Friday, July 20, 2018

یہ جنون منز ل عشق ہے قسط 6

زلِ_عشق_ہےقسط_06
از فرحت نشاط مصطفے

" کیا بکواس ہے ماما سائیں اور یہاں اس وقت وہ تو ایک ہفتے سے جاگیر میں تھے" خرم شاہ پریشانی سے بولا" پتا نہیں چھوٹے سائیں ابھی ابھی وہ اور ان کے لوگ مجھے دکھے ہیں میں تو فورا ادھر آگیا اب کیا کریں" بخشو بوکھلا کر بولا" چلو یہاں سے بعد میں دیکھتے ہیں اس سالی کو پہلے جا کےماما سائیں سے نپٹیں" خرم شاہ ماتھے پہ آیا پسینا پونچھتے ہوئے بولااور جو پیر اذلان شاہ کو پتہ چل گیا کہ اس نے ایک لڑکی کو محبوس کر رکھا ہے تو اذلان شاہ نے یقینا اس کی گردن اڑا دینی تھی اپنی عیاشیاں وہ صرف شہر تک ہی محدود رکھتا تھا جاگیر اور گھر میں اس کے کارناموں کی خبر کسی کو نہ تھی اور آج اگر یہ پول کھل گیا تو وہ خاندانی گدی سے تو جائے گاہی ساتھ میں پیر اذلان شاہ کی نظروں میں وہ ہمیشہ کیلئے جھک جائے گا وہ جانتا تھا اذلان شاہ اس کی یہ خطا کبھی نہیں معاف کرے گااذلان شاہ اپنی مخصوص با وقار چال چلتے ہوئے یقینا گودام کی طرف آرہا تھا ساتھ میں ہاتھ باندھے مودب سا داد شاہ بھیتھا گودام سے پہلے ایک کمرہ تھا جس میں مال اٹھانے والےسستا لیا کرتے تھے تین چارپائیوں اور ایک میز پہ مشتمل سامانتھا اس میں اذلان شاہ اور داد شاہ وہیں تھے جب خرم شاہ اور بخشو وہاں پہنچے" پیر خرم شاہ ....تم اور یہاں ......کیا بات ہے" اذلان شاہ حیرانگی سے بولا" وہ سائیں ....چھوٹے سرکار تو اکثر آتے رہتے ہیں مال کی صورت حال دیکھنے آج بھی اس لئے آئے ہیں" بخشو دانت نکالتے ہوئے بولا" ہمیں تو آج تک معلوم نہ ہوسکا کہ ہمارا بھانجا بھی ان امورمیں کچھ دلچسپی رکھتا ہے" اذلان شاہ بغور اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے بولا" کمال ہے ماما جی آخر کو یہ معاملات ہمیں ہی تو سنبھالنے ہیں.....مانا کہ ہم لاپروا ہیں پر اپنی ذمہ داریاں جانتے ہیں .....آپ یہاں کیسے اس وقت????" خرم شاہ کے منہ سے وہ سوال نکل ہی آیا جس کی کھد بد اسے لگی تھی" یہ سوال تو ہم بھی تم سے پوچھ سکتے ہیں ....اس وقت کونسی ذمہ داری یاد آگئی کہ تم یہاں چلے آئے ....ہم تو یہاں اپنے کام کیلئے آتے ہی رہتے ہیں ظاہر ہے ہماری اجازت کے بغیر کسی کو مال کیسے مل سکتا ہے" وہ پیر اذلان شاہ تھا کوئی دودھ پیتا بچہ نہیں تھا اسے مطمئن کرنا آسان نہ تھا اور خرم شاہ کو تو دانتوں تلے پسینہ ہی آگیا تھا" بس یوں ہی آج لیٹ یونی سے فارغ ہوا تھا بس سوچا....مالکی صورت حال دیکھ لوں ...