درانی بولے.
"نہیں....." اس سے پہلے کہ عارب کچھ بولتا. قانیتہ عدن چیخی.
"کیا بہت بے عزتی کروائی ہے آپ دونوں نے وہاں جا کر" سنعان نے پیچھے مڑ کر آہستہ آواز میں ان دونوں سے کہا.
"سنعان تم تھوڑی دیر اپنی زبان بند نہیں رکھ سکتے یا پھر تمہیں ایک رکھ کر دوں" قانیتہ نے سنعان کے کان میں گھس کر اسے اچھے سے سمجھایا.
"کیا نہیں؟ رشتے دار ہیں یا نہیں. ایک بات بتائیں" ماہ پارہ بھی بول پڑیں.
"نہیں کوئی نہیں ہیں" عارب نے دھیمی آواز سے کہا. بچوں کی حرکتیں ماہ پارہ اور احمد شاہ کو بہت کچھ سمجھنے پر مجبور کر رہی تھیں.
"بیٹا ایسا کرتے ہیں کہ ابھی آپ ہمارے ساتھ ہی چلو. میں نے کئی بندوں کو آپ کے گھر کے آس پاس نگرانی کرنے کیلیے بھیج دیا ہے" احمد درانی نے کچھ دیر سوچ کر جواب دیا.
"انکل آپ کچھ چھپا تو نہیں رہے ہم سے" عارب نے انکے چہرے پر چھائی پریشانی دیکھ کر پوچھا
"نہیں. ایسی کوئی بات نہیں ہے. چلو نیچے اترو. جلدی" احمد شاہ نے انہیں گاڑی سے فوراََ نیچے اتارا.
"یہ کیسی جگہ ہے" سنعان نے منہ بنا کر پوچھا.
"اگر پولیس کی گاڑی مسلسل آپ کا پیچھا کر رہی ہو تو اس سے بہتر اور کوئی جگہ نہیں ہے" احمد شاہ نے انہیں گودام میں گھسا کر تسلی سے جواب دیا. جواب میں ان سب بچوں کے رنگ فق ہو گئے.
............................................



"سائیں یہ ..... د د د...درانی ہاوس... آپکا گھر ہے" فیروز نا ختم ہونے والے جھٹکوں کی زد میں تھا.
"سائیں آپ احمد شاہ درانی کے والد ہیں" فیروز ان سے کہتا وہیں گھر کے باہر سڑک کنارے بیٹھ گیا.
"ایک منٹ" فیروز نے اپنی جیب سے وہ کارڈ نکالا جو احمد شاہ درانی سجوہ کو لے جاتے ہوئے اسے تھما کر گئے تھے.
"سائیں پتہ تو یہی ہے. لیکن آپ نے سب کچھ جانتے ہوئے بھی خاموشی اختیار کیے رکھی" فیروز تو رونے والا ہی ہوگیا.
"فیروز میاں تم نے کبھی خاموشی کی چیخ و پکار سننے کی کوشش ہی نہیں کی. خاموشی کی اپنی ایک زبان ہے جسے ہر ذی روح اپنے ڈھنگ سے ہی بولتا ہے. بلکہ خاموشی بولنے کے ساتھ ساتھ چیختی ہے، پکارتی ہے اور کبھی تو لتاڑتی بھی ہے" عبداللہ شاہ درانی بھی فیروز کے برابر ہی بیٹھ گئے.
"پر سائیں آپ یوں درگاہوں میں ایسے کیسے بیٹھ جاتے ہیں. آپ تو اربوں کے مالک ہیں" فیروز نے انکے شاندار گھر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا.
"اربوں کے مالکوں کے اوپر بھی ایک مالک ہے. جس کے پاس ہر قسم کا اختیار ہے. یہ "علم اور بزرگی" مجھے میرے خدا نے عطا کی ہے انسانیت کی اصلاح کیلیے نہ کہ اپنی امارت جھاڑنے کیلیے. ہر کوئی آتا ہے میری ظاہری حالت دیکھ کر طرح طرح کی باتیں بناتا ہے. میں خاموشی سے سن لیتا ہوں. جواب دینے کا حق میں نے وقت کو دے رکھا ہے" پیر سائیں سامنے دیکھتے کہہ رہے تھے.
"سائیں اسی طرح سے چلتا رہا تو سب مشکل میں پڑ جائیں گے. یہ سب اتنا آسان نہیں جتنا لگ رہا ہے" فیروز نے شکوہ کیا.
"زمانے کا تو کام ہی ہے مشکل میں ڈالنا اور میرا خدا اپنا کام کرتا ہے ہمیں مشکلوں سے نکلنے کے ہزار راستے دکھا دیتا ہے. اور انسان کیا کرتا ہے بڑے بڑے خاندان، حسب نسب، محلوں کے لوگوں کو اونچے چبوتروں پر بٹھا دیتا ہے. انسان کا بس چلے تو پوجنے ہی لگ جائے. اسی لیے میں شکر کرتا ہوں کہ میں انسان ہی ہوں. خدا عطا کرے تو شکر اسکا، نہ دے تو ملال کیسا. میرے رب کے فیصلے کمال ہیں جنہیں کبھی زوال نہیں ہے. میں تو ادنی سا رب کا بندہ ہوں. میری اتنی اوقات نہیں کہ رب کے فیصلوں میں چھیڑ خانی کروں" عبداللہ سائیں آہستہ آہستہ بول رہے تھے.
"سائیں آپ نے سب کچھ جانتے بوجھتے کسی کی زندگی کی قیمت لگا دی" فیروز عبداللہ شاہ درانی کی "اصلیت" جان کر دکھ سے بولا.
"فیروز میاں زندگی میں اگر بے عیب ہی چاہیئے تو انسانوں کی بجائے فرشتوں سے دوستی کرلو. میں تو آدم کی نشانی ہوں مجھے انسان ہی رہنے دو" انہوں نے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے تحمل سے جواب دیا.
"بخت روشن اپنے پورے خاندان کا نچوڑ ہے اور میں اس نچوڑ کو نچڑتا ہوا پا رہا تھا" فیروز کی طرف دیکھ کر وہ کہنے لگے. "کل رات ستارے ہوا کے ساتھ اڑتے پھر رہے تھے اور میں بند کمرے میں اداس اور خاموش خدا سے رازونیاز کر رہا تھا" فیروز نے بات سن کر انکی طرف دیکھا.
"خدا کی عطا ہے جسے چاہے جس مرضی سے نواز دے. میری تو بس اتنی سے عرضی تھی کہ یا تو مجھے قبولیت کے طریقے سمجھا دے یا پھر اپنی رضا کے ساتھ میرے دل کو باندھ دے" پیر عبداللہ سائیں کی بات سن کر فیروز کانپ گیا. "اور میرے رب نے میری دوسری دعا قبول کرلی. میرے دل پر مہر ہی لگا دی. اب تو چاہے کچھ بھی ہو جائے، ہونی کو کوئی نہیں ٹال سکتا"
"پر سائیں...."
"فیروز میاں میں پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ وقت بہت بڑا منصف ہے. کچھ باتیں وقت پر چھوڑ دینی چاہیئیں. اتنے سوالات پوچھو گے تو ایک دن تنہا رہ جاو گے. اور یہ تنہائی بڑی بری چیز ہے. اس میں یا تو انسان اللہ سے رجوع کرتا ہے یا پھر شیطان سے. روح کی ویرانی ہے یہ تنہائی" پیر سائیں نے اسکے گھٹنے پر ہاتھ رکھ کر بڑے پیار اور تحمل سے فیروز کو "بس" کر دینے کی تلقین کی.
"لو بھئی لگتا ہے کہ پرندوں کے واپس آجانے کا وقت ہونے والا ہے" پیر سائیں کے کہنے پر فیروز نے آسمان کی طرف دیکھا. سورج غروب ہوئے تو کافی دیر ہو چکی تھی اب کونسے پرندے لوٹنے والے تھے. فیروز کی سچ میں "بس" ہوگئی تھی.
......................................
"ہائے سوئیٹ ہارٹ بھابھی.... بھائی سے بات ہوئی" شاہ زین نے زینب کے سامنے اچانک آکر اس سے پوچھا. جس کی وجہ سے وہ بری طرح ڈر گئی.
"کوئی ایک حرکت تمہاری انسانوں والی ہے یا نہیں" زینب نے اپنی سانسیں درست کرتے اسے ڈانٹا. جس کا اس پر زرا اثرا نہ ہوا.
"لو جی میں نے کیا کیا ہے. ایک معمولی سا سوال ہی تو کیا تھا" شاہ زین نے سارے دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے جواب دیا.
"کیوں پوچھ رہے تھے" زینب کا مزید اس سے لڑنے کا ارادہ نہیں تھا.
"وہ اس لیے کہ بچے گھر پہنچنے والے ہیں. بھائی آجائیں تو ہم بھی نکلیں" شاہ زین نے ریسیپشن کے کاونٹر سے ٹیک لگاتے ہوئے جواب دیا.
"تمہارے بھائی کے پاس ایسی کونسی چابی ہے جس سے تم سب چلتے ہو. بس نکل رہے ہیں ہم" زینب نے سر جھٹک کر کہا.
"بھابھی زرا گل جان کو فون کرکے کہہ دیں کہ فرہاد بھی بچوں کے ساتھ ہی آرہا ہے تو پلیز ڈنر میں اسکی پسند کا بھی کچھ بنا لیں" شاہ زین کے کہنے کی دیر تھی زینب سنتے ہی شروع ہو گئی.
"کیوں وہ کیوں یہاں آرہا ہے. اپنے گھر اسے کیا تکلیف ہے. مجھے نازنین اور اسکے گھر کا کوئی فرد پسند تک نہیں اور وہ اپنے بچے ہمارے گھر بھیج رہی ہے"
"بھابھی پلیز..."
"واٹ پلیز. باز آجاو تم سب. میر ے صبر کا امتحان مت لو" زینب نے کاونٹر پر زور سے ہاتھ مارا.
"مجھے بتایا کیوں نہیں کہ بس بچے فرہاد کے ساتھ کھیل کود میں مصروف رہے" زینب کا بس نہیں چل رہا تھا.
"اسی لیے نہیں بتایا تھا. آپ نے سب بچوں پر کرفیو لگا دینا تھا" شاہ زین نے ڈانٹ سن کر منہ بناتے کہا.
"ان سب کی بھلائی کیلیے ہی میں پابندیاں لگاتی ہوں" زینب اسکی طرف مڑی.
"شاہ زین تم کب سمجھو گے. خدا نے ہمیں بیٹیاں نہیں دیں، بیٹے دیے ہیں. انکی تربیت پر خاص توجہ دینی پڑتی ہے. روک ٹوک لگا کر گھر تو نہیں بٹھا سکتے. معاشرے میں انہوں نے موو کرنا ہے. ابھی سے انکی کمپنی غلط لوگوں کے ساتھ ہے تو بڑے ہوکر وہ کیسے صحیح غلط کا فرق کریں گے" زینب
کے اپنے تحفظات تھے.
"آج کے بعد میرے چاروں بیٹے کسی ایسے ویسے کے ساتھ نظر نہ آئیں" زینب نے انگلی اٹھا کر اسے وارننگ دی.
"چاروں تو ایسے کہہ رہی ہیں جیسے وہ میرے کچھ نہیں لگتے" شاہ زین منہ میں بڑبڑا رہا تھا.
