Tuesday, July 10, 2018

شام ہو نے تک قسط 4

شام ہو نے تک قسط 5

رائیٹر روبینہ رضا


شام ہونے تک
از روبینہ رضا
قسط       4
کبھی خاموش بیٹھو گے کبھی کچھ گنگناؤ گے
میں اتنا یاد آؤں گا مجھے جتنا تم بھلاؤ گے
پوچھ بیٹھے گا جب کوئی خاموشی کا سبب تم سے
بہت بتانا چاہو گے مگر بتا نہ پاؤ گے
کبھی دنیا مکمل بن کے آئے گی نگاہوں میں
کبھی میری کمی دنیا کی ہر ایک چیز میں پاؤ گے
جہاں پر بھی رہیں ہم تم محبت پھر محبت ہے
تمہیں ہم یاد آئیں گے ہمیں تم یاد آؤ گے
کشف عجیب دوہراہے پر آ کھڑی ہوئی تھی۔اسے اگر چہ روحان کا یوں بار بار میسج کرنا اچھا نہیں لگ رہا تھا تو پھر وہ اس کو روک کیوں نہیں رہی تھی۔ مطلب کشف کو اگر اچھا نہیں لگ رہا تھا تو برا بھی نہیں لگ رہا تھا۔کشف موبائل ہونٹوں کے ساتھ لگا کر کچھ سوچنے لگی ۔
ہما رے معاشرے میں جب مرد کی شادی ہوتی ہے تووہ ٹھاٹھیں مارتے سمندر کی طرح آؤٹ آف کنٹرول ہو رہا ہوتا ہے دو ماہ تک تو اس سے اپنا آپ ہی کنٹرول نہیں ہو رہا ہوتا ہے۔تو وہ بیوی کو کنٹرول میں کیا کرے گا ۔میرا  اپنا مشہور مقولہ ہے "یا  ڈھا چھوڑ یا ڈھے ونج"۔" یعنی یا گر جاؤ یا گرا دو"
اس کا مطلب یہاں گرانا نہیں اصل میں سنبھالنا کے ہیں کنٹرول کرنے کے ہیں۔اگر شادی کے پہلے دو ماہ میں شوہر بیوی کو اپنی محبت کا اسیر بنا لے تو وہ ساری زندگی اس کی غلام۔اس کے علاوہ کسی کے بارے میں نہیں سوچے گی لیکن اگر مرد ایسا کرنے میں ناکام رہے ۔یا نہ کرے یا عورت سمجھ جائے کہ یہ اداکاری کر رہا ہے تو وہ ساری زندگی اس پر اعتبار نہیں کرے گی۔اور اگر مرد سے ذرا سی غلطی کوتاہی ہو گئی تو عورت اس کو کبھی معاف نہیں کرے گی وہ اس کو چھوڑ دے گی۔چھوڑنا دو طرح سے ہو سکتا ہے یا تو مکمل طور پر علیحدگی اختیار کر لےگی یا ساتھ رہتے ہوئے کسی اور کی ہو جائے گی۔
یہی تو نعمان سے نہ ہو سکا۔وہ شادی کے دو ماہ بعد ہی چلا گیا اس نے دو ماہ میں ایک بار بھی کشف کو سجھنے کی کوشش نہ کی ۔ اسے تو بس اتنا خیال تھا کہ اس کی شادی ہو گئی ہے اور اس کے پاس صرف دو ماہ ہیں ۔لہذا بس بیڈ روم میں ہی گزارو۔
سو گیا ۔کھا لیا اور پھر سو گیا۔
دو ماہ کے بعد دو سال گزر گئے۔خود نعمان وہاں نائٹ کلبوں میں ہر روز نئی گرل کے ساتھ ہوتا تھا ۔کشف نے کئی دفعہ گھر آنے کا بولا۔مگر نعمان کا جواب تھا مجھے اُدھر کا پانی ہی موافق نہیں آتا۔ اسی لیے ڈرتا نہیں آتا اصل کہانی اور تھی جن لتوں کا وہ عادی ہو چکا تھا وہ پاکستان میں تھوڑا مشکل تھا تو ہاضمہ توخراب ہونا ہی تھا۔
اسی لیے تو روحان کے میسج پڑھ کر کشف کے دل کی دھڑکنیں تیز ہونے لگتیں وہ ایک مسحور کن مسرت سے سرشار ہو جاتی کہ کوئی مجھے بھی چاہنے لگا ہے کوئی تو ہے جو مجھے بھی پیار کرنے لگا ہے۔بے شک چاہے جانے کی خواہش تو ہر انسان مردو زن کے اندر موجود ہوتی ہے۔
کشف روحان کی طرف سے آئے ہوئے ایک ایک شعر کے ہزار ہزار معنی نکالتی۔ پھر دل ہی دل میں مسکرانے لگتی۔
یوں کچھ دنوں تک اشعار کا تبادلہ ہوتا رہا ۔آخر ایک دن روٹین سے ہٹ کر میسج آیا کہ " میرے نمبر پر کال کر کے سمارٹ ٹیون سنیں"
کشف نے نمبر ڈائل کیا دوسری طرف گانا تھا
خواب ہے تو ۔نیند ہوں میں۔دونوں ملیں تو راگ بنے
روزیہی مانگوں دعا۔تیری میری بات بنے ۔بات بنے
میں رنگ شربتوں کا ۔تو میٹھے گھاٹ کا پانی
مجھے خود میں گھول دےتو ۔میرے یار بات بن جانی
کشف کا دل ٹیون کی لے پہ دھڑکنے لگا اور وہ روحان کے پیار کے سحر میں گرفتار ہوتے ہوئے خود سپردگی کی کیفیت میں خود کو محسوس کرنے لگی وہ سب کچھ بھول جانا چاہتی تھی کہ میں کیا ہوں ؟کون ہوں ؟کیا کر رہی ہوں ؟اچھا کر رہی ہوں یا برا۔ سب بھولنے لگا۔
ٹیون بند ہوئی تو ساتھ ہی کال آئی۔
کشف کا دل عجیب کشمکش میں تھا وہ کال تو یس کر بیٹھی مگر بات کرنے کے لیے ہمت جیسے تھی ہی نہیں ۔
کنوارہ مرد ہو اس کو اگر شادی شدہ لڑکی سے عشق کا موقع مل جائے تو پھر اس کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں 
 دوسر ی طرف سے ہیلو کی آواز آئی۔ کشف جواب میں کچھ نہ بولی ۔دوسری بار زرا زور سے ہیلو کی آواز آئی تو کشف نےبھی دھیمی آواز میں ہیلو بولا۔ روحان بولا۔ کیسی لگی ٹیون ؟
کشف شرما کر بلکل دھیمی آواز میں بولی ۔بہت اچھی ۔
تھوڑی دیر کے لیے دونوں طرف خاموشی رہی پھر روحان بولا۔سارے میسج ڈیلیٹ کر کے سوناپلیز۔
کشف بولی۔جی اچھا اور آپ بھی  ڈیلیٹ کرنا۔
روحان بولا۔ آف کورس ۔ڈونٹ وری۔
اوکے دین۔ بائے
کشف تڑپ کر بولی ۔بس------- یہی کہنے کے لیے فون کیا تھا ؟
 روحان مسکرا کر سب سمجھتے ہوئے بھی انجان بن کر پوچھنے کے انداز میں بولا ۔تو کیا------- اور بھی کچھ کہنا تھا؟

No comments:

http://novelskhazana.blogspot.com/