ماما سائیں آپ جائیں میں کروا دوں گاسارا کام" خرم شاہ اٹک اٹک کے بولا" ہوں یہ بھی ٹھیک ہے " اذلان شاہ کے جواب نے خرم شاہ کی سانسیں بحال کی تھیں"یہ عبایا کس کا ہے اس زنانہ پہناوے کا یہاں کیا کام" وہ اذلان شاہ تھا اس کی عمیق نظروں نے عبایا تاڑ لیا تھا جو ایک چارپائی کے کونے میں پڑا ہوا تھا اور خرم شاہ کو لگا آج تو اس کی خیر نہیں" مم....میں کیا جانوں" وہ منمنایا اور اسی وقت دھپ دھپ اور ہلکی ہلکی چیخوں کی آواز پہ اذلان شاہ کے کان اور کھڑے ہوگئے تھے"پیر خرم شاہ .....تم اس وقت اذلان شاہ کے سامنے کھڑے ہو سیدھی طرح پورا قصہ سناؤ کونسا گل کھلانے آئے ہو یہاں" اذلان شاہ کڑے تیوروں سے اس سے مخاطب ہوا تھا" سائیں مجھے لگتا ہے گودام میں کوئی ہے میں دیکھوں جا کے پتہ نہیں کیا ماجرا ہے" داد شاہ کی آواز نے جلتی پہ تیل کا کام کیا تھا خرم شاہ نے اس کو گھور کے دیکھا تھا" ماما سائیں ....سیریسلی مجھے نہیں خبر یہاں کون لڑکی ہے کہاں سے آئی ہے" خرم شاہ کی تو جان ہی نکل رہی تھی آج اس کی رسی کس دی گئی تھی" پر ہم نے تو کسی لڑکی کا ذکر نہیں کیا اس کا مطلب ہے کسی لڑکی کے چکر میں ہو تم یہاں.....داد شاہ جا کے دیکھو کون ہے وہ " اذلان شاہ نے اسے حکم دیا" نالائق ....نفس کے غلام شرم تو نہیں آتی پیروں کے خاندان کا نام ڈبوتے ہوئے کب سے عیاشی کا اڈا بنا رکھا ہے یہاں" اذلان شاہ کا خون کھول کے رہ گیا تھا اس نے زناٹے دار تھپڑ خرمکو لگایا تھا اور خود گودام کی طرف اسے دھکیلتے ہوئے بڑھ گیا تھاایلاف اسے دیکھ کے کھڑی ہوگئی تھی اور خوفزدہ نظروں سےاسے دیکھنے لگی ان آنکھوں میں کیا تھاشکر گزاریامیدیا پھر بے یقینیاذلان شاہ سمجھ نہیں پایا درحقیقت اس نے ایلاف پہ نگاہ غلط بھی نہ ڈالی اس کیلئے وہ صرف اس کے بھانجے کی غلطی تھی جسے اس نے سدھارنا تھااورکبھی کبھی ہمیں دوسروں کی غلطیوں کے تاوان خود ادا کرنے پڑتے ہیں" کون ہیں آپ اور خرم کو کیسے جانتیں ہیں" اذلان شاہ سراپا سوال تھا" میں نہیں جانتی یہ کون ہے آپ کون ہیں آج سے پہلے میں نے کبھی ان کا نام بھی نہیں سنا مگر آپ کو خدا کا واسطہ مجھے گھر چھوڑ آئیں ورنہ میں جیتے جی مرجاؤں گی پہلے ہی بہت دیر ہوچکی ہے" ایلاف منت بھرے لہجے میں بولی" خرم شاہ تم اتنا گر جاؤگے ہم.نے سوچا بھی نہ تھا ...ہماراخون اتنا نیچ کام کیسے کرسکتا ہے??? کہاں سے لائے ہو اس لڑکی کو" اذلان نے جرح کرتے ہوئے کہاجواب میں خرم شاہ کے پاس حقیقت بتانے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا اذلان شاہ کو اس کا اصلی چہرہ معلوم ہوچکا تھا" لعنت ہے تم پر ایک عورت کیلئے اپنا اونچا شملہ داغدار کردیا....