"کیا بکواس کر رہے ہو. اونچی آواز میں بولو" زینب پیپر سائن کرتے یکدم شاہ زین کی طرف مڑی.
"کچھ نہیں کہہ رہا. میری اتنی مجال کہ آپ کے سامنے کچھ بول سکوں" شاہ زین مسکینیت سے بولا.
"تم کچھ نہ ہی بولو تو ہی بہتر ہے" زینب اسکے ہاتھ میں فائل تھما کر غصے سے بولی. اب کی بار شاہ زین نے بولنے سے توبہ کرلی.
.............................................
"زوار یہ تم نے اچھا نہیں کیا" جہانگیر اور فہد کے جانے کے بعد نازنین ان دونوں کو غصے سے کہنے لگی.
"اچھائی کی باتیں تمہارے منہ سے زرا اچھی نہیں لگتیں" زوار نے ٹیبل پر پڑے گلدان کو پکڑتے ہوئے کہا.
"زوار...."
"کیا زوار. تمہارا علاج ہی یہ تھا. کتنی گھنی میسنی نکلی تم. دوستی کے نام پر اچھا ڈسا ہے تم نے ناگن کہیں کی" زوار نے ہاتھ میں پکڑا گلدان زور سے زمین پر مارا.
"سنا ہی کرتے تھے کہ برائی کی طرف نفس دوڑتا ہوا جاتا ہے مگر نیکی کی طرف اسے گھسیٹ کر لانا پڑتا ہے. میں نے بھی تمہارا یہی علاج کیا ہے"
"اتنا کچھ کرکے تم اتنے سکون سے کیسے رہ لیتی ہو" خاور نے میسیجز پڑھتے پڑھتے ہی نازنین کو ایک نظر دیکھ کر کہا.
"ایک مشہور کہاوت ہے کہ..."
"بھائی خدا کا واسطہ ہے اپنی الٹی کہاوتوں کو پہلے سیدھا کرلیں. پھر سنائیے گا" زوار نازنین کو چھوڑ کر خاور کی طرف آیا.
"مطلب کیا کیا ہے میں نے" خاور نے ناسمجھی سے اسے دیکھا.
"پہلے ہی آپ نے بولا ایک لوہار کی سو سنار کی. حالانکہ اصل کہاوت ایسے تھی سو سنار کی ایک لوہار کی" زوار نے اسکے آگے ہاتھ جوڑ دیے.
"تمہارا ٹوکنا ضروری تھا جب کسی نے غور نہیں کیا تو تم کیوں بولے" خاور نے شرمندہ ہوئے بغیر کہا.
"کوئی حال نہیں آپکا. سندس ابھی آفس ہی ہے" زوار نے اگلی بات شروع کردی.
"ہاں وہ ابھی آفس ہی ہے. میری مانو تو اسے ابھی وہیں رہنے دو" خاور نے فون کان سے لگاتے ہوئے کہا.
"جیسے آپکو ٹھیک لگے" زوار بھی وہیں بیٹھ گیا.
...................................................
"پہنچ آو گھر کہ گھر آتے ڈر لگتا ہے" شاہ زین کاونٹر پر زینب کے ساتھ ہی کھڑا تھا کہ گل جان کا فون آگیا.
"گل جان یہ آپ ہی ہیں نا" شاہ زین نے سب سے پہلے تو ماں کے جارحانہ انداز پر سوال کیا.
"بیٹا کتنی مائیں رکھی ہیں جو ایک کی پہچان نہیں ہو پا رہی" گل جان کو مزید تاو آنے لگا.
"ہاں جی لگ گیا پتہ آپ ہی ہیں" شاہ زین نے مسکرا کر خود ہی جواب دیدیا.
"کیا تمہیں مسخریاں سوجھ رہی ہیں کوئی اہم بات بھی ہو سکتی ہے" زینب نے شاہ زین کی شوخیاں دیکھ کر اس سے فون لے لیا.
"جی گل جان. آپ بتائیں ہم سن رہے ہیں" زینب کے تابعداری سے پوچھا.
"نا میری جان آپ نے ابھی کچھ سنا ہی کہاں ہے. یہاں تو میں صبح سے مسلسل سن رہی ہوں. اب آپ سب کی باری ہے. میری تو بس ہو گئی ہے" گل جان نے زینب کو بھی سنائیں.
"کیا ہو گیا ہے آپکو گل جان" زینب کے روہانسے لہجے پر شاہ زین نے قہقہہ لگاتے اس سے فون لے لیا.
"تمہارے ابی جان کو خالی گھر اس وقت زہر لگ رہا ہے. کب سے اپنے کمرے میں تنہا ہی بیٹھے ہیں" گل جان کا غصہ تھوڑا کم ہوا.
"آپ پریشان نہ ہوں بچے آنے والے ہوں گے. ہم بھی بس گھر کیلیے نکل ہی رہے ہیں" شاہ زین نے انہیں تسلی دی.
"فاطمہ کیسی ہے" گل جان نے بڑی ہمت کرکے پوچھا.
"وہ بھی ٹھیک ہے. سنبھل گئی ہے" شاہ زین کے زینب کو دیکھتے ہوئے کہا.
"یہ جو آپ نے اپنی تھانیدار بہو ہمیں تحفے میں دی ہے یہی سب ٹھیک کر دیتی ہے" شاہ زین کی بات سن کر زینب اور گل جان مسکرا اٹھے.
"خوش رہو میری ساری دعائیں تم سب ہی کیلیے ہیں" گل جان نے مسکراتے ہوئے کہا اور فون رکھ دیا.
...............................................
"کسے فون ملا رہے ہیں" خاور کو مسلسل فون پر لگا دیکھ کر زوار بولا.
"ایس پی خرم کو. پتہ نہیں کمینہ کہاں مر گیا" خاور کے کہنے پر نازنین کو کرنٹ لگا.
"وہ ایس پی آپکا دوست تھا"
"یس. اینی پرابلم" خاور نے سر جھٹکا.
"ہیلو. از دیئر خرم" خاور نے فون پر کسی کے نہ بولنے پر خود ہی پوچھ لیا.
"سالے کمینے زلیل انسان. مروا دیا تو نے آج مجھے" خرم نے فون اٹھاتے ہی خاور کو سنائیں. خاور نازنین اور زوار کو دیکھتے ہوئے مسکرا کر ایک سائیڈ پر چلا گیا.
"ہاں اب بول. کیا تکلیف ہوئی تجھے" خاور بھی اپنی فارم میں آگیا. "زوار کے بچے کہاں ہیں. ہمارے ڈھیر سارے کام ہو گئے تیرا ایک کام نہیں ہوا"
"زوار کے بچے نہیں ہیں وہ. جن کے بچے ہیں. توبہ استغفار. اتنے تیز بچے ہیں اسکے" خرم کی دہائیاں شروع ہو گئیں.
"کیا کیا ہے انہوں نے" خاور نے دانت پیستے ہوئے خرم سے پوچھا.
"یہ پوچھو کیا نہیں کیا انہوں نے. پولیس والے کو ٹھینگا دکھا کر نئے ماں باپ سڑک سے ڈھونڈھے اور انکے ساتھ چل پڑے"
"خرمانی میرا دماغ مت خراب کرو. کونسے ماں باپ ڈھونڈ لیے انہوں نے" خاور جب بھی خرم پر حد سے زیادہ تپا ہوتا اسے اسی نام سے پکارتا تھا.
"دیکھ بھائی میرا تو اپنا برا حال ہے. آدھے رستے میں پپو بنا رہا، باقی آدھے رستے جاکر مجھے پتہ لگا کہ میں بھی ابو بن گیا ہوں"
"او مبارکاں میرے بھائی مطلب میں چاچا بن گیا" خاور نے نعرہ لگایا.
"شاباش ہے. میرا یہاں زوار کے بچوں کے پیچھے بھاگ بھاگ کر برا حال ہو گیا ہے تمہیں خوشیاں سوجھ رہی ہیں. اب مجھے شیر کی کچھار میں ہاتھ ڈالنا پڑے گا"
"کون ہے وہ شیر جسکے آگے میرا ببر شیر چوہا بن گیا"
"احمد شاہ درانی"
.........................................



"گھنٹوں بھر سے پتہ نہیں تمہارے بھائی کس سے باتیں کر رہے ہیں. اتنی دیر ہوگئی ہے میرے تو اب ہاتھ بھی دکھنے لگ گئے ہیں" کاریڈور سے گزرتے زینب کب سے خاور کو فون کر کے تھک ہار کر کہنے لگی.
"بھائی کی اتنی مجال کہ وہ آپ کے علاوہ کسی سے باتیں کریں" شاہ زین فاطمہ کی وہیل چئیر گھسیٹ کر لانے کے ساتھ ساتھ اپنا تبصرہ بھی کر رہا تھا.
زینب اسے گھورنے لگی.
"کیا ہوا بات پسند نہیں آئی" شاہ زین نے مسکراتے ہوئے پوچھا.
"شاہ زین تم کب سدھرو گے. اپنی مسخریاں تھوڑی دیر کیلیے بند نہیں کر سکتے" زینب اسکی مسکراہٹ پر تپتے ہوئے بولی. ان دونوں کی باتیں سن کر فاطمہ بھی ہنسے جا رہی تھی. اتنے میں وہ تینوں باہر آگئے.
"شاہ زین کتنے لاپرواہ اور سست انسان ہو تم. کم از کم یہاں گاڑی تو پارکنگ سے نکال کر لے آتے. اب فاطمہ کو کتنی دیر یہیں رکنا پڑے گا" زینب نے باہر گاڑی نہ پاکر شاہ زین کو غصے سے کہا.
"اوہو اس میں اتنا غصہ کرنے والی کیا بات ہے. میں ابھی لے آتا ہوں" شاہ زین نے جلدی سے کہا.
"نکمے انسان کوئی ضرورت نہیں ہے. یہیں کھڑے رہو. میں ہی لے آتی ہوں" زینب آگے آئی.
"جائیں آپ ہی لے آئیں. میری تو کوئی ویلیو ہی نہیں ہے" شاہ زین منہ بناتا وہیں رک گیا.
"ہونہہ" زینب شاہ زین کو پیچھے دھکیلتے ہوئے چلی گئی.
..........................................
"اوگاڈ کیسی جگہ ہے" مارتھا سب بچوں کے ساتھ ایک کونے میں کھڑی کہنے لگی.
"مارتھا جی جب انسان اغوہ ہو جاتا ہے تو اسے فائیو اسٹار نہیں ٹھہرایا جاتا" عارب نے قانیتہ کو دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے کہا.
"ککک....کیا مطلب ہے تم لوگوں کا" مارتھا کی رنگت سفید پڑ گئی.
"اور نہیں تو کیا. یہ سب سجوہ کی وجہ سے ہو رہا ہے. جب سے وہ ہماری زندگی میں آئی ہے سب گڑبڑ ہی ہو رہا ہے" سنعان نے مسکراہٹ چھپاتے ہوئے مارتھا کو مزید ڈرایا.
"مجھے تو لگتا ہے کہ اس پر کسی کا سایہ ہے. تبھی ہم سب بھی پھنستے ہی جارہے ہیں" قانیتہ نے بھی اسے ڈرا کر اپنا فرض پورا کیا.
