کچھ لوگ پڑھتے رہتےہیں سنتے رہتےہیں مگر دل سے یقین نہیں رکھتےہیں
کہ" برائی کا نتیجہ ہمیشہ برا اور اچھائی کا نتیجہ اچھا ہی نکلتا ہے۔یہ قدرت کا قانون ہے جو کبھی نہیں بدلے گا"
الحمداللہ ہم مسلمان ہیں اور آخرت پر ایمان ہمارا عقیدہ ہے یعنی مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونا۔اور پھر اچھائی اور برائی کی بنیاد پر جنت یا دوزخ کا فیصلہ۔ تو پھر ہم یہ کیوں سمجھیں " کہ ہم جو بھی کرتے رہیں گے ہمارے ساتھ اچھا ہی ہو گا۔
کیوں؟
یہ دنیا آزمائش کی جگہ ہے میرا پختہ ایمان ہے کہ ہم خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھتےہیں جس کے نتیجے میں ہمارے ساتھ برا ہوتا ہے کبھی عذاب کی صورت میں اور کبھی آزمائش کی صورت میں۔
عذاب صرف تب نازل ہوتا ہے جب ہم اپنی خود سری میں حد سے آگے بڑھ جاتے ہیں اور واپسی کا بلکل نہیں سوچتے ہیں۔بیشک نعمان توبہ کر چکا تھا اور سچے رستے پر تھا تو اللہ اپنے نیک اور پاک اور مخلص بندے کو ساری زندگی دھوکے میں کیسے رکھتا۔ وہ بیوی دل سے نعمان کی تھی ہی نہیں۔وہ بچہ اس کا تھا ہی نہیں۔جس کے لیے وہ نو ماہ تک کشف کی خدمت خاطر دوائی دارو اور پیدائش تک خجل ہوتا رہا تھا۔کشف نے توبہ نہیں کی تھی اس کے دل میں روحان بستا تھا۔وہ ابھی بھی کسی نہ کسی طرح روحان کی خواہش مند تھی ۔وہ دل اور دماغ کی لڑائی میں دماغی طور پر مفلوج ہو گئی۔یہ تو آپ سب بھی جانتیں ہوں گے کہ جب ہم کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہے ہوتے ہیں
دل کچھ اور کہے اور دماغ کچھ اور بولے تو ہم کس قدر اپسیٹ ہو جاتے ہیں سر میں درد ۔بے چینی ۔گھبراہٹ ۔اور اگر یہ صورتحال شدید نوعیت اختیار کر لے تو شدید ڈیپریشن کی صورت میں دماغی فرق لگ سکتا ہے جس کے نتیجے میں ہم خود کو یا کسی دوسرے کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔دنیا میں خودکشی کے واقعات اسی وجہ سے ہی ہوتے ہیں ورنہ ہوش حواس درست ہونے کی صورت میں کون ہو گا جو زندگی جیسی انمول نعمت کو لٹا دے۔
اسی صورتحال سے کشف دوچار ہو چکی تھی۔
وہ اسی طرح چلاتے ہوئے اپنے ہوش وحواس کھو بیٹھی ۔اور بچے کی گردن کو دبانے لگی ۔میں مار دوں گی اس کو --------- مجھے ڈس لے گا یہ۔-------- میں مار دوں گی
اسی لمحے نعمان اندر داخل ہوا یہ صورتحال دیکھ کے فوراًکشف کی طرف لپکا اور بچے کو بچانے کی کوشش کرنے لگا
بچہ اب نعمان کے ہاتھوں میں تھا اس کی چھوٹی سی گردن پر کشف کے ہاتھوں کے نشان نمایاں تھے بچہ دم توڑ چکا تھا۔
نعمان کشف کی طرف دیکھ کر چلایا یہ کیا کیا پاگل عورت ۔اپنے ہی بچے کو مار ڈالا۔
یہ میرا بچہ تھا ۔-----------میں
میں سپنی تھی سپنی ۔کھا لیا اپنے بچے کو ۔ہاہاہاہا
بہت علاج کروایا گیا مگر کشف سنبھل نہ سکی ۔ اب وہ عام لوگوں کے ساتھ گھر میں رکھنےکےقابل نہ تھی لہذا کچھ عرصے کے بعد کشف کو دماغی مریضوں کے ہسپتال میں بھیج دیا گیا جہاں وہ ہر وقت اپنے بال نوچتے ہوئے زندگی کے دن پورے کر رہی ہے۔
محبت آج کے دور میں ناپید ہے بس ہوس کا راج ہے خدا کے لیے ہوش سے کام لینا پیاری بچیوں۔ دماغ سے سوچ کر قدم اٹھانا۔
روحان جیسے لوگ ہر جگہ موجود ہیں ۔ دوسروں کی عزتوں سے کھیل کر سائیڈ مار جانا ان کا مشغلہ ہے ۔بیشک خدا نے ایسے لوگوں کی رسی کو ڈھیل دے رکھی ہے مگر وہ بھی اسی جگ پر اپنا انجام دیکھ کر جائیں گے۔
اللہ کا فرمان ہے
ایسے شخص کو اس وقت تک موت نہ آئے گی جب تک وہ اپنی عزت کا جنازہ اٹھتا دیکھ نہ لیں۔
معافی کی صورت میں بھی کچھ نہ کچھ خمیازہ تو بھگتنا ہی پڑتا ہے ۔کشف نعمان کی بے پرواہیوں سے ہی تو غلط رستے پر چلی تھی پھر سنبھل نہ سکی۔کیا ہوا جو نعمان نے خدا سے معافی مانگ لی اور اللہ نے معاف بھی کر دیا ہو گا۔
لیکن کشف کی زندگی تباہ ہو گئی اس کی معافی نہ ہوپائ
No comments:
Post a Comment