تمہارا فیصلہ تو بات میں کریں گے پہلے اس لڑکی کو داد شاہ گھر چھوڑ آؤ اور تم میرے ساتھ جاگیر چلو تمہارے ماں باپ کو بھی تو پتہ چلیں تمہارے کرتوت خاندانی دستار کے توقابل ہی نہیں ہو تم " اذلان شاہ کف اڑاتے ہوئے بولااس کی ملکیت اس کی جاگیر ایک بھیانک حرام کام کیلئے استعمالہونے چلی تھی یہ احساس ہی سوہان روح تھا" نہیں پلیز خدا کیلئے میری بات پہ کوئی یقین نہیں کرے گا انسانیت کے ناطے میری عزت کو برقرار رکھنے کیلئے آپ مجھے چھوڑ آئیں آپ ایک ذمہ دار آدمی حقیقت حال سے واقف ہیں جو ہوا انجانے میں ہوا مگر میری زندگی مشکل میں پڑ جائے گی" ایلاف ایسے جاتی تو مامی نے اسے گھر میں گھسنے ہی نہ دینا تھا ماموں پہ اسے یقین تھا کہ وہ اس کی بات سن لیں گے اس کا یقین کرلیں گے" اپنے چھوٹوں کا گند بڑوں کو کبھی صاف کرنا پڑتا ہے تم فکر نہ کرو بی بی داد شاہ عزت سے تمہیں چھوڑ آئے گا" اذلان شاہ اسے تسلی دیتا ہوا بولا" آپ سمجھ نہیں رہے ....کوئی میرا یقین نہیں کرے گا مجھے یہاں آئے شام ہوچلی ہے میرے تو ماں باپ بھی نہیں ہیں ماموں کا گھر میرا آخری ٹھکانہ ہے کوئی میرا یقین نہیں کرے گا" ایلاف رو پڑی تھی" اوہ...رونا بند کرو بی بی ایک تو یہ سسٹم ہمارا حادثہ تو کسی کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے چلو داد شاہ لے چلتے ہیں اسے" اذلان شاہ بادل نخواستہ بولاایلاف تشکر بھری نگاہوں سے اسے دیکھ کے رہ گئی ماموں سے وہ بات کرے گا تو اس کیلئے کوئی مسئلہ نہیں ہوگااذلان شاہ کی گاڑی میں پچھلی سیٹ کی طرف بیٹھتے ہوئے اس نے سوچا______________________________" گاڑی یہاں سے آگے نہیں جائے گی سائیں اب کیا کرنا ہے " ڈرائیور نے اسے کہالاہور کا تنگ علاقہ شروع ہوچکا تھا اب ان چھوٹی گلیوں میں اذلان شاہ کی بڑی گاڑی ٹرک کی مانند لگ رہی تھی"کتنا راستہ اور ہے بی بی " اذلان شاہ نے گم صم بیٹھی ایلاف کو مخاطب کیا" بس یہاں سے پانچ منٹ پیدل چلنا ہوگا" ہولے سے ایلاف بولی" سائیں آپ کیسے چلیں گے ہم چھوڑ آتے ہیں بی بی کو آپ کو مسئلہ ہوگا " داد شاہ کو ہمیشہ اس کی فکر رہتی تھی" داد شاہ مسئلہ ہے تو حل کرنا ہی پڑے گا چلو بی بی " جواب دیتے ہوئے ایلاف کو اترنے کا اشارہ کیاایلاف اتنا تو جان گئی تھی کہ مقابل کوئی معمولی آدمی نہیں اس کی شخصیت جس کے سامنے خرم شاہ بھی پانی پانی ہوگیا تھا اور پھر یہ شاندار سی گاڑی جس کا