مسافت
وہ گلدا ن میں رکھے پھولوں کو جھاڑ رہی تھی۔ساتھ نور جہان کا گا نا گنگنا رہی تھی"۔شمع اک رات میں جل جاتی ہےلیکن مجھ کوعمر بھر کے لیے چپ چاپ پگھلنا ہو گا"۔۔اس کے سا تھ ہی اس کے کام کرتےہا تھ ڈھیلے پڑھ گئے۔اور اس کی خوبصورت جھیل جیسی بھوری آنکھوں میں آنسو تہرنے لگے۔گزرے پل پھر سے اسےیاد آنے لگے۔وہ پاس رکھے ڈائنگ ٹیبل کی کرسی پر ڈھے سی گئ۔۔کیسے ایک پل میں ریت کی طرح ساری خوشیاں ہاتھ سے پھسل گئ تھیں۔اور ہا تھ کسی ہارے ہوے جواری کی ماند خالی بلکل خالی رہ گئے تھے۔اس کی آنکھوں سے آنسو ٹپکا اور ہاتھ میں پکڑے گلدان کے مخملی پھو لوں میں جذب ہو گیا تھا۔اس کے وجدان میں موجودآج بھی وہ چیخ و پکار اسےآ کرزچ کرتی تھی۔وہ خالی خالی آ نکھوں سے سرخ گلابوں کو دیکھنے لگی ۔اسے وہ وقت یا د آنے لگا جب وہ اس کے دبیےپھول اور کبھی تازہپھولو ں کے گجر ے لایا کرتا تھا۔کیوں کہ اسے تازہ پھولو ں کی مہک بہت پسند تھی۔زاریہ کہاں ہو۔۔۔۔؟بیگم صا حبہ کی آواز نے اسے چونکا دیا اوروہ اپنے خیالوں سے نکل کربھا گی۔"جی بیگم صاحبہ..." ۔ "کیا کر رہی ہو ؟‛تم کو کب سے صفائ کا کہا ہوا ہے‛ابھی تک سارا کام ویسے کا ویسا دھرا ہے ۔؟۔"جی میں کر رہی ہوں‛۔بس تھوڑا سا کام باقی ہے" "اچھا جلدی سے کام ختم کرو‛ پھر دن کے لیے کھا نا بناؤ۔کچھ مہمان بھی آنے ہیں آج لنچ پر ‛اچھا سا کھانا بنانا" "جی بہتر ..."وہ سر جھکائے حکم سن رہی تھی۔وہ جو ہر وقت سجی سنوری رہتی تھی۔ناک پہ مکھی نہ بیٹھنے دیتی تھی۔کسی کا جوٹھا نہ کھاتی تھی۔کسی کی اترن نہ پہنتی ۔ملکہ تھی اپنے گھر کی۔مگر بادشاہ کے جاتے ہی ملکہ اپنی موت آپ مر گئ ۔کسی کی نظر لگ گئ یا بدعا۔یا کو ئ آزمائش۔غریبوں سےنفر ت کرنے والی آج خود کچی بستی کے ایک بوسیدا گھر میں پڑی تھی۔شائد اور کچھ نہیں یہ اس کے غرور کی سزا تھی۔ہاں شائد سزا ہی۔"سنو زاریہ کل کا کھاناکافی بچا پڑا ہے وہ گھر لے جانا ب""۔جی اچھا" زاریہ بس اتنا ہی کہ سکی۔اس کی آنکھوں میں آنسو تہرنے لگے۔ابھی یہ سب نیا نیا تھا تب اسے عجیب لگ رہا تھا۔شا ئد کچھ عرصے بعد اسے عادت ہو جائے۔وہ جلدی جلدی ہاتھ چلانے لگی اس کے بچے گھر اکیلے تھے۔زاریہ کے دو بچے تھے۔ایک بیٹا طلال اور بیٹی ہانیہ۔دونوں بہت پیارے تھےطلال 5thمیں اور ہانیہ 3rdمیں تھی۔"چلو ہاتھ دھو کہ آؤ کھانا کھا لو "زاریہ کچن سے کھانا گرم کر کہ ٹرے میں رکھتے ہوئے بولی".کیا بنا ہے امی طلال نے ہاتھ دھوتے پوچھا۔....۔؟"