"ممم ....مج....مجھے پتہ ہے کہ تم لوگ مجھے ڈرانے کی کوشش کر رہے ہو" مارتھا ڈرتے ڈرتے بولی.
"شکل دیکھو اپنی. او مائی گاڈ. اتنی خوفزدہ ہو جاتی ہو مارتھا سجوہ کا نام سنتے ہی" عارب نے مارتھا کا مذاق اڑایا.
"ہا... ہا... ہا... ویری فنی.... مجھے تنگ کر کے بہت مزا آرہا ہے تم بچوں کو؟؟؟" مارتھا کا خون کھول رہا تھا.
"نہیں بالکل بھی نہیں" تینوں بچوں نے سر ہلاتے انکار کر دیا.
"نہیں تم لوگ یہیں رکو. میں ابھی جاکر احمد سر کو جاکر بتاتی ہوں" مارتھا فون پر بات کرتے احمد شاہ کی طرف جانے لگی.
"شوق سے جاو. پھر ہم بھی جاکر یہ بتائیں گے کہ آپ ہماری کچھ نہیں لگتیں اور آپ سجوہ کو وہیں سڑک کنارے چھوڑ کر جانے والی تھیں" قانیتہ عارب کا ہاتھ پکڑ کر بولی جیسے وہ مارتھا سے پہلے احمد شاہ تک پہنچ جانے والی ہو.
"آ... اب ایسی بھی کوئی بات نہیں. میں تو مذاق کر رہی تھی. اب میں مذاق بھی نہیں کرسکتی" مارتھا کو منٹ نہیں لگا ٹریک پر واپس آتے.
"لو جی. آپ کیوں سیریئس ہو گئیں. اب ہم بھی مذاق نہیں کرسکتے کیا" بچوں کی چالاکیوں پر مارتھا کا دل کر رہا تھا کہ انکے کان کے نیچے رکھ کے دو دے.
اتنے میں احمد شاہ اور ماہ پارہ بحث کرتے پریشانی سے انکی طرف آئے.
"بچو.... جو بھی آپ کے بابا جان پوچھیں اسکا تسلی سے سوچ کر جواب دینا. گھبرانے کی بالکل ضرورت نہیں" ماہ پارہ نے ایک ہاتھ سے سجوہ کو اٹھایا ہوا تھا دوسرے ہاتھ سے سب بچوں کو اپنے آگے کھڑا کر لیا.
"ماہ پارہ آپ تھوڑی دیر خاموش ہو جائیں" احمد شاہ نے غصے سے ماہ پارہ کو خاموش رہنے کا کہا.
"ہاں ماہ پارہ آپ پلیز خاموش ہی رہو. یہ آفت کے پرکالے بچے اچھے خاصے بندے کے پسینے چھڑا سکتے ہیں" مارتھا نے منہ بناتے دل ہی دل میں ماہ پارہ سے کہا.
سنعان، قانیتہ اور عارب نے ایک نظر ان سب کو دیکھا.
"جی انکل آپ پوچھیں" عارب نے انکے متفکر چہرے کو دیکھ کر پوچھا.
"تم لوگوں کی کسی سے دشمنی تو نہیں ہے. میرا مطلب ہے مما یا پاپا کی کسی سے کوئی لڑائی یا...."
"جی انکل" تینوں نے یکدم انکی بات کاٹ کر ہاں میں سر ہلاتے چیخ کر کہا.
"اچھا" احمد شاہ، ماہ پارہ اور مارتھا حیرت، پریشانی اور تشویش کی ملی جلی کیفیت کا شکار ہو گئے.
" آپ بچوں کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں. ابھی ان سب کا بندوبست کرتا ہوں" احمد شاہ نے فون کان سے لگایا.
"کتنے لوگ ہیں ہاشمانی ہاوس کے آس پاس" احمد شاہ نے پوچھا.
"اچھا ٹھیک ہے. اب میری بات غور سے سنو. کرنا یہ ہے کہ........." احمد شاہ ان سے دور جاتے فون پر بات کر رہے تھے.
"آنٹی یہ کیا ہے سب" سنعان نے ماہ پارہ کا ہاتھ تھام کر پوچھا.
"پہلی بات تو یہ اب سے آپ لوگ مجھے آنٹی نہیں پکاریں گے. ٹھیک ہے ممی ایک ہی ہوتی ہے تو کچھ بھی کہہ کر بلائیں. جیسے بی بی، ممی، ماں جان. کچھ بھی. دوسری بات یہ کہ جب تک آپ کے پاپا مما نہیں آجاتے تب تک آپ ہمارے ساتھ ہی رہیں گے. ہمارے گھر" ان چاروں نے یکدم انہیں دیکھا. مارتھا تو برا پھنسی تھی.
"ایسے کیسے آنٹ.... میرا مطلب ہے ماں جان. ہم کسی کے بھی گھر چلے جائیں" عارب نے ان کے گھورنے کی پرواہ کیے بغیر اپنی بات ختم کی.
"دیکھو میری جان آپکی بہن بہت چھوٹی ہے آپ اسکی دیکھ بھال اکیلے نہیں کرسکتے اور یہ مارتھا یہ اپنا بوجھ اٹھا لے یہی بہت ہے. میرے اپنے بچے گھر میں موجود ہیں. آپ لوگ بور نہیں ہونگے. ابھی میں شاہ جی سے یہی کہہ رہی تھی کہ آپ سب ہمارے ساتھ ہی چلیں گے" انہوں سے پیار سے عارب سے کہا.
"سب" مارتھا کا شاید دن ہی خراب تھا. وہ خوامخواہ ان کے ساتھ گھسیٹتی چلی جا رہی تھی.
"ہاں جی سب" احمد شاہ نے اسکے پیچھے آکر کھڑک دار آواز سے جواب دیا.
"معاملہ آل سیٹ" ماہ پارہ نے احمد شاہ کے پاس آکر پوچھا.
"یس ایوی تھنگ از سیٹ. آفٹر آل آئی ایم احمد شاہ درانی" انہوں نے سجوہ کو اٹھاتے ہوئے مسکراہٹ لیے جواب دیا.
.................................
"احمد شاہ درانی"
"ہاں جی احمد شاہ درانی. تمہارے چہیتے اسی چیتے کے ساتھ فرار ہو گئے ہیں" خرم نے خاور پر چیختے ہوئے کہا.
"خرمانی تھوڑی دیر کیلیے اپنی افسری سائیڈ پر نہیں رکھی جاتی. میرے بچے کب سے اشتہاری ہو گئے جو تم انہیں فرار ہونے کا کہہ رہے ہو" خاور کی موبائل پر گرفت مضبوط ہو گئی.
"وہ تیرے بچے کب سے ہو گئے. وہ تو زوار کے بچے ہیں" خرم بھی غصے میں آگیا.
"زوار میرے بھائیوں جیسا ہے. اسکے بچوں میں اور میرے بچوں میں کسی قسم کی تفریق نہیں ہے" خاور ہال سے باہر نکل آیا تاکہ خرم سے کھل کر بات کرسکے.
"وہ اپنی ڈیوٹی نبھا رہا تھا. اسے جہانگیر اور فہد کو پکڑنے کا ٹاسک دیا گیا تھا. یہ میری ڈیوٹی تھی اسکے بیوی بچوں کی نگرانی کرنا. لیکن مجھے بڑا افسوس ہو رہا ہے کہ میں نے تیرے پر اعتماد کیا اور بچے ہمارے ہاتھ سے نکل گئے. اب نجانے کس حال میں ہونگے" خاور دکھ سے بولا.
"جتنے وہ تیز ہیں فکر نہ کرو احمد شاہ خود ہاتھ جوڑ کر ہمیں واپس دے کر جائے گا" خرم بے فکری سے بولا.
"اپنی بکواس بند کر اور جاکر بچے واپس لے کر آ" خاور نے اسے سختی سے کہا.
"احمد شاہ درانی کے گھر میں انسان ایک چڑی تک کا شکار نہیں کرسکتا. جیتے جاگتے بچے کہاں سے اٹھا لاوں" خرم کا دور دور تک وہاں جانے کا ارادہ نہیں تھا.
"سالے کمینے تیری تو. پہلے تو نے اپنی افسری جھاڑ کر بچے ڈرا کر بھگا دیے. اب بھیگی بلی بنا بیٹھا ہے. یاد رکِھیں. میرے وہاں آنے سے پہلے بچے تیرے پاس ہوں. نہیں تو تیرا تبادلہ میں ابھی کے ابھی وزیرستان کرواتا ہوں" خاور نے اسے لاسٹ وارننگ دی.
"غصہ کیوں ہو رہا ہے. میں نے سول وردی میں کئی بندے زوار کے گھر کے باہر کھڑے کروا دیے ہیں. احمد شاہ انہیں چھوڑنے آئے گا تو اس سے بچے لے لیں گے وہ" خرم بھی اسکی دھمکیوں سے سیدھا ہو گیا.
"ویسے وہ احمد شاہ درانی تم لوگوں کا بزنس پارٹنر نہیں ہے. تم اس سے آسانی سے بات کر سکتے ہو" خرم نے اسے آسان راستے کی طرف لانا چاہا.
"اتنا آسان نہیں ہے نازنین، فہد اور جہانگیر نے دھوکے سے ہمارے بزنس کے اکیاون فیصد شیئر اسے بیچ دیے ہیں. اب وہ ہمارے بزنس کو ٹیک اوور کرکے بیٹھا ہے. ابی جان اور شاہ زین تو اسے جان سے مار دینا چاہتے ہیں" خاور اسکی ساری بات سمجھ رہا تھا.
"اسی لیے اسکے آس پاس وہ ڈبل ڈیکر ہٹے کٹے گارڈز ہر وقت رہتے ہیں" خرم کو اب ساری بات سمجھ آئی.
"ہاں" خاور نے ماتھے پر آئے پسینے کو صاف کیا.
"دشمنی تم لوگوں کی ہے مروا مجھے دینا" خرم کی دہائیاں شروع ہو گئیں. بہانے تو سارے ختم ہو گئے تھے.
"خرمانی کام پر دھیان دو. مجھے ابھی نازنین کا بھی انتظام کرنا ہے" خاور کے پاس اپنے رونے بہت تھے.
"ہاں اسی پر فوکس کرو. چالاک لومڑی ہے وہ. کیا خیال ہے اسکے بھائی اور شوہر کو پہلی ہیئرنگ میں سزا ہو جائے گی" خرم کو معلوم تو تھا پھر بھی پوچھ رہا تھا.
"ہاں انشا اللہ. ایسا ہی ہوگا. تم مجھے زوار کے بچے کہیں سے بھی لا کر دو" خاور نے اسکے سارے ٹال مٹول پر فل اسٹاپ لگا دیا.
...........................................
"یا میرے اللہ کیسا زمانہ آگیا ہے. امتحان عشق میں میں نے سب آزمایا. لیکن صبر کے سوا کچھ ہاتھ نہ آیا" شاہ زین اونچی آواز میں فاطمہ سے کہتا اسکی وہیل چیئر کے ساتھ ہی پنجوں کے بل بیٹھ گیا.