نام بھی ایلاف نہ جانتی تھی ایسے شخص کے تو خوابوں سے بھی یہ علاقہ نہ گزرا ہوگا مگر اب وہ بنفس نفیس یہاں تھا ایلاف کو اپناپندار اپنی عزت بہت پیاری تھی اسے اگر اس شخص کی منت بھی کرنی پڑتی تو وہ کرتی وہی ایک واقف حال تھا اس کی بے گناہی کاچھوٹے چھوٹے مضبوط قدم اٹھاتے وہ اس کے ساتھ احتیاط سے ناک کی سیدھ میں چل رہا تھا پیچھے اس کے ملازم تھے جن کے ہاتھ میں سرچ لائٹ تھی رات کے وقت اس علاقے میں روشنی نہ ہونے کے برابر تھی ایلاف مرے مرے قدموں سے چل رہی تھی اسے اندازہ تھا مامی نے کوئی ڈرامہ تیار کر رکھا ہوگا مگر مامی تو اس کی سوچ سے بھی بڑھ کے نکلیں تھیں آخر کو آج کے ڈرامے کی ساری کہانی اور ہدایتکاری راضیہ کے سر تھی گھر پہنچنے سے پہلے ہی دروازے کے باہر بھیڑ لگی ہوئی تھی کاموں سے آئے ہوئے تھکے ہارے مردوں کیلئے آج کی رات مامی نے خوب اہتمام کیا تھا عورتیں بغل میں اپنے بچے دبائے کبھی دروازے سے جھانک کےیا پھر اپنے گھر کی دیوار سے ہی جھانک کے پوچھ لیتیں " ہائے ایلاف اب تک نہ آئی ..توبہ توبہ کیا زمانہ آگیا ہے" یہ فقرہ تو سب ہی بولتیں تھیں" ماموں " ایلاف تیزی سے آگے منظور کی طرف بڑھی تھی اسپورے مجمعے میں وہ ہی اس کی ڈھال تھا" آگئی منحوس ماری....منہ کالا کر کے واہ لوگوں ڈھٹائی دیکھواس بے غیرت کی یار کو بھی ساتھ لائی ہے ....ہائے ہائے میرے جنت مکانی سسر مولوی طفیل کی عزت کو کیا بٹہ لگا ہے " نازو مامی کو تو آج موقعہ مل گیا تھا" مامی خدا کیلئے آپ کیسی باتیں کررہیں ہیں ایک حادثہ ہوگیا تھایہ گواہ ہیں اس کے" انگلی سے اذلان شاہ کی طرف اشارہ کیا" حادثہ ....خوب خوب اری یہ چونڈا میں نے دھوپ میں سفید نہیں کیا زرینہ کی اولاد اس پہ نہ جائے ہو ہی نہیں سکتا اپنی ماں کی طرح تونے بھی راستے میں کھڑا مرد پسند کرلیا بس تیری ماں مزدور پہ ریجھ گئی اور تو اس سے دو قدم آگے ہی نکلی " مامی نے اس دھکا دیتا ہوے صحن میں پھینک دیا تھا" خاتون برائے مہربانی فالتو الزام تراشی نہ کریں ان بی بی کے ماموں کہاں ہیں ان سے بات کرنی ہے مجھے" اذلان شاہ ناگواریسے بولا" کیا بات کرنی ہے ....ابھی دل نہیں بھرا تھا تو مت لاتے اسے جب بھر جاتا تو چھوڑ جاتے حادثہ کونسا حادثہ نہ تیرا بیگ ہے نہ برقعہ ....