۔جس پر زاریہ تھوڑی جذ بذ ہوئ ۔اور غصے سے بولی جو بھی ہے آ کہ کھا لو۔ یہ مسور کی دال مجھے نہیں کھانی ہانیہ ضد کرنے لگی اور دستر خوان سے اٹھ بھاگی۔روز یہی دال۔ ۔؟جبکہ طلال نہ چا ہتے ہوئے بھی کھا رہا تھا ۔کیو نکہ وہ ماں کی بے بسی سمجھتا تھازاریہ کو وہ و قت اچھی طرح یاد تھا جب وہ ہر روز سلمان کی پسند کا کھانا بنا تی تھی۔تب بچےبھی کتنے شوق سے کھانا کھاتے تھے۔اس کی شادی تقریباًدس سال پہلے سلمان سےہوئ تھی۔سلمان بہت خوبصورت اور وجہح انسان تھا ۔شادی خاندان والوں کی مرضی سے ہوئ تھی۔ دونوں بہت خوش تھے۔شادی کے بعد سلمان کی قسمت نے مزید پلٹی ماری۔اور وہ پیسے میں کھیلنے لگا۔وہ سب بہت خوشحال زندگی گزار رہے تھے۔وقتاً فو قتاً اللہ نے ان کو اولاد کی نعمت سے بھی نوازا۔زاریہ نے اپنے بچوں کو مہنگےسکول میں داخل کروایہ۔زاریہ جب گاؤں جاتی ۔تو بہت سج دھج کہ زیورات سے لدی پدی جاتی۔ ہر دفعہ نئے فیشن کے کپڑے بنواتی۔سرخ رنگ کی چمچماتی گاڑی سے جب وہ نکلتی تو سب لڑکیاں اس کی قسمت پر رشک کرتی تھیں۔اور ان پر زا ریہ اپنی برتری کا رعب جماتی۔وہ جب بھی گاؤں آتی گاؤں میں سب ہی گھروں میں اس کی دعوت شروع ہو جاتی۔آج بھی ان کے ایک دور کے رشتہ دارکے گھر دعوت تھی" گاؤن پہننے کے بجائے ہاتھ پہہی رکھ لوں گی‛ سب کچھ تو چھپ جائے گا۔‛وہ اپنی چچا زاد سے مخاطب تھی۔"کیا وہاں سے ہی واپس گھر جاناہےآپ نے۔۔؟"ہاں جانا ہے ۔" اس کو گاؤں آنا بلکل بھی پسندنہ تھا۔وہ تیار ہو رہی تھی اور ساتھ ساتھ بڑ بڑا رہی تھی "میرا تو بلکل جی نہیں چاہتا ۔یہاں آنے کا۔اتنی گندگی اور غلاظت میں دم گھٹتا ہےمیرا"۔اس کی کزن جو اسے تیار کر رہی تھی ۔وہ اسے ٹوک بھی نہ سکی کیونکہ وہ کم ہی کسی کا لحاظ کرتی تھی۔جاتے ہوئے اکثر اپنے لائے کپڑے ادھر ہی پھینک جاتیجس پر اس کی چچا کی بیٹیاں چھینا جھپٹی کرتیں۔زاریہ تیار ہو کر گھر سے نکلی گلی سے گزرتے ہاتھ میں پکڑا اسکا گاؤن ایک جھاڑی میں الجھ سا گیا اس نے غصے میں گاؤن وہیں پھینکااور آگے بڑھ گئ۔ میزبان اس کے آگے بچھے جا رہے تھے مگر اسے پرواہ نہیں تھی۔اس نےبادل نخواستا کھانا کھایا۔اور چل دی۔چلتےچلتے اس نے کافی سارے پیسےان کے بچے کو تھمادیے۔"اماں ابا کی وجہ سے آنا پڑتا ہے یہاںورنہ میں تو تھوکوں بھی نہ"۔وہ نفرت سے ادھر ادھردیکھ کر سوچ رہی تھی"۔اس نے سامنے سے چاچا کو آتے دیکھا تو مجبوراً رکنا پڑا۔سلام دعا کے بعد چاچا نے اسے اپنے گھر آنے کا کہا۔