"ہائے میرے معصوم سے مجازی خدا" فاطمہ نے مسکراتے ہوئے اسکے چہرے کے گرد ہاتھوں کا پیالہ بنایا. "اب آپ کو کیا ہوا"
"میری پیاری بیگم جان. اتنا مت مسکرائیے. میری زندگی کا کیا حال ہو گیا ہے. سب چھوٹا سمجھ کر مجھے سے حلال کرنے پر تلے ہیں. مجھے کانٹوں سے ڈر نہیں لگتا، پھولوں سے میں ڈرتا ہوں. ابھی گل جان اور پھر بھابھی نے اتنی باتیں سنائیں ہیں مجھے" شاہ زین کے چہرے پر سنجیدگی تھی.
"آپ ایسے ہی دل پر لے رہے ہیں. جانتے تو ہیں وہ سب آپ سے کتنا پیار کرتے ہیں" فاطمہ نے مسکرا کر جواب دیا.
"جانتا ہوں سچے اور اچھے لوگ ہی تو جلد غصہ کرتے ہیں. بس خاموش ہو جاتا ہوں کہ چبھن والی کوئی بات منہ سے نہ نکل جائے" شاہ زین نے اسکے ہاتھ تھامتے ہوئے کہا.
"غصے وچ نہ آیا کر
ٹھنڈا کرکے کھایا کر
دن تیرے وی پھر جان گے
ایویں نہ گھبرایا کر" فاطمہ نے ہنستے ہوئے بابا بلھے شاہ کا کلام پڑھا.
"فاطمہ" شاہ زین اسکی مسکراہٹ میں کہیں کھو سا گیا.
"ہوں" فاطمہ نے اسکی طرف دیکھا.
"یہ جب تم اس طرح مسکراتی ہو تو اس مسکراہٹ میں ایک راز سا چھپا لگتا ہے. جیسے دور کہیں کوئی ساز بج رہا ہو. ہمارا رشتہ بھی کتنا عجیب سا ہے نا. سیپ کے موتیوں میں قید ایک عجیب اور الگ ہی ہمارا افسانہ ہے" شاہ زین نے کھوئے کھوئے لہجے میں کہا.
"اتنا زیادہ سوچیے مت. سوچ گہری ہو جائے تو بعض فیصلے کرنا مشکل ہو جاتا ہے" فاطمہ نے چٹکی بجاتے کہا.
"کبھی کبھی ہی تو دل کرتا ہے کہ اپنے اندر چھپے ہوئے سارے غم کسی کو سناوں" شاہ زین کی آنکھوں میں ہلکی سی نمی اتر آئی.
"غم کیوں کر رہے ہیں. جسکا آنا ہی نہیں لکھا تھا اسکے جانے کا کیسا غم" فاطمہ بھی اپنی بیٹی کا زکر کرتے رنجیدہ ہو گئی.
"میں نے زندگی میں پہلی بار دشوار ترین راستوں سے کانچ اکٹھے کیے ہیں. میرا تو سارا جسم لہو بہا رہا ہے" شاہ زین نے تکلیف سے کہا.
"زندگی میں کچھ بھی مکمل نہیں ہوتا زین. کبھی کبھی ملن نامکمل ہوتا ہے تو کبھی جدائی ادھوری رہ جاتی ہے. یہاں تو فقط ایک موت ہی پوری ہے."
"کچھ ایسی چیزیں بھی دنیا میں ہوتی ہیں جو منفرد ہوتی ہیں. چاند بھی تو ہے مگر اسے ہاتھ لگانا ضروری تو نہیں" فاطمہ اسے سمجھا رہی تھی.
"کچھ عادتیں کبھی بدلتی نہیں. سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے کہ کیا یاد رکھنا ہے کیا بھول جانا ہے. کیسے بن تاروں کے بجتے ساز اپنے اندر سارے غم گم کر لیتے ہیں" کون کہتا ہے کہ مردوں کو کوئی تکلیف نہیں ہوتی. وہ تو دہرے غم میں مبتلا ہوتے ہیں. ایک غم کو سہنا، دوسرا اپنے جزبات کو سینت سینت کر اپنے اندر ہی جذب کر لینا. اتنے میں ان دونوں کے اوپر ایک سایہ سا ہو گیا.
"کہاں گم تھا تو رات بھر. کبھی تجھے اس نگر دیکھا کبھی اُس نگر تجھے ڈھونڈا. میری تو ساری رات تجھے سوچتے اور گلی گلی ڈھونڈھتے ہی گزر گئی" آواز پر شاہ زین اور فاطمہ کی ہمت نہ پڑی کہ وہ نظر اٹھا کر آواز کی سمت دیکھ سکیں.
"وہ میرا یا تو خواب تھا یا پھر محض اک خیال. کبھی عرش پر تو کبھی فرش پر تجھے ڈھونڈا. مجھے تو جابجا بس تیری ہی جستجو. حق اللہ. میں تو بس تجھے ہی ڈھونڈتا ہوں. آخر کہاں کھل سکوں تیرے روبرو. میرے سلسلے بھی عجیب سے ہیں. تو مل گیا تو تجھے کھو دیا. اب تیری یاد آئی تو رو دیا" کسی نے کہتے ہوئے زور سے لاٹھی زمین پر ماری. شاہ زین اور فاطمہ یکدم اچھل پڑے.
"ایسی ہی کچھ کیفیت تیری بھی ہو گی. اب کیوں پچھتا رہا ہے. جب کہا تھا کہ وقت کو تھام لے تو تو نے اپنے رب سے ضد کیوں کی. وقت کو پیدا کرنے والے کو وقت دے کر دیکھو وہ تمہارا وقت بدل دے گا. وقت کو وقت سے پہلے پکڑنے کیلیے وقت سے آگے گزرنا پڑتا ہے. چل ایک امتحان میں پاس نہیں ہوا تو کیا ہوا. اب نا امید مت ہونا. بس اتنا یاد رکھنا کہ خدا کبھی دوسرا در کھولے بغیر پہلا در بند نہیں کرتا" سایہ آہستہ آہستہ ان دونوں پر سے دور ہوتا گیا.
"زین یہ کون ہمارے پیچھے پڑ گیا ہے. یہ سایہ ہمارا پیچھا کیوں نہیں چھوڑتا" فاطمہ نے اس سحر سے نکلتے ہوئے شاہ زین سے پوچھا.
"یہ اک راز ہے اسے راز ہی رہنے دے" فاطمہ کو اپنے پیچھے پھر سے آواز آئی. وہ دونوں بری طرح ڈر گئے.
"آ....آپ کون ہیں" شاہ زین اور فاطمہ پسینے میں شرابور تھے.
"اتنی چیر پھاڑ کیوں کرنی. آسان لفظوں میں مجھے خاک کہتے ہیں" زرا سا ہنس کر جواب دیا گیا.
"آ...آ...آپ ہمیں الجھن میں ڈال رہے ہیں" فاطمہ بھی بولی.
"شکر ہے خدا کا کہ تم دونوں بھی الجھے. جہاں جہاں الجھو گے وہیں وہیں سلجھو گے. گرتے گرتے سنبھلو گے" انہوں نے شاہ زین اور فاطمہ کے سر پر ہاتھ رکھا. ان دونوں کے سانس بند ہو گئے.
"بہت سائنس پڑھی ہے تمہارے گھر والوں کے. ایسا کردو. ایسا نہیں تو ویسا کردو. آخر کیا ملا. جو ہونا تھا وہ تو ہو کر ہی رہا. کیا تم دونوں کے ہاتھ میں آیا. ساری لکھائی پڑھائی "کیا" اور "کیوں" سے شروع ہوکر "کیسے" پر آکر ختم ہو گئی. بس اب یہیں سے "اِنَا اللہَ عَلیَ کُلِ شَی ءِِ قَدِیر" شروع ہوتا ہے. اب دیکھنا خدا کیا کرتا ہے. خدا کو یہ خاکی پسند آگئی ہے. خاک تو تم بھی ہو ہم بھی ہیں. پر نجانے کیسے تم خاص ہو گئے اور ہم خاک ہی رہ گئے" ان دونوں کی گود میں ایک تعویذ پھینک کر وہ یکدم غائب ہی ہو گئے. فاطمہ اور شاہ زین نے فوراََ پلٹ کر دیکھا مگر کوئی نظر نہ آیا.
"تم دونوں کی گردنیں کیوں پیچھے لگی ہیں" زینب نے ان دونوں کو ہلا کر پوچھا.
"ہا اآآآآ" وہ دونوں یکدم چیخے.
"ڈراونا خواب دیکھا ہے کیا. میں ہوں. زینب گردیزی. پہچانا مجھے" زینب نے ان دونوں کے سفید پڑتے چہروں کے آگے ہاتھ لہرا کر غصے سے کہا.
"کککک....کچھ نہیں بھابھی. چلیں جلدی یہاں سے" زینب کو حیران پریشان چھوڑ کر شاہ زین فاطمہ کو لیکر گاڑی کی طرف چلا گیا.
"عجیب ہیں دونوں ایویں بوکھلائے پھر رہے ہیں" زینب بھی سر جھٹک کر انکے پیچھے بھاگی.
........




"انتہا درجے کے بے فیض لوگ ہو تم سب" نازنین کو بیٹھے بیٹھے نا جانے کیا سوجھی زوار کے سامنے آکر کھڑی ہو گئی.
"ہو گیا........" زوار نے آنکھ اٹھا کر اسے دیکھا.
"بیٹھ جاو اب جاکر" اسے اشارے سے سامنے صوفے پر بیٹھنے کو کہا.
"نہیں جاوں گی. جو کرنا ہے کرلو" نازنین بھی ضد میں آگئی.
"مرضی ہے" زوار نے کندھے اچکائے.
"تمہیں تو میں نے ویسے بھی تمہاری مرضی پر ہی چھوڑ دیا ہے" زوار سیدھا ہوکر کہنے لگا.
"تم...." نازنین اسکی حرکتوں پر چڑ گئی.
"کیا میں. ہاں. اتنی جلدی محبت کا بھوت اتر گیا سر سے" زوار اب کی بار اسکے سامنے کھڑا ہوکر کہنے لگا.
"تم دونوں میری محبت اور دوستی کے لائق ہی نہیں تھے. محبت کا بھوت اتر گیا ہے میرے سر سے. اب سوچ سمجھ کر بات کرنا. ایک کہی تو چار سنو گے" نازنین کے انگلی اٹھا کر اسے وارن کیا.
"تم سے بات کون کرنا چاہتا ہے. ایک نمبر کی تباہی ہو تم" زوار نے پھنکارتے ہوئے کہا.
"ہماری زندگی میں اتنی تباہی مچا کر بھی تم توقع کر رہی ہو کہ ہم تمہیں اپنی محبت اور دوستی کے لائق سمجھیں. ابی جان نے تم پر ترس کھایا. میں نے اور شاہ زین نے تمہیں اپنا دوست مانا اور تم نے ہم سب کو دھوکہ دیا" زوار نے اسے پکڑ کر غصے سے صوفے پر پٹخا.
"اپنی بات کرو زوار ہاشمانی. گردیزیز تو ابھی تک تمہارے حق میں اچھے اور سچے ثابت نہیں ہوئے" نازنین نے غصے سے زوار کی طرف دیکھا.
"اپنی بکواس بند کرو" زوار نے اسکی بات ان سنی کردی.
"یہی سچ ہے زوار ہاشمانی. ابھی خاور بھائی اندر آئیں گے تو ان سے پوچھنا تمہاری اولاد کہاں ہے" نازنین کی بات سن کر زوار اسے دیکھنے لگا.
