قسط_3
از فرحت نشاط مصطفے
ایلاف کو ہوش آیا تو اس نے اپنے آپ کو گودام نما ہال میں پایا شاید وہ کسی فیکٹری کا گودام تھا ایلاف چکراتے سر کے ساتھاٹھ بیٹھی" یا اللہ یہ کیا ہوگیا میرے ساتھ میں نے تو صرف مدد کرنی چاہی تھی" ایلاف دونوں ہاتھوں سے سر تھام کے بیٹھ گئیدو بجے وہ کالج سے گھر کیلئے نکلی تھی اور اب شام کے سات بج رہے تھے سردیوں کے دن تو یوں بھی مختصر ہوتے ہیں اور شامیں طویل ایلاف لو لگا یہ بدنامی کا لمحہ اس کی پوری ذندگی پہ محیط ہوجائے گا" مامی تو پہلے ہی اتنی باتیں کرتیں تھیں آج تو ان کو یقین ہوجائے گا ماموں بھی کیا سوچ رہے ہوں گے مامی تو پہلے ہی اس کی پڑھائی کے خلاف تھیں کہ پڑھائی کے بہانے باہر آوارہ گردی ہوتی ہے " ایلاف اس لمحے یہی سوچ رہی تھی" کوئی ہے پلیز سامنے آؤ بات کرو میں تو جانتی بھی نہیں ہوں کسی کو میری کوئی دشمنی بھی نہیں اللہ کسی سے پھر یہ سب کیا ہے" ایلاف بے بسی سے چیخ پڑی وہاں کوئی ہوتا تو اس کی بات لازمی سنتا نا" ہائے ایلاف آج مامی کے سارے الزام سچے ثابت ہوگئے وہ تو پہلے ہی کہتیں تھیں کہ اپنی ماں کی طرح یہ بھی کسی کو نظر میں رکھ کے بیٹھی ہوگی " ایلاف روتے روتے خود سے باتیں کرنے لگی________________________________ایلاف کی ماں زرینہ مولوی طفیل کی بیٹی تھی نہایت نٹ کھٹ ذندگی اپنے انداز سے جینے کی قائل وٹے سٹے میں اس کا رشتہ اس کے بھائی منظور کی بیوی کے بھائی سے ہوچکی تھا قادر بخش سے وہ موٹا بدھا شخص زرینہ کو ایک آنکھ بھی نہ بھاتا تھا" اماں جس دن مجھے اپنے لائق کوئی ملا میں راوی میں اٹھا کے پھینک دوں گی اس رشتے اور دو روپے والی انگوٹھی کو " زرینہ ہر جھگڑے کے آخر میں ماں کو یہ دھمکی لگاتی تھیاور ایک سہ پہر زرینہ کو اپنا گوہر مقصود مل ہی گیا محبوب خان کیصورت میں محبوب خان کا تعلق افغانستان سے تھا اندرونی خانہ جنگی نے جہاں افغانستان کو معاشی طور پہ تباہ کیا وہاں کئی گھروں اور خاندانوں کو بھی اجاڑ دیا خاندان کے خاندان مارٹر گولوں اور بم دھماکوں میں ختم ہوگئے محبوب خان کا خاندان بھی یوں ہی ختم ہوگیا تھا خانہ جنگی سے تنگ آکر جب اکثر لوگ پاکستان آنے لگے تو محبوب خان بھی انھی قافلوں میں سے ایک کے ساتھ چلا آیا بہت مشکل ہوتا ہے اپنا گھر اپنے لوگ اپنی زمین چھوڑنا اور وہ تو پھر اپنے قبیلے کا ہونے والا سردار تھاسردار کا بیٹا محبوب خان وقت کے چکر میں آکے اب ایک معمولی مزدور تھا اپنے ساتھ وہ اپنی خاندانی دستار اور لوح اور ڈھیر سارے مسائل کا انبار لایا تھا نا رہائش تھی نہ کوئی روزگار سب سے بڑا مسئلہ مقامی زبان سے ناواقفیت تھی مگر وہ محبوب خان تھا پہاڑوں لا رہنے والا حوصلہ بھی پہاڑ جیسا تھا یہ کہانی کبھی نہ لکھی جاتی اگر ایلاف محبوب کے خاندان کی گھٹی میں مصائب کی سختی