خیر اب اس تکلف کی ضرورت بھی نہیں ہے دفعہ ہوجا یہاں سے تیری وجہ سے میری بچہ پہ بھی نحوست پڑے گی" مامی نے پھر اس دو تھپڑ لگائے تھے" خدا کیلئے مامی یہ سارا عذاب راضیہ کا ہی لایا ہوا ہے میں اس کی وجہ سے پھنسی ہوں ماموں آپ کو خدا کا واسطہ ایک بار سچ سن لیں میں نے کچھ نہیں کیا یہ سب جھوٹ ہے" ایلاف نے منظور کا شانہ ہلایا جو کسی مجسمے کی طرح سر جھکائے بیٹھا تھا بالکل اسی طرح جب زرینہ نے اپنی من مانی کرتے ہوئے اپنا فیصلہ سنایا تھا" حد ہوتی ہے ایلاف میں بیچ میں کہاں سے آگئی میں تو تمہیں سمجھا سمجھا کے تھک گئی تھی پر پتہ نہیں کونسا بھوت چڑھا ہوا تھا اسے منع بھی کیا تھا آج کالج نہ جاؤ خالہ آرہی ہیں تمہیں انگوٹھی پہنانے مگر نہیں ان لمبی گاڑیوں والے کے سامنے اسے بے چارا ثاقب نظر ہی نہ آیا اور وہ سمجھتا رہا ایلاف شرماتی ہے اس سے ہوں..." راضیہ تو دھڑلے سے آج جھوٹ کے ریکارڈ قائم کررہی تھیایلاف نے جھٹکے سے سر اٹھایا تو ثاقب بھی تھا یہاں جس کی آنکھیں ایلاف کو دیکھ کے اور روشن ہوجاتیں تھیں ایلاف جبکہ ادھر ادھر ہوجاتی تھی وہ ان باتوں کی متحمل ہی نہیں ہوسکتی تھی اور آج رسوائیوں سے دامن بھر گیا تھاسب اسے ہی دیکھ رہے تھے" توبہ توبہ ہم اپنی بچیاں اس کے پاس بھیجتے رہے کیا کیا سکھا دیا ہوگا ہماری معصوم بچیوں کو اس نے "" اری بہن اتنی معصوم شکل والی اور کارنامے تو دیکھو"" چلو بھئی آج تو پول کھل گئی اس کی نہ جانے کب سے چل رہا تھا یہ سب"وہ سب سنگ باری کر رہے تھے لفظوں کی گندے بدبو دار سڑے ہوئے لفظوں کی جنہوں نے کبھی ایلاف کو سر آنکھوں پہ بٹھایا تھا ایلاف مرنے لگی تھی یہ سب سن کے اس کاواحد اثاثہ اس کی عزت ...اس کی خودداری سب ختم ہورہا تھا ڈوبرہا تھا لفظوں کی سنگ باریمیں وہ کس طرح سے کروں بیاںجو کئے گئے ہیں ستم یہاںسنے کون میری یہ داستانکوئی ہم نشین ہے نہ راز داںجو تھا جھوٹ وہ بنا سچ یہاںایلاف نے سب کو دیکھا جو چپ تھے انکی نظریں چھلنی کررہی تھیں اور جو بول رہے تھے وہ مار رہے تھے گھائل کر رہے تھے ثاقب کی آنکھوں میں بھی بے اعتباری تھی ایلاف کو چنداں پروا نہ تھی مگر ماموں کی خاموشی اسے مار رہی تھی" ماموں آپ بولتے کیوں نہیں خدا کیلئے کچھ تو بولیں بتائیں انہیں ایلاف ایسی نہیں پلیز آپ بتائیں نہ اصل بات" وہ بیک وقت دونوں سے مخاطب ہوئی" کیا کہوں ایلاف جب میں جانتا ہی نہیں تجھے تو جب چلی گئیتھی تو واپس کیوں آئی میں صبر کرلیتا اب کیا کروں تو لوٹ آئی ہے تو اب بتا کیا کروں" ماموں منظور کے الفاظ تھے یا صور ایلاف پھٹی پھٹی نگاہوں سے دیکھ کے رہ گئی" ماموں آپ بھی" ایلاف کے منہ سے یہی نکلا تھا" ایلاف تجھ پہ بھروسہ کیا تھا راضیہ سے بڑھ کے چاہا تجھے تو نے کیا کیا " منظور کے ایک ایک لفظ میں دکھ تھا" ماموں راضیہ ہی....." ابھی بات لبوں میں ہی تھی کہ مامی نے جھٹکے سے اسے ماموں کے پاس سے بالوں سے پہڑ کے گھسیٹا تھا" نی مرجانیے ...