"مان لو کہ میرے ساتھ ساتھ تمہارا برا اور مشکل وقت بھی شروع ہوچکا ہے" نازنین نے زوار کا ہاتھ تھاما.
"برا اور مشکل وقت ایک جادوگر ہے جو آپ کی چاہت کے سارے دعوے داروں کا چہرہ بے نقاب کر دیتا ہے" نازنین بڑی چالاکی سے زوار کو خاور کے خلاف کر رہی تھی.
"کوئی کسی کا سگا نہیں ہوتا. سب خوامخواہ کے ڈھکوسلے ہیں. اپنی اولاد کی تمہیں خود فکر کرنا ہوگی" اپنے بھائی اور شوہر کو بچانے کیلیے نازنین نے زوار کے بچوں کا سہارا لیا.
"خاور بھائی آتے ہیں تو تم انہی سے پوچھ لینا میرا تو تم یقین نہیں کروگے" نازنین نے مگرمچھ کے آنسو ٹپکانے شروع کردیے.
"خرم ہمارا سگا نہیں ہوسکا تو تمہارا سگا کیوں ہوگا" سوں سوں کرتی نازنین بولے جا رہی تھی کہ خاور اندر آگیا.
"اسے کیا ہوا" خاور نے زوار سے پوچھا.
"بھائی میرے بچے کہاں ہیں" زوار یکدم خاور کے سر ہوگیا.
"جواب دو خاور گردیزی. تم سب کو آپس میں لڑا نا دیا تو میرا نام بھی نازنین نہیں" نازنین خاور کو دیکھ کر مسکرانے لگی. جو خاور کی نظروں سے پوشیدہ نہ رہ سکی.
"گردیزی ہاوس میں تو کوئی لڑکی نہیں پیدا ہوئی. مگر زوار تمہاری بیٹی سے میں اپنا بدلہ ضرور لوں گی. ایک بار خاور بتا دے کہ اس نے تمہاری اولاد کو کہاں چھپایا ہے" نازنین اپنے خیالوں میں کھڑی خاور سے کہہ رہی تھی.
"زوار ایک بری خبر ہے" خاور نے زوار کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور نظریں نازنین پر ٹکا لیں.
..............................................
"کیا بات ہے فیروز میاں. تم کیوں خاموش ہو گئے. ایک یہ کائنات ہی خاموش کافی نہیں جو تم بھی منہ سیئے بیٹھ گئے" پیر سائیں نے خاموش اور حیران بیٹھے فیروز سے پوچھا.
"دل میں رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں. خوامخواہ اپنے درد ہی بڑھائیں گا. جو باتیں تو پی گیا ہے دیکھ لے کہیں کھا نہ جائیں تجھے" فیروز کی خالی خالی نظروں میں جھانکتے ہوئے پیر عبداللہ سائیں بولے.
"کچھ نہیں سائیں. کچھ کہنے کو بچا ہی نہیں. سائیں میں نے تو اب بولنے سے توبہ کرلی" فیروز نےنظریں نیچے کر کے کانوں کو ہاتھ لگاتے کہا.
"توبہ کرنے کیلیے کانوں کو ہاتھ لگانے کی ضرورت نہیں ہوتی. گناہوں کو ہاتھ نہ لگانا ضروری ہے" پیر سائیں نے مسکرا کر اسکے ہاتھ کانوں سے ہٹاتے ہوئے کہا.
"سائیں میں آپ کی باتیں سمجھ ہی نہیں پاتا. اسلیے خاموش ہوں" فیروز بے بسی سے کہنے لگا
"ہاں یہ بھی ہے. مرشدوں کی باتیں ایک راز کی طرح ہوتی ہیں. معنی مفہوم انسان کو خود ہی ڈھونڈنے پڑتے ہیں. اچھا ہے کہ تو خاموش ہی ہے. جب کچھ سمجھ نہ آرہا ہو تو خاموشی بہتر ہوتی ہے. بحث معاملوں کو بگاڑ دیتی ہے" پیر سائیں نے اسکی حالت دیکھ کر کہا. "چلو خاموشی کی وجہ تو سمجھ آتی ہے لیکن سر جھکائے کیوں بیٹھے ہو"
"سائیں میں اپنے سوالوں اور کم علمی کی وجہ سے سر جھکائے بیٹھا ہوں. آپ کے علم کے مقابلے تو میں اک زرا بھی نہیں" فیروز نے سر جھکائے ہی جواب دیا.
"سر جھکا دینے کو کسی کی ہار نہیں گردانا جاتا. ادب احترام کے زمرے میں بھی سر جھکانا آتا ہے. ادب کا دروازہ اتنا چھوٹا اور تنگ ہوتا ہے کہ اس میں سے گزرنے کیلیے سر ہمیشہ جھکانا ہی پڑتا ہے"
"سائیں بخت روشن کو اور کتنے در سے گزرنا پڑے گا. وہ آخر اپنی منزل پہنچ کیوں نہیں جاتی. صرف ایک دن کی بچی کو اور کتنی آزمائشوں سے گزرنا پڑے گا" فیروز کے چہرے پر پریشانی صاف نظر آرہی تھی.
"زندگی ایک سفر کا نام ہے منزل کا نہیں. بخت اپنی منزل کی طرف گامزن ضرور ہے. ٹھہرنا اسکے نصیب میں ہی نہیں. انسان کی آزمائشیں بھی کبھی ختم ہوئی ہیں. جو دنیا میں آگیا اسے آزمائشوں سے بھی گزرنا پڑتا ہے. مومن تو ہر چالیس دن بعد کسی نہ کسی آزمائش میں مبتلا کیا جاتا ہے" پیر سائیں نے اسکی بات سن کر سر جھٹک کر جواب دیا. "بخت کو تو میرے بھی مرشدوں کی دعائیں ہیں کہ اس کے دم سے کئی گھر آباد ہونے ہیں"
"سائیں بخت کے گھر والے کیسے صبر کر رہے ہوں گے" فیروز کو ایک وقت میں کئی فکریں لاحق تھیں.
"یہ زندگی آزمائشوں کا سمندر ہے. کسی سے کچھ لے کر اسے آزمایا جاتا ہے کسی کو نواز کر. کہیں صبر کی آزمائش ہے تو کہیں شکر کی. یہ دونوں ہی زندگی میں لازم و ملزوم ہیں. جہاں شکر ہو وہاں صبر بھی ہوتا ہے. جہاں صبر آجائے وہاں شکر بھی آ ہی جاتا ہے. اسکے خاندان میں انا بڑی ہے. انا جب بے تحاشا ہو تو کیوں نہ روز تماشا ہو. خدا نے جب گردیزی خاندان میں بیٹی پیدا نہیں کی تو کسی وجہ سے ہی کی ہوگی. وہ وجہ اب آہستہ آہستہ انہیں ضرور نظر آنے لگے گی. میری ایک بات لکھ کر رکھ لو. خدا کی محبت سے بڑھ کر کسی کو چاہنے لگو تو خدا اسی کے ہاتھوں انسان کو توڑ دیتا ہے. تاکہ اسے احساس ہو کہ خدا کی محبت کے علاوہ سب فانی ہے"
"تو کیا سائیں انکے نصیب میں بیٹی کا سکھ لکھا ہی نہیں ہے" فیروز نے حیرانی سے پوچھا.
"سکھ تو لکھا ہے لیکن ابھی انکی قسمت انکا ساتھ نہیں دے رہی. قسمت ساتھ نہ ہو تو گونگے بھی برائیاں کرنے لگتے ہیں. حاسدی لوگ انسان کے قد تک نہ پہنچ سکیں تو پاوں کے نیچے کھدائی کرنے لگ جاتے ہی ہے. اسے ہی قسمت کا ساتھ نہ دینا کہتے ہیں"
"مجھے قسمت کے اس امتحان سے شکوہ ہے سائیں" فیروز کی پھر زبان پھسلی.
"واہ فیروز میاں واہ. یہ کہاں لکھا ہے کہ تم انسان سے امیدیں لگاتے ہو اور شکوے خدا سے کرتے ہو" پیر سائیں نے اسکی عقل پر افسوس کیا.
"سائیں میں دل سے نہیں کہا" فیروز بری طرح شرمندہ ہوا.
"جانتا ہوں تیرے دل و دماغ میں کیا کچھ چل رہا ہے. جو تیرے دل میں ہے بس اسی کو سنو. لیکن اک ذات پر یقین رکھو. جو تیرے دل کی ہر بات سے واقف ہے. جو چاہتا ہے کہ تو صبر کرے تاکہ بدلے میں وہ تجھے بہترین سے نواز سکے" پیر سائیں نے فیروز کو ہلکے پھلکے انداز میں سمجھایا.
"پر سائیں...." فیروز نے سوال کرنا چاہا.
"پھر پر.... فیروز میاں زندگی کے فیصلوں میں نقطے اٹھانا بند کردو. یہ نقطے بعض اوقات کسی فیصلے پر نہیں پہنچنے دیتے. زندگی میں عقل کے دو نقطے بیکار ہیں. عشق کے پانچ نقطے بھی بے معنی، حسن کا ایک نقطہ بڑا بے رحم مگر دل بغیر نقطے کے ہے. اسکا فیصلہ سب پر بھاری ہے" فیروز خاموشی سے سنتا رہا.
"یہ باتیں شکوے شکایتوں کی نہیں ہیں ظرف ظرف کی ہیں. زندگی میں کٹھ پتلی کی مانند ناچنے سے بہتر ہے کہ کنارہ کشی اختیار کر لی جائے. دکھ درد تو زندگی سے کبھی ختم نہیں ہونے.
دکھ درداں دا توڑ وی کوئی نئیں
اگ پانی دا جوڑ وی کوئی نئیں
چنگا ہووے تے ہکو کافی
"بلھیا"
بہتے یاراں دی لوڑ وی کوئی نئیں (بابا بلھے شاہ)"
پیر سائیں فیروز سے کہہ کر سڑک پر چکر لگانے لگے. جیسے کسی کے منتظر ہوں.
...........................................
"ککک.....کیا مطلب" زوار نے پریشانی سے اسکا ہاتھ تھام لیا.
"میرا مطلب یہ ہے کہ ایک بری خبر ہے اور ایک اچھی خبر" خاور نے مسکرا کر زوار کو جواب دیا.
"بھائی آپ پلیز ادھر آئیں اور مجھے تفصیل سے بتائیں" زوار خاور کو لیے صوفے کی طرف بڑھ گیا. پیچھے کھڑی نازنین کا غصے سے برا حال تھا. اسکی کوئی چال کامیاب نہیں ہو رہی تھی.
"اچھی خبر یہ ہے کہ بچے سیف ہیں" خاور نے آرام سے بیٹھ کر کہا.
"اور بری خبر کیا ہے" زوار سے پہلے نازنین نے پوچھا.
"بری خبر یہ ہے کہ بچے کچھ زیادہ ہی سیف ہیں" خاور نے اس دوران نازنین کو مکمل اگنور کیا ہوا تھا.
"سی....دھے.... سی.... دھے.....بتائیں..خا...و...ر...بھا...ئی..." نازنین نے الفاظ کو چبا چبا کر کہا.
"تو سنو.....اچھی طرح سنو....کان کھول کر سنو" خاور نازنین کے سامنے کھڑا ہوگیا. زوار ان دونوں کو حیرانی سے دیکھ رہا تھا.
