Friday, July 13, 2018

شام ہو نے تک قسط 7


شام ہونے تک
از روبینہ رضا
قسط 7
نعمان کے واپس آنے پر کشف دو حصوں میں بٹ چکی تھی ۔اس کے اندر ہر وقت ایک جنگ جاری رہتی۔اگچہ آنکھوں اور دماغ نے نعمان کی واپسی کو قبول کر لیا تھا مگر دل تھا کہ مانتا ہی نہ تھا۔دل اور دماغ کی لڑائی میں انسان پاگل ہو جاتا ہے۔
لڑکیوں کو شروع سے ہی تربیت دینی چاہیے کہ وہ دماغ کی مانیں جو لڑکیاں دل کو دماغ پر ترجیح دیتی ہیں وہ منہ کے بل گرتی ہیں۔ جوش سے نہیں ہوش سے کام لینا چاہیے۔
کشف کا دل بھی دماغ پر حکمرانی کر رہا تھا ۔ اگر نعمان کے ساتھ کھل کر بغاوت کرتی تو معاشرے کی تھو تھو۔دوسرا عالیہ پھوپھو کی زبانی معلوم ہوا کہ روحان کی اگلے مہینے شادی تیار ہے۔
کشف نے لڑکی کے بارے میں چند سوالات کرنے کے بعد پوچھا ۔روحان خوش ہے؟
عالیہ بیگم بولیں۔ ہاں بہت خوش ہے شادی کی تیاری زور و شور پر ہے ۔ہونے والی دلہن کی زیادہ تر شوپنگ خود ہی کر رہا ہے۔
یہ سن کر کشف کی رہی سہی ہمت بھی جواب دینے لگی۔وہ نعمان سے بغاوت کر بھی دیتی مگر اب کس کے لیے۔
دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر کشف نے ایک دن موقع پا کر روحان کو کال ملائی ۔وہ حال احوال پوچھنے لگا ۔مگر کشف کسی بھی بات کا جواب دئیے بغیر فوراً مدعے پر آئی۔اور سوالیہ انداذ میں بولی۔تم شادی کر رہے ہو ؟
روحان بولا ہاں شادی تو کرنی ہی ہے۔مگر دل تو تمہارا ہی ہے نا۔
لیکن روحان میں ---------اور کشف دل برداشتہ ہو کر رونے لگی ۔
ارے رونے کی کیا بات ہے ۔تم بھی تو شادی شدہ تھیں میں نے کبھی اعتراض کیا ؟
کشف کے پاس کوئی جواب نہ تھا دل برداشتہ ہو کر فون بند کر دیا۔
کشف کو اب نہ کھانے کا ہوش تھا نہ پینے کا نہ سونے کا نہ جاگنے کا۔
چند دن ہی آگے سرکے ہوں گے کہ کشف بے ہوش ہو گئی۔ نعمان جلدی سے اسے ہسپتال لے گیا ۔ڈاکٹر نے ابتدائی چیک اپ کے بعد نعمان کو مبارکباد دی کہ ماشااللہ آپ باپ بننے والے ہیں ۔مگر آپ کی وائف بہت کمزور ہے اس کی صحت کا بہت خیال رکھیں۔
یہ سن کر کشف کانپ کر رہ گئی ۔وہ سوچنے لگی ۔یہ بچہ کس کا ہو گا ۔اگر اس بچے کا باپ روحان ہوا تو میں خود کو کیسے معاف کروں گی۔ کیسے نعمان کے گھر اور ہاتھوں میں اسے پلتا ہوا دیکھوں گی ۔کیسے نعمان کو پرائے بچے پر فریفتہ ہوتا ہوا دیکھوں گی۔
دن تو دن راتوں کو بھی کشف بس خالی دیواروں اور چھت کو گھورتی رہتی۔
نعمان اس کا بہت خیال رکھتا ۔مگر وہ دن بدن پیچھے ہی پیچھے ہو رہی تھی۔ صحت کے ساتھ ساتھ کشف کے دماغ پر بھی بہت برا اثر پڑنے لگا تھا۔وہ ہر وقت روحان کے خیالوں میں کھوئی رہتی کبھی اس سے خیالوں ہی خیالوں میں پیار کرتی اور مسکرانے لگتی ۔اور کبھی اس کی بے وفائیوں اور بے اعتنائیوں کو یاد کر کے رونے لگتی اور نفرت کرنے لگتی۔
اب اسے اکثر وہ دکھائی دینے لگتا جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہ ہوتا تھا۔
نعمان کشف کی حالت سے بہت پریشان تھا ۔مگر بچے کی پیدائش تک ڈاکٹر نےذہنی علاج کروانے سے منع کر دیا۔
نعمان پانچ وقت کی نمازکے ساتھ ساتھ تہجد ۔نوافل اور قرآن مجید کی تلاوت کا بھی اہتمام کرتا تھا اور اللہ کا شکر ادا کرتا تھا جس نے اس کو توبہ کی توفیق دی تھی۔
------------***------------****
کشف کی طبعیت سخت خراب ہونے لگی اس کے پیٹ میں شدید درد تھا ۔نعمان نے فوراً ہسپتال پہنچایا۔کچھ دیر کے بعد نرس نے خوشخبری سنائی کہ بیٹا پیدا ہوا ہے ۔ اب آپ اپنی بیوی اور بچے کو دیکھ سکتے ہیں۔اور ہاں یہ دوائیاں بھی لے آئیے۔نعمان بھاگ کر خوشی خوشی اندر داخل ہوا اور فرطِ جذبات میں کشف کا ماتھا چوم لیا۔
نعمان نے بچے کو اٹھا کر پیار کیا۔ اور ایک بار پھر مسکرا کر کشف کو دیکھا ۔آج کشف اسے ہوش میں دکھائی دی۔ شاید وہ نعمان کے آنے اور روحان کے جانے کے بعد پہلی اور آخری بار ہوش میں آئی تھی۔اس نے کشف کے ہاتھوں میں بچے کو دیا اور بولا ۔یہ نیچے ہی میڈیکل سٹور ہے میں ابھی دوائیاں لے کر آتی ہوں۔
اس کے جانے کے بعد کشف نےبچے کو غور سے دیکھا۔
بچے ک انگ انگ میں اسے روحان کی جھلک دکھائی دینے لگی ۔اس کے سیاہ بال۔بھوری آنکھیں اس کے ہونٹ ۔رخسار۔ ہاتھ پاؤں سب میں روحان کی جھلک تھی
کشف آپے سے باہر ہونے لگی۔اس کا خود پر اور اپنے حواسوں پر کنٹرول ختم ہونے لگا وہ چیخنے لگی ۔
نہیں --------نہیں نہیں
میں سانپ کے ساتھ کھیلتی رہی ہوں ۔یہ سانپ کا بچہ ہے۔یہ سنپولیا ہے ۔

No comments:

http://novelskhazana.blogspot.com/