مگر چاچا کے گھر کا سوچ کر ہی اسے جھر جھری سیآ گئ۔انہوں نے کافی مال مویشی رکھے ہوئے تھے ۔اور اتنی بدبو میں کون جائے۔"نہیں چاچا مجھے اب نکلنا ہے کافی لیٹ ہو گئ شام ہونے کو ہے۔پھر کبھی سہی"۔اچھا پتر سہی ہے جیسے تمہاری مرضی‛۔اچھا ایک بات کہوں گا تم کو برا نہ منانا۔" "جی چاچا کہیں"وہ جلدی جان چھڑانہ چاہتی تھی۔مگر چاچا تو جان ہی نہیں چھوڑ رہا تھا۔"بیٹی تو یہ سونا چاندی اتنا زیادہ پہن کر گاؤں نہ آیا کر گاؤں کی غریب بچیوں کا دل برا ہوتا ہے۔" چاچا میں کیا گاؤں کی بچیوں کے ڈر سے سجنا سنورنا چھوڑ دوں کوئ جلتا ہے توجلے میری بلا سے"۔اس نے چاچا کو بھی کھری کھری سنا دی تھیں۔زاریہ چاچا کو الللہ حافظ کہتی اپنی گاڑی کی طرف بڑھی ۔شیفون کا گہرا نیلا فراق جس کے نیچے سےگو لڈ ن کلر بہت نفاست سے باہر نکل کر ایک کو نے تک جارہا تھا۔گلے کے ایک سائیڈ پرنہایت نفاست سے سرخ رنگ کی ایمبرائڈری اور سر خ دوپٹے کے ساتھ میچنگ فل ہیل اور گولڈ کی جیو لری میں وہ کہیں سے بھی اس گاؤں کی نہ لگ رہی تھی ۔اپنی شاندار گاڑی میں بیٹھتے اس نے ایک طائرانہ نظر گاؤں کی منڈیروں پر کھڑی حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتی لڑکیوں پر ڈالی۔اور طنزًمسکرائ جیسے کوئ دنیافتح کر کہ آئ ہو کالا چشمہ آنکھوں پہ جمایا۔اور ڈرائیور جو کہ کار کا دروازہ کھولے کھڑا تھا۔اس نے ایک جھپاکے سے دروازہ لاک کیا۔اور چھلانگ مار کہ گاڑی میں جا بیٹھا۔اور گاڑی چل دی۔بچپن سے مادی اشیا کو خود پر سوار رکھنے والی نادان لڑکی یہ نہ جانتی تھی کہ غریب یہ لوگ نہیں بلکہ اس کی اپنی سوچ تھی۔جو چند روپے آ جانے پر اسے اپنے اصل سے دور کر رہی تھی۔اور اسے گھمنڈ و غرور کے اندھےکنویں میں دھکیل رہی تھی۔مگر وہ بے خبر تھی۔"زاریہ کتنی امیر ہے نہ" مریم جوکہ زاریہ کی چچا زاد تھی اس کے جاتے ہی بو لی۔اس کے ساتھ ہی ابا گھر میں داخل ہوتے ہوے بولے "بیٹا انسان پیسے سے امیر یا غریب نہیں ہوتا‛ ۔انسان کا دل امیر یا غریب ہوتا ہے۔‛ہمیں یہ نہیں دیکھنا چا ہیے کہ اس کے پاس کیا ہےبلکہیہ دیکھو کہ وہ کیا ہے۔"مگر ابا پیسہ بھی تو ضروری ہوتا ہےزندگی میں" "۔ہاں پیسہ بھی ضروری ہے‛مگر پیسہ پا لینے کے بعد انسان کو اپنی جڑ یں نہیں چھوڑنی چاہیں‛بیٹی ایک بات یاد رکھنا جو شاخ اپنی جڑیں چھوڑ دیتی ہے وہ سوکھ جاتی ہے۔"جی اباآپ نے ٹھیک کہا"اماں بھی پاس تھیں۔