اور حوصلے کی بلندی نہ ہوتی وہ بھی بس گیا تھا داتا کی نگری میں بجری اینٹیں ڈھوتا وہ مزدوری کرنے لگا منزل چاہے کتنی ہی بلند کیوں نہ ہو راستے ہمیشہ پیروں کے نیچے ہوتے ہیں دھیرے دھیرے سے ہی زندگی کسی ڈھب پہ آنے لگی تھی وہ اگر چاہتا تو اپنے دیگر ساتھیوں کی طرح مہاجر کیمپ تک ہی محدود رہتا اور امداد کا منتظر رہتا مگر اس کی غیرت نے یہ گوارا نا کیا لال خان اس کا ٹھیکیدار تھا اس کی جوہر شناس نظروں میں وہ جلد ہی آگیا تھا اور اسے اپنے ساتھ رکھنے لگا محبوب خان کو گھروں کی تعمیر میں بہت دلچسپی تھی وہ دیکھ رہا تھا کیسے بجری اور اینٹوں سے شاندار عمارتیں کھڑی ہوجاتیں تھیں ایک دنوہ معمول کے مطابق اندرون لاہور کے ایک گھر کی تعمیر میں مصروف تھا وہ گھر زرینہ کی دوست صفیہ کا تھا وہ وہاں آئی ہوئی تھی" نی صفیہ آگیا تیرے پیو کو اس ڈھانچے کی مرمت کا خیال " زرینہ بھٹہ چباتے ہوئے بولیوہ دونوں کمرے کی کھڑکی سے باہر کام کرتے ہوئے مزدوروں کو دیکھ رہی تھیں" ہائے میرے ویر کی شادی ہے کوئی مخول تھوڑی ہے " صفیہ برا مان گئی" لے مخول ہی تو ہے بڑا اچھا لگے گا اس عمر میں پرویز بھرا سہرا باندھتے ہوئے " زرینہ نے بھد اڑائی" ہائے مرجانیے تیرے اس قادر بخش سے تو اچھا ہے میرا ویر وہ تو کوئلے کو بھی شرماتا ہے " صفیہ نے حساب برابر کیا" پرے ہٹ میرا کہاں سے آیا اس شب دیجور کے بچے سے شادی کرتی ہے میری جوتی " زرینہ نے غصے سے کہتے ہوۓ بھٹہ کھڑکی سے باہر پھینکا جو سامنے کام کرتے محبوب خان کولگا اس نے سر اٹھایا تو سامنے ہی لڑکیاں تھیں لڑکیاں دیکھ کے اس نے نظر جھکا لی بنا کچھ کہے اس کی ادا پہ تو زرینہ قربان ہی ہوگئی ہوتا ابھی کوئی اور تو موقعے کا فائدہ اٹھاتا" اچھا تو پھر کس سے کرے گی " صفیہ نے کہا" اس سے " انگلی سے محبوب خان کی طرف اشارہ کیا" لگتا ہے گرمی تیرے دماغ کو چڑھ گئی ہے چل تجھے لسی پلاؤں وہ موا پٹھان ہے کیا پتہ شادی شدہ ہو جس کا اپنا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے وہ تجھے کہاں بسائے گا میاں جی کے چوبارے میں نی ہوش کر " صفیہ نے اس کے صحیح لتے لئے" پٹھان ہے تو کیا ہوا ٹھکانہ نہیں ہے تو بن جائے گا اور میرے لئے کونسا شہزادہ آئے گا وظیفوں پہ پلنے والی زرینہ کے لئے یہی ٹھیک ہے اور شادی کی بات رہی تو ابھی پوچھتی ہوں اس سے " زرینہ حقیقت پسندی سے بولی اور باہر چلی گئی" بات سنو ...کیا نام ہے تمہارا " زرینہ نے پوچھا" ام محبوب خان ہے " وہ حیرانگی سے بولا" شادی ہوگئی تمہاری " زرینہ نے پھر پوچھا" نہیں " شرماتے ہوئے اس نے جواب دیا پہلا موقع تھا کہ کسیلڑکی نے اس سے بات کی تھی" اچھا مجھ سے شادی کروگے ?" زرینہ نے بم پھوڑابیچارہ محبوب خان حیرانگی سے اسے دیکھ کے رہ گیاجاری ہے
No comments:
Post a Comment