اب تو اپنا گند میری دھی کے سر تھوپے گی نیمنظور کر اس کا فیصلہ مجھے اب یہ برداشت نہیں چوری کے باوجود کتنی ڈھٹائی سے نام لے رہی ہے میری بچی کا" مامی کا بس ہی نہ چل رہا تھا اسے کچا چبا جائے" بس کریں آپ لوگ بات یہ نہیں ہے جو آپ سمجھ رہے ہیں " اذلان شاہ ابھی بولنا شروع ہوا تھا کہ اس کی بات منظور نے کاٹ دی تھی" ہم تنگ اور چھوٹی گلیوں میں رہنے والوں کی سوچ بھی چھوٹی ہوتی ہے مائی باپ یہ لڑکی تمہارے ساتھ تھی کیا کررہی تھی اور کس حادثے کی بات کر رہے ہو تم لوگ جب کہیہ بالکل ٹھیک دکھ رہی ہے ....فیصلہ صاف ہے راضی کی ماں اب اس کو نکاح کرنا پڑے گا ایلاف سے" منظور ماموں فیصلہ کن لہجے میں بولا" کیا" اذلان شاہ کا دماغ بھک سے اڑ گیا تھا وہ اتنی دیر سے یہ ساری صورتحال دیکھ رہا تھا ایلاف نے ٹھیک ہی کہا تھاوہ اس کی بات نہیں سنیں گے مگر وہ تو اذلان شاہ کی بھی نہیں سن رہے تھے اس لا بھی یقین نہیں کر رہے تھے" ہوں نکاح ....نکاح ہی کرنا ہوتا تو یوں ہمارے منہ پہ کالک کیوں ملتے یہ دونوں ارے یہ نہیں بسانے والا ...بسانے والے یوں منہ چھپا کے نہیں آتے رات کی تاریکی میں" مامی کو آگ ہی لگ گئیتھی" نکاح تو کرنا ہی پڑے گا کیوں کہ اب ایلاف یہاں نہیں رہ سکتیایلاف کا نکاح ہوگا چاہے کوئی بھی کرے" منظور دھیرے سے بولا" ارے گھر کا گند گھر والے ہی صاف کرتے ہیں قادر ماموں ہیں نا بیچارا وہ کرلے گا اس سے شادی ڈھانپ دے گا اپنے نام سے اس کے بے عزت وجود کو" راضیہ اسے زندہ قبر میں اتارنے کا تہیہ کر چکی تھی دل میں ڈر بھی تھا کہیں ثاقب کو ہی جوش نہ آجائے اس لئے ماں کو خیال دلایا" کیوں کروں میں کسی سے بھی نکاح کیا قصور ہے میرا ہاں جب میں نے کچھ کیا نہیں تو سزا کیوں مل رہی ہے خدا جانتا ہے کہ میں بے گناہ ہوں مجھے نہیں چاہئے کسی کی گواہی نہیں رہنا مجھے یہاں چلی جاؤں گی کہیں بھی پیر صاحب آپ کی گواہی بھی کسی کام کی نہیں جائیں آپ یہاں سے آپ کے عزیز کی غلطی کی سزا مجھے بھگتنی ہے جائیں آپ " ایلاف پھٹ ہی پڑی تھیکیا سمجھ رہت تھے وہ لوگ اسے بھیڑ بکری کی طرح اسے اس کھونٹے سے باندھ رہے تھے جو ایلاف کی ماں نے بھیٹھکرادیا تھا قادر بخش کی تو لارٹری ہی لگ آئی تھی زرینہ نہ سہی اس کی بیٹی آج تک زرینہ پھانس بن کے اس کےسینے میں چبھتی تھی کیا مداوا ہوگا زرینہ کی بیٹی سے اس کی شادی" ہاں ہاں لگتا ہے کوئی اور بھی ہے نظر میں ہماری شرافت دیکھو اب بھی اسے اپنی عزت بنانا چاہتے ہیں اور یہ ....