وہ بھی بول پڑیں "آج کل بیٹیوں کو تعلیم تو اعلی سے اعلی دلوا دی جاتی ہے مگر ان کی تربیت نہیں کی جاتی‛ہمارے زمانے میں تو ما ئیں بیٹی میں چن چن کہ گن ڈالتی تھیں" "اللہ بخشے میری اماں کہتی تھیں‛ عورت اگر سلجھی ہوئ‛ نیک ‛اور معاملہ فہم ہو گی تو وہ اپنے گھر کو جنت بنا دے گی" "اور اگر معاملہ اس کے بر عکس ہوا تو پھر نتا ئج بہت برے ہوتے ہیں "کچھ ہی عرصے میں زاریہ کے والدین کا سایہ اس کے سر سے اٹھ گیا تھا۔اب تو اس نے گاؤں آنا بلکل ترک کر دیا تھا۔اکثر چچا بشیر جب شہر جاتا تو وہ اسے با ہر سے ہی بھگا دیتی۔وہ اپنے کسی بھی رشتہ دار کو دیکھنا بھی نہیں چاہتی تھی۔اب تو چاچا نے بھی آنا جانا ترک کر دیا تھا۔ایک دن زاریہ کراچی کے بہت بڑے شاپنگ مال سے خریداری کر رہی تھی ۔کہ اس کا فون بجنے لگا۔مگر اس نے توجہ نہ دی اور شاپنگ میں مصروف رہی۔شاپنگ کرتے کرتے اسے بہت وقت لگ چکا تھا ۔خوشی خوشی وہ گھر لوٹی۔ دروازے پر پولیس دیکھ کر وہ ٹھٹھک گئ۔خا لی ذہن کے ساتھ جب اندر داخل ہوئ۔تو سفید چادر میں لپٹی لاش سامنے رکھی تھی۔آگے بڑھی تو پولیس نے اسےراستہ دیا ۔چادر ہٹاتے ہی وہ چیخ پڑی۔"نہیں یہ نہیں ہو سکتا۔تم مجھے چھوڑ کر نہیں جا سکتے۔سلمان ...سلمان اٹھو سلمان۔۔۔"سلمان اب اس دنیا سے جا چکا تھا وہ بھی آئے روز ہونے والی ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہو چکا تھا۔وہ اس دنیا میں معصوم بچوں کے ساتھ تنہا رہ رہ گئ تھی.وہ ہمیشہ سوچتی تھی "ہر انسان صرف اپنے لیے اہم ہے"۔اور اسی لیے اس کو بھی اپنی ذات سے مطلب تھا۔اس دنیا کے باقی لوگ اس کے لیے کوئ اہمیت نہ رکھتے تھے۔اس نے اپنے بگڑے تیور دکھا دکھا کہ لوگوں کو خود سے دور کیا تھا۔اب اس موڑ پہ اسے اندازہ ہوا تھا کہ انسان کےلیے انسان کی کیا اہمیت ہے۔۔آج سلمان کو گزرے تیسرا دن تھااور وہ دنیا کی اس بھیڑ میں اکیلی کھڑی تھی۔اس کا مان اور غرور اسے کوئ فائدہ نہ دے پایا تھا۔۔صوئم کے بعد کمپنی سے کچھ لوگ آئے اور اسے ایک ماہ تک گھر خالی کرنے کا کہ گئے۔اور اسے کچھ رقم دے گئے۔وہ بس آٹھویں جماعت تک پڑھی تھی۔اسے حساب کتاب کہاں آتا تھا۔وہ گھر سے نکلتے دھاڑیں مار کہ رو رہی تھی۔کس کے در پہ جائے کس سے مدد مانگے....؟ ۔وہ زندگی کےکڑے امتحان میں سے پاسنگ مارکس بھی نہ لے پائ تھی۔اور برے نتائج اس کا منہ چڑا رہے تھے۔۔اب اس کا زوال اسے چیخ چیخ کر پکار رہا تھا۔اور وہ بے بس سی ایک کچی بستی میں کرائے کے گھر کی تلاش کےلیے نکلی تھی۔
No comments:
Post a Comment