Friday, July 20, 2018

یہ جنون منزل عشق ہے قسط 5


سط_05از فرحت نشاط مصطفےجیسے جیسے وقت آگے کو بڑھ رہا تھا تھا ایلاف کا دم نکل رہا تھا اس گودام نما ہال میں نہ کوئی بندہ تھا اور نہ کوئی اس کی ذات وہ چیخ چیخ کے بھی تھک چکی تھی " اے میرے مالک مجھ پہ رحم کر مجھ پہ اس آزمائش کا سایہ ختم کردے میں کہاں جاؤں گی یہاں سے میرا واحد ٹھکانہ ماموں کا گھر ہے ...اے میرے مالک اس سے پہلے کہ یہ ڈھلتی رات کے سائے میری روح میں اتر جائیں کوئی سبیل کردے میرے مالک اس بندی پہ رحم کر" ایلاف محو مناجات تھی وہاں بھلے کوئی اسکی پکار نہ سننے والے تھا مگر ایک ہستی ہے جو پاتال سے نکلی ہوئی پکار بھی سنتی ہے کیوں کہ وہ ہماری شہ رگ سےبھی قریب ہے______________________________" جی سائیں سوہنا کام ہوگیا ہے جیسا آپ نے کہا تھا بس آپ کا انتظار ہے " بخشو موبائل پہ بات کرتے ہوئے بولا" ارے بابا کرنے دو انتظار آخر ہم نے بھی تو بہت کیا ہے انتظار تو کچھ بدلہ ہم بھی اتاریں گے بلکہ سود سمیت ....اس سالیسے آرہا ہوں ملنے " خرم شاہ کے ایک ایک لفظ میں تنفر تھا رابطہ منقطع کر کے وہ اپنی بلیک پراڈو کی جانب بڑھ چکی تھا کسی کی نصیب کی سیاہی بڑھانے_____________________________"کیا بات ہے داد شاہ کیوں اس وقت آئے ہو" پیر اذلان شاہ گھڑی میں وقت دیکھتے ہوئے بولا" سوہنا سائیں مجھے معلوم ہے آپ ابھی جاگیر سے لوٹے ہو مگر کیا کروں بات ہی کچھ ایسی ہے " داد شاہ ادب سے بولا" ہاں ہاں کہو"اذلان نے اس کی ہمت بڑھائی" شاہ جی وہ جو فیکٹری کیلئے خام مال جاتا ہے اس کی فراہمی اب تک نہیں ہوئی "کیوں جاگیر سے تو کب کی لوڈنگ آچکی ہے فصل کی " اذلان شاہ سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے بولا" شاہ جی آ تو گئی ہے مگر آپ کی اجازت نہیں لی تھی اب اگر انہیں فوری سپلائی نہ ملی تو بے چارے مزدوروں کا کیا ہوگا چار دن سے کام بند ہے ان کی تو روزی روٹی پہ لات لگ گئی ہے" دادشاہ ساری تفصیل سناتے ہوئے بولا" گھاس تو نہیں کھا گئے ہو بابا جب فصل مل گئی تھی تو سپلائی کیوں نہ کی اب چلو اسی وقت سپلائی کروائیں ہم بابا تھوڑا مزدوروں کا بھی سوچو ...بتا دو ان لوگوں کو مال پہنچنے والا ہے وہ کام کی تیاری کریں" اذلان شاہ بولتے بولتے باہر کی جانب قدم بڑھا چکا تھاوہ اصولوں پہ مٹنے والا آدمی اتنی بڑی کوتاہی کیسے نظر انداز کر دیتا اس کی ایک اجازت ....