"زوار...کے...بچے...تمہارے...بچے...کے....ساتھ....ہاسٹل...پڑھنے...بھیج...دیے...ہیں...میں...نے" خاور نے مسکراتی نظروں سے اسے دیکھا اور اسی کی زبان میں کرارا سا جواب دیا.
"مم...میرا فرہاد...." نازنین اچانک شاک میں چلی گئی.
"ہاں تمہارا فرہاد... کہاں تمہاری جیسی عورت کے زیر اثر پرورش پاتا. تو میں نے سوچا کہ اسکا تو بھلا کردوں. میری تو تم تینوں سے لڑائی ہے. جہانگیر، فہد اور نازنین" خاور نے انگلیوں پر گنتے ہوئے نازنین سے کہا.
"بہت اچھا کیا آپ نے. کم سے کم وہ اس سارے فساد سے تو پیچھے رہیں گے" زوار نازنین کو پیچھے دھکیل کر خاور کے گلے لگ کر خوشی سے بولا.
"اور نہیں تو کیا" خاور نے پیار سے زوار کے بال بگاڑے.
"اور...ز...و...ا...ر..." خاور اونچی آواز میں بولنے لگا.
"اس بار میں نے خرم جیسے بندے کا بالکل بھی انتخاب نہیں کیا. بڑے تگڑے بندے کو بچوں کی حفاظت پر مامور کیا ہے" خاور کہہ تو زوار سے رہا تھا مگر اسکی نظریں مسلسل نازنین پر تھیں.
"جتنی مرضی چالیں چل لو. ہمیں لڑانے کی کوشش کرلو. اس بار تمہیں تمہارے طریقے سے ہراوں گا" خاور دل ہی دل میں نازنین سے کہہ رہا تھا.
"تم بھول کیسے گئیں کہ ہم کون ہیں. اب ہم تمہیں بتائیں گے کہ ہم کون ہیں" خاور نے اپنی ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کرتے من ہی من مسکراتے ہوئے سوچا.
"زوار کے بچوں کی پرورش میں نے اپنے ہاتھوں سے کی ہے. مشکل سے مشکل وقت میں بھی وہ اپنے لیے راستے تلاش کر ہی لیتے ہیں. درانی بے شک ہمارا رائیول ہے. لیکن انسانیت اس میں بہت ہے. وہ بچوں کی حفاظت ضرور کرے گا"
...........................................
"چلو....چلو.....چلو"
"میں نہیں جانا"
"چلو....چلو..."
"میں نہیں جانا"
"چلو..."
"میں نہیں جانا"
"چلو بھی... کیا مسلہ ہے. زیادہ نخرے مت دکھاو. اچھی بچی بن کر چلتی رہو" مارتھا کے نخروں پر تینوں بچے اسے دھکیلتے ہوئے گاڑی کی طرف لا رہے تھے.
"نہیں میں نہیں" مارتھا نے بچوں سے ہاتھ چھڑاتے ہوئے کہا.
"کیوں آپ نہیں. آپ نے ہی تو درانی انکل کو ہمارے گھر کا راستہ دکھایا تھا" عارب نے اسکا بازو پکڑ کر کہا. "اب آدھے رستے ہی ہمیں تنہا چھوڑ کر بھاگ رہی ہیں"
"زیادہ مت بنو تم بچہ پارٹی" مارتھا بے بسی سے چیختے ہوئے بولی.
"مارتھا کھڑوس مت بنو" قانیتہ نے غصے سے کہا.
"میں کہتی ہوں ایک بار سوچ لو" مارتھا نے انکی منت کی.
"ہا ہا ہا. ویری فنی اتنی تم فہد مصطفی" سنعان نے مارتھا کی بات کو ہنسی میں اڑا دیا.
"مارتھا نخرے کرنے کی ضرورت نہیں" قانیتہ اور عارب اسکے دائیں بائیں کھڑے تھے. سنعان پیچھے سے اسے دھکیل رہا تھا. کچھ یاد آنے پر مارتھا پیچھے مڑی.
"تم بچوں کے کب سے دشمن پیدا ہو گئے. اندر جھوٹ کیوں بولا" مارتھا نے اس سب سے پوچھا.
"میرے پاپا کے بزنس میں کچھ پرابلم ہیں اسی وجہ سے پاپا ماما کو ان سے چھپنا پڑ رہا ہوگا" عارب نے منہ بنا کر کہا.
"ہاں اور تم لوگ یہاں چھپے بیٹھے ہو" مارتھا نے عارب کو پیچھے کر کے کہا.
"چھپ کر نہیں بیٹھے. میرے پاپا کے دشمنوں نے اپنے حصے کی چالیں چل لی ہیں. اب ہماری باری ہے. ہمارے منتظر رہیں وہ سب. کہانی ہم ہی ختم کریں گے" قانیتہ تنفر سے بولی. سکینہ کی باتیں اسکے زہن میں گردش کرنے لگی تھیں.
"گاڈ پر چھوڑ دو سب کچھ. کچھ معاملات اسی کے حل کرنے کے ہوتے ہیں" مارتھا نے اسکے سرخ چہرے پر نرمی سے ہاتھ پھیر کر کہا. "جہاں تک میں درانی صاحب کو سمجھی ہوں وہ آپکو تنہا نہیں چھوڑیں گے"
"صحیح کہہ رہی ہیں آپ. دنیا میں ابھی اچھے لوگ ختم نہیں ہوئے. ورنہ یہ رنگین دنیا ہے جہاں سفید خون اور کالے دل کے لوگ بستے ہیں" عارب مارتھا کو چھوڑ کر قانیتہ کے پاس آیا اور نرمی سے اسے گلے لگا لیا.
.....................................
"کتنی محبت اور دوستی ہے ان تینوں بچوں میں" احمد شاہ نے ان کے پیچھے آتے ہوئے ماہ پارہ سے کہا.
"اور مارتھا کو تو دیکھیں اتنی مشکل گھڑی میں بھی کیسے بچوں کا دل بہلا رہی ہے" ماہ پارہ کچھ زیادہ ہی سویٹ تھیں جو مارتھا کے گریز کو موج مستی سمجھ رہی تھیں.
"اسے ہی تو زندگی کہتے ہیں. جو لمحہ میسر ہے اسے جی لو. کل کی کسے خبر" احمد شاہ نے بچوں کی حرکتوں پر مسکراتے ہوئے جواب دیا.
"آپ نے ان آدمیوں کا کیا کیا ہے جو بچوں کے اردگرد پھر رہے تھے" ماہ پارہ نے پوچھا.
"انکا تو میں نے وہ حال کروایا ہے نسلیں یاد رکھیں گی" احمد شاہ کو پھر سے غصہ آنے لگا.
"آپ نے ان بچوں سے پوچھا کہ ان کے بزنس میں کون ان کو نقصان پہنچا رہا ہے" ماہ پارہ نے کچھ یاد آنے پر پوچھا.
"ضرورت ہی نہیں پڑی. آپ نے دیکھا نہیں تینوں بچے کیسے یک زبان بولے کم، چیخے زیادہ تھے. لگتا ہے کہ ان کو ہماری مد د کی ضرورت ہے" احمد شاہ نے یکدم اپنا فیصلہ سنایا.
"جیسے آپ کو ٹھیک لگے. سنیے آپ کو کیا لگتا ہے کہ ہمارے بچے انہیں ایکسپٹ کر لیں گے" ماہ پارہ نے احمد شاہ سے پوچھا.
"کر لیں گے. اور کیا وجہ ہے انکار کی. ہمارے کونسے دس بارہ بچے ہیں جو ان تینوں کے وہاں آنے پر گھر کو میدان جنگ بنالیں گے. ہارون اور حریم دونوں سمجھدار ہیں" احمد شاہ نے سجوہ سے کھیلتے ہوئے کہا.
"لیکن ماہ پارہ آپ مجھے بتائیں آپ ایکسپٹ کر لیں گی" احمد شاہ ماہ پارہ سے بولے.
"میں.... بھلا مجھے کیا اعتراض ہو سکتا ہے. اتنی پیارے بچوں کو تو میں اپنے پروں میں چھپا کر رکھوں" ماہ پارہ کے لہجے میں شیرینی ہی شیرینی تھی.
"لیکن آپ نے یہ کیوں پوچھا" ماہ پارہ نے شکوہ کیا.
"اس لیے کہ ہارون اور حریم کی طرف سے میں پرسکون ہوں. مگر ہمارا سب سے چھوٹا سپوت آپ کو چین لینے دے گا" احمد شاہ نے اپنی تیسری اولاد کا زکر کیا.
"میرا چھوٹا سپوٹ اس بچی جتنا ہی ہوگا. اچھا ہے دونوں بچے اکٹھے پل جائیں گے" ماہ پارہ بہت کچھ سوچے بیٹھی تھیں.
"اچھا جی آپ کو کیسے پتہ کہ یہ بچی دو ماہ کی ہی ہوگی" احمد شاہ نے ماہ پارہ سے پوچھا.
"آپ نے اسکی آنکھیں نہیں دیکھیں کتنی روشن ہیں. اپنی بڑی بڑی آنکھوں کو جیسے یہ کھول کر دیکھتی ہے. اسکا قد بھی لمبا ہے. وزن بھی ٹھیک ٹھاک ہے. یہ چھوٹے شاہ جتنی ہی ہو گی" ماہ پارہ کی الٹی سیدھی باتیں سن کر احمد شاہ کی ہنسی نکل گئی.
"مائی لوولی وائف. یہ بچی صرف دو دن کی ہے. بلکہ آج کی رات اسکی دوسری رات ہو گی. یہ کوئی دو ماہ کی بچی نہیں ہے" احمد شاہ کی بات سن کر ماہ پارہ نے حیرانی سے ایک بار انہیں دیکھا ایک بار سجوہ کو.
"اچھا...."
"جی جناب. اب آپکا بیٹا زرا جلدی دنیا میں آگیا ہے تو کیا کہا جا سکتا ہے. اپنے وقت پر آتا تو اسی بچی جتنا ہوتا" احمد شاہ نے چھوٹے بیٹے کے پری میچور ہونے کی طرف اشارہ کیا.
"کیا نا شاہ جی. آپ بچہ بچی کر رہے ہیں. انکے نام کیوں نہیں رکھ دیتے" ماہ پارہ نے بات بدل دی.
"وہ تو بابا جان ہی رکھیں گے. ان دونوں کے" احمد شاہ کچھ معاملوں میں بے بس تھے.
"لیٹس سی. انہوں نے کیا نام سوچے ہیں" ماہ پارہ نے گویا ہتھیار ڈال دیے.
"ایک آپ کی یہی بات مجھے بے حد پسند ہے. آپ کے انداز مجھے آپ پر فدا ہونے پر مجبور کر دیتے ہیں" احمد شاہ انکی جھکی نظریں دیکھ کر ان پر فدا ہو گئے.
"وہ کیا کہا ہے
اک اکھ دا مول سوا لکھ بلھیا
پورا یار تولاں تے کی بن سی...."
...................................
جاری ہے





"آ...لو"
"کون..... خرم کہاں ہے"
"آ...لو..میں...ہی خرم...ہوں" خرم نے آدھی زنانہ اور آدھی مردانہ آواز نکال کر بتایا.
"زلیل انسان پکوڑے نگل کر نہیں آواز نکلتی تیری" خاور ضبط کی انتہا پر تھا.