لگتا ہے اور بھی ہیں ....بتا بے شرم کتنوں سے یاری ہے تیری ....جا دفعا ہوجا" مامی نے اس بے نقط سنائی تھیایلاف کا دوپٹہ نہ جانے کہاں تھا بال بکھر چکے تھے اس کی ایک جھلک نہ دیکھنے والے آج اسے یوں دیکھ رہے تھے بولی لگ رہی تھی اس کی ایلاف کو لگا زندگی اس سے بھیانک ہو نہیں سکتی" نہیں پیر صاحب آپ یوں نہیں جا سکتے اپنا فیصلہ سناؤ ہاں کرو یا ناں مرد بن کے اس کے وکیل بن کے آئے ہو تو فیصلہ لے کے ہی جاؤ میں بھی دیکھوں پیروں کا دم خم" منظور کے دماغ میں خدا معلوم کیا چل رہا تھااذلان شاہ کا خون کھول اٹھا تھا اس کی نفاست پسند طبیعتپہ یہ تماشہ یوں بھی گراں گزر رہا تھا مگر وہ اس قصے کو چھوڑ بھی نہیں سکتا تھا لہ بہرحال ذیادتی اس کے گھرانے کی طرف سے ہوئی تھی" خرم شاہ کو فون لگاؤ" ایک فیصلے پہ پہنچ کے اذلان شاہ نےداد شاہ کو حکم. دیا" سائیں نمبر نہیں مل رہا لوکیشن نہیں مل رہی" داد شاہ کافی دیر سے نمبر ملا رہا تھا" مجھے بخش دیں آپ لوگ میں نے اپنا معاملہ خدا پہ چھوڑا ماموں مجھے معلوم ہوتا کہ آپ بھی مجھے نہیں سمجھیں گے تو میں لوٹ کے ہی نہ آتی مرجاتی کہیں میرے لئے کسی کے نام کی بھیک نہ مانگیں میرا ضمیر مطمئن ہے " ایلاف رو رو کے تھک چکی تھی یہ لوگ اسے کبھی نہیں بخشیں گے وہ کیوں ایسے کام کا انجام بھگتے جو اس نے کیا ہی نہیں" چل نی دفعہ ہو اندر دس منٹ میں بتا مجھے منظور کہاں دفعہ کروں اسے ورنہ گیارہواں منٹ اچھا نہیں ہوگا تیرے باپ کی روح کیلئے " مامی نے طیش میں آکے اسے ایک بار پھر دھکا دیا سب تماشہ دیکھ رہے تھے کوئی آگے نا بڑھا تھا اسے بچانےاذلان شاہ نے یہ منظر دیکھا اور کسی فیصلے پہ پہنچ گیا" میں تیار ہوں ایلاف سے نکاح کرنے کیلئے " اپنی سیاہ چادر سے اس کا وجود ڈھانپتے ہوئے اذلان شاہ نے اسے اپنی نام کی پناہ دینے کا اعلان کیا تھا" کبھی نہیں آج جو ہو اس میں آپ بھی شریک ہیں کبھی نہیںکروں گی میں یہ نکاح کیوں کروں ساری زندگی میری برباد کردی آپ لوگوں نے" ایلاف انکاری تھیکیوں کریں وہ ایسے شخص سے شادی ساری زندگی سر جھکا رہے گا اس کا سر اٹھا کے چلنے والی ایلاف کیلئے یہ جھٹکے بہت شدید تھے" پاگل نہ بنو ایلاف یہ لوگ تمہیں ہر قیمت پہ سولی چڑھائیں گے اس سے نہءں کروگی تو پھر قادر بخش کے ہتھے ہی چڑھوگی روز روز مرنے سے بہتر ہے ایک بار ہی مار جاؤ ....