انہی سوچوں میں دل اٹکا ہوا ہے
کہ میرِ کارواں بھٹکا ہوا ہے
کوئی انہونی ہو گی اب کے شاید
درِ دل پر سنو ! کھٹکا ہوا ہے
میں کیوں اس سے مصافحہ کر رہا ہوں
کہ جس نے ہاتھ یہ جھٹکا ہوا ہے
یہ دل چرخِ تمنا سے پھسل کر
غموں کی شاخ میں اٹکا ہوا ہے
ہر اک بندے کا اب احساس ارشد
صلیبِ وقت پر لٹکا ہوا ہے
ارشد محمود ارشد
No comments:
Post a Comment