"ہاں کچھ کھانے مت دینا. بھوکے ہی مار دینا مجھے. غریب بندہ آخر جائے تو کہاں جائے" خرم نے روتے ہوئے دہائیاں دیں.
"ایک تو بندہ غریب نہ ہو. جس کام کیلیے آئے تھے پہلے وہ تو کر لیں. سالے کو پکوڑے کھانے کی فکر پڑ گئی" خاور کے دوسری بار صحیح اندازے پر خرم ٹھٹکا. یقیناََ اسکی نگرانی کی جا رہی تھی.
"کچھ کھا تو لوں. مرنا تھوڑی ہے." خرم نے دوبارہ پلیٹ پر جھکتے ہوئے کہا. "صبح ہی بس خالی پیٹ بھاگا پھر رہا ہوں"
"دیکھ درانی بچوں کو لیکر نکلنے والا ہوگا" خاور کو بچوں کی پروا تھی.
"کہیں نہیں جاتا لے کر" خرم نے تسلی سے کہا. "دو چار پکوڑے کھا لوں پھر نکلتا ہوں"
"خرمانی زلیل کمینے انسان یہاں پکوڑے کھانے آئے مرے تھے. بندہ بن جا اور جاکر اپنی ڈیوٹی پوری کر" خاور نے غراتے ہوئے کہا.
"اتنی ہی فکر ہو رہی ہے تو تو جا کر ڈیوٹی دے لے" خرم ڈھٹائی سے کہنے لگا.
"واہ واہ... پولیس آفیسر تو بنا تھا کہ میں... چل ایک منٹ میں اٹھ اور جاکر میرا کام کر...جلدی کر جلدی" خاور نے فون پر ہی اتنی جلدی کہا کہ خرم کو اٹھتے ہی بنی.
"نا تجھے اتنی فکر کیوں پڑ گئی ہے یکدم" خرم نے انگڑائی لیتے ہوئے پوچھا.
"اب تو میرا دماغ مت کھائیں. پہلے ہی نازنین جونک کی طرح ہمیں چمڑی پڑی ہے" خاور نے اسے ساری بات بتائی.
"میں نے تجھے پہلے ہی کہا تھا کہ صرف نازنین ہی ہمارے ہر کام میں ڈائن بنی گھومتی رہے گی. لیکن تجھے اس وقت میری بات سمجھ نہیں آئی تھی" خرم نے اسے لتاڑا.
"مجھے اندازہ نہیں تھا" خاور نے اپنی غلطی تسلیم کی.
"اچھا دو منٹ رک. میں پھر بات کرتا ہوں" دونوں بیک وقت بولے. پھر ہنسنے لگے.
"چل اب فون رکھتے ہیں" خاور نے مسکرا کر فون بند کیا. اور وقار کی طرف مڑا.
"خدا حافظ" خرم اپنی جیب میں فون رکھتا کانسٹیبل کی طرف دیکھنے لگا.
خرم اور خاورکو ایک ایک لیٹر دیا گیا جسے پڑھ کر انکی پوری ہستی ہل گئی.
..........................................
"شاہ زین پلیز اپنا منہ تو اندر کر لو" زینب نے ڈرائیو کرتے ہوئے شاہ زین کو کوئی تیسری بار کہا تھا.
"جج.....جی. آپ نے کچھ کہا" شاہ زین خیالوں سے باہر آیا.
"میں نے عرض کی تھی کہ باہر کیا ڈھونڈ رہے ہو. مسلسل باہر ہی دیکھے جارہے ہو. اور تمہاری زوجہ کا بھی یہی حال ہے" زینب کی بات سن کر وہ دونوں مسکرانے لگے.
"اس میں دانت نکالنے والی کیا بات ہے" زینب نے گاڑی کو اشارے پر روکتے ہوئے سر جھٹک کر کہا.
"بھابھی آپ تو ایسے کہہ رہی ہیں جیسے ہم چھوٹے سے بچے ہوں" وہ دونوں اب بھی مسکرائے جا رہے تھے.
"اور نہیں تو کیا. زمانہ جیسے بڑا اچھا ہے نا. یہاں تو نظر ملی، آنکھیں جھکیں اور ہم برباد والا حال ہے" زینب نے آنکھیں بنا کر دل پکڑ کر کہا.
"بھابھی....."
"پلیز نہ یار" فاطمہ اور شاہ زین شرمندہ ہوکر باری باری کہنے لگے.
"ٹھک....ٹھک....ٹھک"
"ٹھک....ٹھک....ٹھک"
"ٹھک....ٹھک....ٹھک" یکدم کسی کے شیشہ بجانے پر ان تینوں نے دل اچھل کر رہ گئے.
"یہ کون ہے بھئی" زینب نے سانسیں ہموار کرتے شیشہ نیچے کیا.
"دستک کا تسلسل مانگنے والے کی شدت کو ظاہر کرتا ہے. آ گئے منگتے. جائیں جاکر اس ٹریفک وارڈن سے نبٹیں" شاہ زین قہقہہ لگاتے ہوئے زینب سے کہا. جواباََ وہ اسے گھور کر باہر نکل گئی.
"آج اس وارڈن کی خیر نہیں" فاطمہ زینب کی عادتوں سے اچھے سے واقف تھی.
"لیکن بھابھی نے کیا کیا ہے آخر" شاہ زین ان دونوں کو باتیں کرتا دیکھ کر کہنے لگا.
"ڈب گئے پیار پریتاں پچھے
سدھراں موئیاں ریتاں پچھے
مہندی دے نال ہتھ زخمائے
بین لکے نئیں گیتاں پچھے
نال نمازاں بخشش نئیں جے
گل مکدی اے نیتاں پچھے"
"ہائے ہائے. کیا خوب کہی ہے" کسی نے چند اشعار پڑھ کر خود کو ہی داد دی. آواز سن کر فاطمہ اور شاہ زین کی جان نکل گئی. اس سے بچتے تو وہ ہاسپٹل سے بھاگے تھے. مگر کوئی ہاتھ دھو کر انکے پیچھے پڑ گیا تھا.
"جینا پہلے ہی تم دونوں کیلیے الجھن تھا اور تم خود کو مزید الجھنوں میں گھسیٹنے لگے" زینب کی طرف کی کھلی کھڑکی میں کسی کا ہلکا سا سایہ ابھرا. فاطمہ نے اپنے ساتھ بیٹھے شاہ زین کا بازو تھام لیا.
"آ...آپ جو کوئی بھی ہیں پلیز ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ دیں" شاہ زین نے اٹکتے ہوئے کہا.
"تین چیزیں لوگوں کو اتنی آسانی سے پسند نہیں آتیں. سچی باتیں، کٹھن راستے اور سیدھے لوگ" ایک ہنکارہ بھرا گیا.
"تو کہاں ہمیں سمجھ سکے گا. میں صرف اسکا زمہ دار ہوں جو میں کہتا ہوں یا کرتا ہوں نا کہ اسکا جو تم مجھے سمجھتے ہو" وہ اپنے مخصوص مسحور کرنے والے لہجے میں بولے.
"ہمیں آپکو سمجھنا بھی نہیں ہے" شاہ زین نے غصے سے کہا.
"جا جا بڑی بڑی باتیں نہ بنا. ہمیں سمجھنا تیرے بس کی بات ہی نہیں ہے. یا سوچ بلند کر یا پھر سوچنا چھوڑ دے. تیرا کچھ نہیں ہو سکتا. جس کو "میں" کی "ہوا" لگ جاتی ہے اسے نہ کوئی دعا لگتی ہے نہ کوئی دوا"
"آپ کہاں کے بادشاہ وزیر لگے ہیں جو ہمیں آپکا اتہ پتہ معلوم ہوگا" شاہ زین نے اپنے ڈر کو ظاہر کیے بغیر جی کڑا کر کہا.
"بادشاہ تو صرف "وقت" ہے باقی سب تو یونہی غرور ہی کرتے ہیں. شطرنج کا وزیر اور انسان کا ضمیر مر جائے تو سمجھ لو کہ کھیل ختم. تجھے کیا لگتا ہے کہ مجھے لہجے سمجھ نہیں آتے. اپنے الفاظ کو جیسے مرضی توڑ جوڑ لے" وہ جو کوئی بھی بزرگ تھے بڑے اعلی پائے کے تھے. شاہ زین اور فاطمہ اس بات کے معترف تھے.
"دیکھیے ہمیں کچھ نہیں سمجھنا. پلیز آپ...."
"ہاں یہی ٹھیک ہے تم دونوں کچھ نہ ہی سمجھو. کچھ نہ سمجھنا غلط سمجھنے سے تو بہتر ہی ہے. اب اپنی آنکھیں بھی کھول لے اور اپنے ارد گرد دیکھ. یہ میٹھے لہجے سب فریب ہیں" انہوں نے بھرپور لہجے میں کہا.
"آپ کیا کہتے رہتے ہیں. ہمیں ایک لفظ کی سمجھ نہیں آتی. ہمارے حال پر رحم کریں" فاطمہ اور شاہ زین نے ڈرتے ڈرتے کہا.
"حال پچھی دا نئیں......ویکھی دا ای. سوچاں وچ نہ گواچ. سوچ دا کیڑا اندرو اندری ٹُک جاندا اے" انہوں نے شاہ زین کی گہری سوچوں پر بند باندھا.
"چٹا رنگ تجھے زیب نہیں دیتا. اپنے پہناوے پر غور کر" پھر فاطمہ کے پہناوے پر چوٹ کی.
"چٹی چادر لا سُٹ کڑیے پہن فقیراں لوئی
چٹی چادر داغ لگیسی لوئی داغ نہ کوئی" ایک لوئی شاہ زین کے منہ پر مار کر وہ یکدم غائب ہو گئے.
"ہیلوووو...... کہاں کھو گئے تم دونوں. میری سمجھ میں نہیں آتا کہ منٹ منٹ بعد تم دونوں کو کیا ہو جاتا ہے" زینب کا چہرہ اچانک نمودار ہوا. حالت ان دونوں کی پہلے ہی بگڑی ہوئی تھی زینب کی اچانک اینٹری نے انکے رنگ سفید کر دیے.
"بب...بھابھی کیا آپ نے کچھ دیکھا ہے" شاہ زین نے اپنے ہاتھ میں لوئی کو دیکھتے ہوئے پوچھا.
"کسے... کون تھا یہاں...کیا کوئی آیا تھا" زینب نے اردگرد دیکھتے ہوئے پوچھا.
"آپ نے کچھ نہیں دیکھا" فاطمہ نے حیرانی سے پوچھا.
"نہیں.... کچھ نہیں دیکھا میں نے اور نہ ہی یہاں کوئی موجود ہے. اب اگر تم دونوں کی بکواس بند نہ ہوئی تو پورا زمانہ بہت کچھ دیکھے گا" زینب نے غصے سے کہا اور گاڑی اسٹارٹ کردی. پیچھے بیٹھے وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھتے رہ گئے.
.........................................
"خرم تو نے وہی پڑھا جو میں نے پڑھا" خاور نے پلٹ کر خرم کو فون کھڑکا دیا.
"میں نے صرف پڑھا ہی نہیں بہت کچھ دیکھا بھی ہے" کانسٹیبل کے موبائل میں گھسے خرم کی چیختی چنگھاڑتی آواز ابھری.
"کیا دیکھا" خاور نے حیرانی سے پوچھا.