نظر کرم کے طفیل نہ جانے کتنے گھروںکے چولہے جلنے کا وسیلہ تھا وہ خدا نے اسے وسیلہ بنایا تھا رکاوٹ نہیں" شاہ سائیں آپ آرام کرو ہم ہیں نا" داد شاہ کو اس کی تھکن کا احساس بھی تھا" ارے تم لوگوں سے اگر کچھ ہونا ہوتا تو پہلے ہی کرلیتے چلو اب جلدی اس سے پہلے کے گنے کی فصل زہر ہوجائے" اذلان شاہ نے اسے جھاڑا پلائی تو داد شاہ تیزی سے اس کے ہم قدم ہوکے گاڑی میں جا بیٹھاآخر کو سوال مزدوروں کا تھااورشاید ایک مزدور کی بیٹی کا بھی....!____________________________ویلکم ...ویلکم.مائی سویٹ بٹر فلائی آخر کو تم ہم تک پہنچ ہیگئیں ...گو کہ جگہ کچھ شایان شان نہیں ہمارے مگر تمہارے لائق یہ یقینا ہے تمہیں کیا لگا تھا پیر خرم شاہ سے پنگا لینا اتنا آسان ہے ..." اس اجنبی آواز پہ ایلاف نے جھٹکے سے سر اٹھا کے حیرانگی سے دیکھا تھاکون تھا وہ??جسے اس نے آج تک دیکھا ہی نہ تھا اور وہ شناسائی کے دعوے کر رہا تھااور پیر خرم شاہ کے قدم بھی جھٹکے سے رک گئے تھے" کون ہو تم " وہ حیرانی سے بولا" یہ سوال تو مجھے تم سے کرنا چاہئے کون ہو تم کیا چاہتے ہو تم کیوں لائے ہو تم مجھے یہاں آخر میرا قصور کیا ہے " ایلاف چٹخ کے بولی" بخشو" خرم نے دھاڑتے ہوئے اپنے وفادار کو آواز دی" جی شاہ جی"" کون ہے یہ کس کو اٹھا کے لے آئے ہو یہ راضیہ تو نہیں ہے" خرم شاہ غصے سے پاگل ہورہا تھااور ایلاف سن ہو کے رہ گئی تو یہ سارا فساد راضیہ کا لایا ہوا تھا اور یہ تو ہمیشہ ہوتا آیا تھا راضیہ کا پھیلایا ہوا گند اسےہی صاف کرنا پڑتا تھا" سائیں آپ نے جو نشانیاں بتائیں تھیں اور پھر اس کے گتے پہ بھی راضیہ لکھا ہوا تھا اب نقاب میں کون ہے کیا پتہ لگتا ہے" بخشو منمنایاایلاف کو سارا چکر اب سمجھ آرہا تھا راضیہ کا اس کا بیگ عبایایوں پانی میں ڈال دینا کالج سے غائب ہوجانااپنا فولڈر جو وہ ہمیشہ کالج لے کے جاتی تھی ایلاف کو دینا کیا پلاننگ کی تھی راضیہ نے ایلاف کو اچھی طرح معلوم تھا راضیہ کی سرگرمیوں کے بارے میں اور جب سے اس کے پاس موبائل آیا تھا تب سے تو اس کے اورپر نکل آئے تھے لڑکوں سے دوستی اور اپنے گروپ کے ساتھ بنک مار کے شالامار باغ جا کے فلرٹ کرنا راضیہ کو بے حد مرغوب تھا ایلاف دبے لفظوں میں اگر کچھ کہتی بھی تو راضیہ ناک پہ سے مکھی اڑا دیتی تھی اور مامی جو ایلاف کو آوارگی کے شاہانہ خطابات دیتیں تھیں ان پہ اگر کوئی پورا اترتا تھا تو بلاشبہ راضیہ ہیتھی مولوی طفیل کی پوتی کیا خوب ان کا نام روشن کررہی تھی ایلاف کو ساری خبریں تھیں اور پھر بھی وہ بے خبر رہ گئی اپنی آگ سے راضیہ نے ایلاف کا وجود بھسم کردیا تھا" جاہل ہو تم سب وہ دوٹکے کی لڑکی پیر خرم شاہ کو ایک بار پھر دھول چٹا گئی میں اسے چھوڑوں گا نہیں مگر اس کا کیاکروں " انگلی سے خرم نے ایلاف کی طرف اشارہ کیا" دیکھو مجھے جانے دو بلکہ گھر چھوڑ آؤ پلیز تمہیں نہیں معلوم ایک طوفان آجائے گا پہلے ہی بہت دیر