یہ آدمی قادر سے بہتر ہی ایلاف ہوش کرو تمہیں اب کوئییہاں کا قبول نہیں کرے گا " رابعہ باجی نہ جانے کب وہاں آئیں تھیں ایلاف ان سے پڑھائی میں مدد لیتی تھی اکثر" رابعہ ....باجی" ایلاف کےحلق میں آنسوؤں کا گولہ اٹکا" میری جان خدا کی آزمائشیں ہیں واویلا نہ مچاؤ کیا پتہ یہ آدمی تمہارا درد گر ہوجائے " رابعہ باجی واحد تھیں جو اسے تسلی دے رہیں تھیں اس کا یقین کررہیں تھیںمامی اور راضیہ شاکڈ تھیں اذلان شاہ کے اقرار کے بعد سے قادر بخش بل کھا کے رہ گیا تھا وہ اب بے بس تھے اذلان شاہ اکیلا نہ تھا ساتھ اس کے باڈی مین اور پھر وہ کیا بساط رکھتا تھا ان کے آگےنکاح خواں کب آیا کب نکاح ہوا اسے پتہ ہی نہ چلا مولوی اس کی رضا مندی معلوم کررہا تھا" ایلاف محبوب ولد محبوب خان آپ کو پیر اذلان شاہ ولد پیر سلطان شاہ کے نکاح میں بعوض پانچ لاکھ حق مہر دیا جاتا ہے ....قبول ہے"" قبول ہے ......یہ نکاح میری عزت نفس کے عوض ہوا.....قبول ہے.....یہ نکاح میرے اپنوں کے مان ٹوٹنے کی امید پہ ہوا.....قبول ہے ....یہ نکاح میری عزت کے جنازے کے عوض ہوا" ایلاف اقرار کرتےہوئے سوچ رہی تھی______________________________صرف کچھ پل لگے اور ایلاف محبوب کی زندگی کا نقشہ ہی بدل گیا وہ ایلاف جسے خوب پڑھنا تھا اسے زندگی نے کیا سبق دیا تھاوہ ایلاف جس کے خواب تھے پڑھ لکھ کے معاشرے میں ایک نام بنانے کے اپنی پہچان کا جنون ....اکنامکس..معیشت کا دھارا بدلنے کا جنون تھا ....اس کی اپنی زندگی کا دھارا بدل گیا تھاکیا سوچا تھااورہوا کیااب وہ ایلاف اذلان شاہ تھی بظاہر ایک مضبوط رشتے سے مگر یہکتنا کچا تھا دونوں فریقین جانتے تھےاس نے صرف مدد کرنی چاہی تھی اور ہوا کیا تھا کیا صلہ ملا ایلاف کو اس کی نیکی کاکیسی دلہن تھی وہنہ آنکھ میں کجلانہ کلائی میں گجرانہ لبوں پہ مسینہ کان میں کوئی میٹھی سی سرگوشینہ سکھیوں کی چھیڑ چھاڑنہ بڑوں کی دعابساذلان شاہ کے نام کی ردا لپیٹے وہ یہ آنگن پار کر گئیہاں سرگوشی ہوئی ضرور تھی اس کے بہت پاس آکے" گو کہ انجام وہ نہیں ہوا جو میں نے لکھا تھا ایلاف بیگم....مگر کیا ہوا میرے ماموں کی نہ سہی میرے عاشق کے ماموں کی بیوی تو تم بن ہی گئیں ....چلو ان کا دل بہلانا خوب ....جب بھر جائے تو لوٹ آنا ....آخر ہم.بھی منتظر ہیں" وہ راضیہ تھی اس کی آنکھوں سے شرارے پھوٹ رہے تھےاورایلاف اس نے ایک نظر راضیہ پہ ڈالی اس ایک نظر میں کیا تھاایک دیدہ ور ہی دیکھ سکتا تھابے بسیشکوہ ایک موہوم سی آہاور ایلاف نے وہ آنگن پار کرلیا تھاجاری ہے .....

No comments:

http://novelskhazana.blogspot.com/