"درانی نے میرے آدمیوں کا وہ حال کیا ہے جو آج تک ہم نے تھانے میں کسی مجرم کا نہ کیا ہو" خرم موبائل پر ایک ایک تصویر آگے کر رہا تھا ساتھ ساتھ خاور کو سنا رہا تھا.
"یار یہ سب چھوڑ... ہمارے آفس میں اسمگلنگ ہوتی رہی ہے یہ بات کیسے لیک ہو گئی." خاور کی نظروں کے سامنے جلال گردیزی کا جلال گھوم رہا تھا.
"تجھے صرف ایک بات لیک ہونے کا غم ستا رہا ہے. یہاں کھڑے کھڑے درانی کے بندے میرے آدمیوں پر لُک ڈال کر نکل گئے. بےچاروں کی ساری چمڑی جل گئی" خرم کی حالت زیادہ خراب تھی.
"یار ابی جان نے اب ہماری چمڑی ادھیڑ دینی ہے. اگر کل تفتیشی ٹیم کمپنی کا معائنہ کرنے پہنچ گئی" خاور اپنے رونے رو رہا تھا.
"اچھا بھلا میں اپنی زندگی میں سیٹ تھا. سالے کمینے یہ سب تیری وجہ سے ہو رہا ہے." خرم خاور کو لعن طعن کرنے لگا.
" پہلے زوار کے بچے لیکر آ. پھر جہاں مرضی جاکر سیٹ ہو جائیں. اچھا بھلا زوار کا بھرا پرا خاندان صرف تیری وجہ سے خراب ہو رہا ہے" خاور نے سختی سے کہہ کر فون رکھ دیا.
"بڑا سیٹ تھا. ہونہہ... مجھے اجاڑ کر گھر بسانے کی بات کر رہا ہے" خرم نے موبائل زمین پر مارا اور آگے چل پڑا. پیچھے بیچارا غریب کا بچہ کانسٹیبل اپنے ٹوٹے موبائل کے باقیات اکٹھے کرنے لگا.
..........................................
"آپ یہاں باہر کیوں بیٹھے ہیں؟" مدحت گردیزی سارے گھر میں جلال گردیزی کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر باہر چلی آئیں. باہر لان میں جلال گردیزی بیٹھے ہوئے تھے.
"ایک بےچینی سی لگی ہوئی ہے. نا جانے کیا ہونے والا ہے" جلال گردیزی نے تھکے ہارے لہجے میں کہا.
"فکر نہ کریں اللہ سب اچھی کرے گا" مدحت بیگم نے سب کچھ اپنے رب پر چھوڑا ہوا تھا اسی لیے پر سکون تھیں.
"ہاں مجھے بھی رب کے گھر یہی امید ہے" شام کے سائے گہرے سائے پر نظریں جمائے وہ بولے.
"رب امید نہیں یقین ہے. اللہ پر یقین رکھیے" مدحت بیگم گہرے سائے کی مانند گہری بات کہہ گئیں.
"زوار کے گھر اتنی تاریکی کیوں ہے" مدحت گردیزی نے خود ہی بات بدل دی.
"پتہ نہیں یہ لڑکا آخر کن چکروں میں ہے. ٹھیک سے بتاتا بھی تو نہیں. بیماری معلوم ہو تبھی علاج ممکن ہوتا ہے. اب ہمیں کیسے پتہ کہ اسے کیا تکلیف ہے" جلال گردیزی زوار کیلیے متفکر تھے.
"ابی جان یہ آپ کیلیے ایک لفافہ آیا ہے" سیما نے اچانک آکر انکے سامنے ایک اینویلپ کیا.
"یہ کیا ہے بھئی" انہوں نے سیما کے ہاتھ سے وہ لیٹر لیا. اور اسے کھولنے لگے.
"یہ.... یہ کیا ہے. آخر کس کی حرکت ہو سکتی ہے یہ" لیٹر ٹیبل پر پھینک کر وہ یکدم پھنکارے تھے.
"کیا کیا ہے" مدحت بیگم انکے غصے کو دیکھ کر لیٹر پڑھنے لگیں.
"کیا لکھا ہے اس میں" انہوں نے کہتے ہوئے وہ لیٹر پڑھا.
"آپ کی کمپنی میں اتنے عرصے سے منشیات کا کاروبار چلتا رہا ہے اور کسی کو کانوں کان خبر بھی نہیں ہوئی" لیٹر میں صاف صاف لکھا تھا کہ انکی کمپنی میں کل ایک ٹیم تلاشی لینے کیلیے آئے گی.
"کمپنی صرف میری نہیں رہی. درانی گروپ بھی اس میں حصہ دار ہے. اگر کچھ ایسا ویسا نکل آیا تو ہماری پوری دنیا کے سامنے کیا عزت رہ جائے گی" جلال گردیزی کا غصے اور حیرت کے مارے برا حال تھا.
"آپ کے سپوتوں کو اچھے سے علم ہوگا. اسی لیے ابھی تک گھر نہیں پہنچے" جلال گردیزی مٹھیاں بھینچے کھڑے تھے.
"صرف میرے سپوتوں کو ہی علم ہے یا زوار بھی جانتا ہے" مدحت گردیزی کی بات سن کر جلال گردیزی آندھیوں طوفان کی زد میں آگئے.
"زوار...." ان دونوں کے زہن میں صرف ایک ہی نام گردش کرنے لگا.
...............................................
"سر پورے گھر کی سیکیورٹی بڑھا دی ہے. اور کوئی حکم" وقار تابعداری سے خاور کے سامنے کھڑا ہو گیا.
"وقار جو جہاں پڑا ہے اسے وہیں رہنے دو" خاور نازنین کے گھر کے لان میں چکر لگا رہا تھا.
"سر اسکی ضرورت نہیں پڑے گی. سب انتظام مکمل ہیں. آپ فکر نہ کریں" وقار نے اسے تسلی دی.
"ٹھیک ہے پھر... تم گھر پہنچو. میں بھی تھوڑی دیر میں آ رہا ہوں" خاور نے اسے جانے کا کہا اور خود اندر کی طرف مڑا.
"پہلے میں زرا نازنین کا انتظام کرلوں" خاور نے صوفے پر غصے سے بیٹھی نازنین کو دیکھ کر دل ہی دل میں کہا.
"چل بھائی تم تو اپنی بیوی کے پاس پہنچو. وہ انتظار کر رہی ہوگی" خاور نے صوفے پر نیم دراز زوار کی طرف ہاتھ بڑھایا. زوار نے حیرت سے اسکی طرف دیکھا.
"بھائی یہ تو پلان میں شامل نہیں تھا" زوار حیرت سے بولا.
"وقت کو دیکھتے ہوئے پلان بدلنے پڑتے ہیں" خاور سے نکالنے کو پھر رہا تھا اور وہ تھا کہ بحث کرنے لگا تھا.
"میری زندگی برباد کرکے یہ دونوں کتنی آسانی سے وقت اور پلان کی باتیں کر رہے ہیں" نازنین نے ان دونوں کو دیکھ کر منہ موڑ لیا.
"لیکن آپ یہاں اکیلے کیسے..." زوار اسکے بڑھے ہوئے ہاتھ کو تھام کر سیدھا کھڑا ہوکر کہنے لگا.
"اکیلے کیوں میں تمہیں نظر نہیں آرہی زوار...حد ہے ویسے" نازنین نے دل میں زوار سے کہا.
"میری جان میں تنہا کہاں ہوں. تم جاو. سندس ویٹ کر رہی ہوگی. پہلے ہی وہ اتنا زیادہ ڈری ہوئی تھی" خاور نے اسے تسلی دی.
"لیکن بھائی..." زوار تھوڑا سا پریشان تھا.
"بھائی بھی کہتے ہو اور بات بھی نہیں مانتے. کہہ تو رہا ہوں میں یہاں رک جاتا ہوں تمہیں صبح کورٹ بھی پہنچنا ہے نا. نکلو نکلو جلدی" خاور نے اسے زور دے کر جانے کو کہا اور اسے اپنی نگرانی میں ہی باہر چھوڑ کر آیا.
کورٹ مائی فٹ. اگر میرے بھائی یا شوہر کو کچھ بھی ہوا تو...تو میں نے ان دونوں کے گھرانے کی اینٹ سے اینٹ بجا دینی ہے. سمجھتے کیا ہیں خود کو" نازنین زور زور سے دروازہ کھٹکھٹاتے چیخ رہی تھی. وہ دونوں اسے لاک کرکے باہر نکلے تھے.
"اوہوہوہو....اتنا غم و غصہ. نازنین ڈیئرکبھی تو خود کو انسانوں کی کیٹیگری میں شمار کروایا کرو. ہمیشہ حیوانوں والی حرکتیں ضروری تو نہیں" خاور نے اندر آتے کہا.
"حیوان تو تم ہو. خاور گردیزی" نازنین کے کہنے کی دیر تھی خاور نے پیچھے مڑ کر اسے دروازے سے لگا دیا.
"بتاوں تمہیں کہ حیوان کسے کہتے ہیں" سرخ آنکھیں لیے خاور نے سختی سے پوچھا.
"ن...نن...نہیں..." خاور کے اتنے قریب کھڑے ہونے پر نازنین کی سانس خشک ہو گئی.
"معافی مانگو" خاور نے غصے سے چیخ کر کہا.
"سوری" نازنین نے آہستہ آواز سے کہا.
خاور نے اسے جھٹکے سے پیچھے ہٹایا اور آگے نکلنے لگا کہ نازنین نے اسکا بازو تھام لیا.
"خاور گردیزی مجھے صرف اتنا بتا دو میرا بیٹا کہاں کیا ہے" نازنین ناگن بنی پھنکاری.
"آئی واز ویٹنگ. قسم سے تمہارا یہ روپ دیکھنے کیلیے میں کب سے تڑپ رہا تھا" خاور اسکی ڈری سہمی اور غم و غصے سے ملی جلی حالت دیکھ کر بولا. پھر سر جھٹک کر کچن میں چلا گیا. "اس عورت پر تمیز ویسٹ ہے"
"مزے بعد میں لینا. پہلے مجھے میرے سوال کا جواب دو" نازنین اسکے پیچھے کچن میں بھاگی.
"تمہارے سوالوں کا ہی جواب دینے والا ہوں" خاور نے کچن میں موجود تمام گیس برنر آن کر دیے.
"یہ کیا کر رہے ہو" نازنین اسکے ارادے بھانپ کر اسکے سامنے کھڑی ہو گئی.
"آگ سے کھیلنے کا بہت شوق ہے نہ تمہیں. مجھے بھی بہت شوق ہے. آج مل کر کھیل کھیلتے ہیں" خاور نے اپنی جیب سے لائٹر نکالا.
"نن...نہیں...نہیں...خاور گردیزی تم ایسا نہیں کرسکتے" نازنین نے کرنٹ کھاتے ہوئے نفی میں سر ہلایا.
"میں تو حیوان ہوں کچھ بھی کر سکتا ہوں" خاور نے نازنین کی آنکھوں میں دیکھ کر لائٹر آن کر دیا.
"خاور ر ر ر گردیزی ی ی ی ی ی ی" دھماکے کی آواز میں نازنین کی آواز کہیں دور دب گئی.
...............................................
جاری ہے



No comments:

http://novelskhazana.blogspot.com/