ہوچکی ہے تم انہیں سب سچ بتا دینا خدا کیلئے میں نہیں جانتی راضیہ اور تمہارے بیچ کیا معاملہ ہے مگر خدا کیلئے مجھ پہ رحم کرو اگر یہ رات گزر گئی تو میرا جینا مشکل ہوجائے گا" ایلاف منت بھرےلہجے میں بولی" شاہ جی کرنا کیا ہے وہ چھوکری نہ سہی تو یہی سہی یہ تو اس سے بھی ذیادہ توپ شے لگ رہی ہے اسے بھی دیکھ لینا ابھی کیوں کفران نعمت کرتے ہو" بخشو کے الفاظ تھے یا بچھو کا ڈنگ ایلاف بے اختیار پیچھے ہوئی وہ جب ہوش میں آئی تھی تو نہ اس کا عبایا تھا نہ کالج بیگ یہاں تک کے وہ منحوس فولڈر بھی نہ تھا اپنے کالج یونیفارم کے دوپٹے کواس نے کچھ اور مضبوطی سے کسا تھا" دیکھو پلیز اس کی بکواس پہ دھیان نہ دو یہ اچھی بات نہیں ہے ایسی باتیں شریف آدمیوں کو ذیب نہیں دیتیں اور پھر میں تو تمہیں جانتی بھی نہیں میں نے کچھ بھی نہیں بگاڑا تمہارا" ایلاف روہانسی ہوتے ہوئے اسے بہلا رہی تھیخرم شاہ اس کے انداز پہ ہنس پڑا کمینگی سے اور بے باکی سے ایلاف کا جائزہ لینے لگا ہاتھ کے اشارے سے بخشو کو جانے کا اشارہ کیا" بگاڑا نہیں مگر تمہاری بات میرا ایمان ضرور بگاڑ رہیں ہیں جانتی نہیں ہو تو آج رات جان جاؤ گی ....تمہارا ٹھکانہ ہمارا دل ہوگا اب اور پھر راضیہ نہ سہی اس کی بہن ہی سہی بربادی کی داستان تو اس کے گھرانے کے مقدر میں ہے اب سو شروعات تم سے ہی" خرم اس کی طرف بڑھتے ہوئے بولا"نہیں ایسا نہیں کرو تمہیں خدا کا واسطہ مرد ہی رہو شیطان نہ بنو" ایلاف کی تو جان پہ ہی بن آئی تھی وہ تو جیتے جیتے ہیمرجائے گی آج تو لگتا تھا مامی کے سارے الزام سود سمیت سچے ہوجائیں گے" ہاں ہاں کرو منت چیخو گڑگڑاؤ ...یہاں یہاں کچھ تو ٹھنڈک پہنچے گی " خرم نے انگلی سے اپنے سینے کی سمت اشارہ کیاوہ اونچے شملے والوں کا بے تحاشہ دولت پہ میں پلنے والا وہ نوجوان تھا جس کی ابھی مسیں بھیگ رہیں تھیں مگر بدعادات نے اس کے اونچے شملے پہ سیاہ داغ لگا دئیے تھے راضیہ کے ساتھ بات جب تک تحفے تحائف اور زبانی کلامی تک تھی تو سب ٹھیک رہا مگر خرم شاہ کی فرمائش نے راضیہکے ہاتھوں کے طوطے اڑا دئیے تھے فلرٹ کرنا اور بات تھی اور اپنی عزت اپنے ہاتھوں سے لوٹانا ابھی مولوی طفیل کے خون کا اثر کچھ باقی تھا راضیہ میں اس نے جواب میں خرم شاہ کو کرارے تھپڑ اور لاتعداد باتوں سے نوازا تھا جو خرم شاہ کہ گرم خون اور جوانی پہ کھولتے ہوئے لاوے کا کام کرگیاتھا راضیہ کو اس نے دھمکی دی تھی کہ تین دن میں اگر وہاسے نہ ملی تو چوتھے دن وہ اسے اٹھا کے لے جائے گا یہ اسکیلئے کچھ مشکل نہ تھا اس کے پاس ایسے بہت سے پالتو تھے حقیقتا جن ہی کی وجہ سے وہ غلط صحبت میں پڑا تھا راضیہ جانتی تھی کہ خرم شاہ وہی کرے گا جو اس نے ٹھانی ہے اس لئے اس نے ایلاف کا انتخاب کیا تھا ایلاف اس کی کزن تھی اپنی ذہانت اور حسن کی وجہ سے ہر میدان میں اس سے بہت آگے اماں اکثر اس کی حرکتوں پہ کہتی تھی کہ وہ ایک دنافسرنی بن جائے گی اور راضیہ یوں ہی بھاٹی گیٹ کی گلیوں میں گھومتی پھرے گی یہاں تک کہ ثاقب جو اس کی خالہ کا بیٹا تھا وہ بھی ایلاف سے متاثر تھا راضیہ دل سے ثاقب کوپسند کرتی تھی اس کا باپ فوج میں کوارٹر ماسٹر تھا تعلیم.اس کی فری تھی ثاقب ذہین تھا اس کا مستقبل روشن تھا راضیہ کی آنکھوں میں اماں نے ثاقب کے خواب بڑے شوقسے سجائے تھے مگر ایلاف نے اس کے خواب توڑ دئیے تھے جب ثاقب نے اس سے کہا تھا" راضی تمہاری یہ کزن اتنی اچھی اور ذہین ہے میرا دل کرتا ہے اس سے شادی کر کے گھر لے جاؤں تب تو یہ مجھ سے باتکرے گی نا"اور راضیہ کے تو تلوے پہ لگی اور سر پہ بجھی تھی اب ایلاف اس کیلئے آنے والے رشتے بھی ہتھیائے گی جب بھی کوئی رشتے والی آتی تو ان کی نظروں میں ایلاف ہی آتی تھی گوری رنگت سبز آنکھیں سیاہ بال تیکھے نین نقش وہ مجسم خوبصورتی تھی اوپر سے اخلاق محلے بھر کے بچے اس سے ٹیوشن پڑھتے تھے اور ان کی مائیں بھی ایلاف کی مداح تھیں جھٹ سے ہر رشتہ ایلاف کیلئے مامی کے گوش گزار کردیتیں تھیںراضیہ کو قطعا پروا نہہیں ہوتی تھی مگر یہ ثاقب کا معاملہ تھا اور راضیہ کے اندر پلتا لاوا پھٹ چکا تھا اس نے مہارتسے سارے پتے سجائے تھے اسے یقین تھا کہ پیر خرم شاہ جیسا بھونرا ایلاف جیسی خوبصورت تتلی کو مسلنے میں وقت نہیں لگائے گا اور ایلاف وہ تو اس صدمے سے مر ہی جائے گی مرے گی نہیں تو کم ازکم اس در پہ واپس تو نہیں لوٹے گی" ڈئیر پہلے ہی بہت سا وقت برباد ہوچکا ہے آؤ اس وقت کو روک لیں مجھے کھوجنے دو اپنا آپ تمہاری ان سبز جھیل جیسی آنکھوں میں" خرم شاہ اس کی طرف قدم قدم آتا ہوا بول رہا تھا"الّله رحم اپنے حبیب کے صدقے اس حوا کی بیٹی پہ رحم کر" ایلاف دل کی گہرائیوں سے گڑگڑائیاور جب کوئی اسے اتنی شدت اتنی چاہت سے پکارتا ہے تو اسے جواب ضرور ملتا ہے خدا بےنیاز ہے وہ سنتا ہے مظلوموں کی بیشک" سائیں غضب ہوگیا جلدی کچھ کریں پیر اذلان شاہ آگئے ہیں" بخشو دھاڑ سے دروازہ کھولتا ہوا بولا" کیا بک رہے ہو ماما سائیں اور یہاں وہ تو جاگیر میں تھے اور اس وقت گودام میں " خرم شاہ کی ساری فرعونیت رخصت ہوچکی تھیماتھے پہ پسینے کی بوندیں پھوٹ آئیں تھیں اور ایلاف کو لگا خدا نے اسے مایوس نہیں کیاکوئی تو تھاجو اس کا نجات دہندہ بن کے آیا تھامگر کیاواقعی ایسا تھا ?????____________________________

No comments:

http://novelskhazana.blogspot.com/