Sunday, July 15, 2018

یہ جنون ہے منزل عشق کا از فر حت نشاط مصطفی قسط 2

از فرحت نشاط مصطفے
قسط 2

اذلان شاہ کے فیورٹ کیفے میں اچھی سی ایک ریفریشمنٹ لینے کے بعد وہ سب اب گھر پہنچ چکے تھے ایلاف آج بہت خوش تھی آج اس کے ایک اور خواب کو تعبیر ملی تھی سفیان اپنے سیل پہ مگن تھا اور اس کے ہونٹوں پہ وقفے وقفے سے مسکراہٹ کھل رہی تھی" کیا بات ہے سفی آج کچھ ذیادہ ہے دانت صاف کرلئے ہیں یا پھر ہماری بہو لائن پہ ہے جو صاحبزادے کے دانت ہی اندر نہیں ہو رہے" ایلاف مسکراتے ہوئے بولی" اوہ مام میں کوئی پاپا تھوڑی ہوں جو صرف آپ کیلئے ہنستے ہیں اور دوسروں کیلۓ انگری برڈ بنے رہتے ہیں بیچاری کتنی لڑکیوں کے دل آج بھی ریزہ ریزہ ہوجاتے ہیں ویسے مام کونسا چلا کاٹا ہے آپ نے کہ پاپا کو آپ کے سوا کچھ دکھتا نہیں" سفی نے ایلاف کا سوال گول کرتے ہوئے کہا"چپ شریر کوئی ماں سے ایسی باتیں بھی کرتا ہے بھلا یہ تو اذلان کی محبت ہے ورنہ میں کیا اور میرا کمال کیا" ایلاف انکساری سے بولی" واہ مام آپ کی اس سادگی پہ ہی تو ڈیڈ فدا ہیں میں ڈیڈ کا بیٹا ضرور ہوں بٹ میری لائف کوئی ایلاف نہیں اس لئے میں سب کے ساتھ بنا کے رکھتا ہوں یوں نو مجھ میں اتنی کرٹسی ہے کہمیں کسی کا دل نہ ٹوٹنے دوں " سفی تعریفی انداز میں بولا" ہاں سفی جو چلا میں نے اس برسوں کی رفاقت کیلئے کاٹا ہے جو درد سہا ہے واقف تم بھی ہو انتظار کے صحرا میں سفر کے مسافر کا حال تم جانتے ہو ...اپنے گوہر مقصود کو پانے کیلئے کتنے مصائب کے سمندروں کا سینہ میں نے چیرا ہے تم گواہ ہو اس سارے سفرنامے کے" ایلاف بیتے لمحوں کی ذد میں بولی تھی یہ خوشیوں کے لمحوں میں غموں کی بازگشت کیسے ہر رنگ پھیکا کر دیتی ہے ایلاف نے سوچا اور ہمیشہ کی طرح خود کو سنبھال لیا" اور میرا سوال تو تم نے گول ہی کردیا بتا دو کون ہے " ایلاف نےپھر سے پوچھا" کم ان بہو وغیرہ کا کوئی چکر نہیں ہے فرینڈز سے چٹ چیٹ چل رہی ہے اور ماہ نور اور عساف سر کھا رہے ہیں" سفیان اسے تسلی دیتے ہوئے بولا" سفی آئی مس ماہ نور اور عساف " ایلاف نے کہا" میں نے تو کہا تھا لے چلتے ہیں دونوں کو پر آپ ہی نے منع کردیا وہی ماہ نور کہہ رہی ہے کہ بھائی تم ذیادہ سگے ہو ہر جگہ پہنچ جاتے ہو مام اور ڈیڈ کے ساتھ ہم ہمیشہ پھنس جاتے ہیں " سفیان ماہ نور کا میسج سناتے ہوئے بولاماہ نور اور عساف سفیان سے چھوٹے تھے اور پاکستان میں تھے" کیسے بلا لیتی بھئی ویسے بھی ان کے ایگزامز سر پہ ہیں پیپرز کے بعد ہم جب سڈنی جائیں گے تو لے جائیں گے انہیں" ایلاف اسٹڈیز پہ کبھی کمپرومائز نہیں کرتی تھی" اذلان آپ تھک گئے ہوں گے آرام کر لیں پھر سفر کرنا ہے آپنے " ایلاف اذلان سے مخاطب ہوئی جو خاموشی سے ان دونوں کی گفتگو سن رہے تھے" تھک تو آپ بھی گئی ہیں ایلاف آپ بھی آرام کریں یہ پریس والے آپ کو اتنی آسانی سے چین نہیں لینے دیں گے "اذلان نرمی سے بولے" مجھے کوئی خاص تھکن نہیں ہے آپ ریسٹ کریں میں جب تک آپ کا سامان ریڈی کرتی ہوں " ایلاف ان کا ہر کام اپنے ہاتھ سے کرتی تھیاذلان روم میں گئے تو ایلاف ان کی روانگی کی تیاری کرنے لگی اذلان کا سوٹ کیس ہولڈال میں رکھنے والا سامان .لیپ ٹاپ اور انکی فیورٹ دو تین بکس جو سفر میں اذلان کو پڑھنا پسند تھیں ان سب کاموں سے فارغ ہونے کے بعد وہ کچن میں چلی آئی تھی اذلان کا سوٹ وہ صبح پریس کرچکی تھی بس اب کافی ریڈی کرنا باقی تھی سفر پہ جانے سے پہلے وہ ایلاف کےہاتھ کی کافی پینا لازمی پسند کرتے تھے بقول اذلان کے " یہ کافی کے گھونٹ گھونٹ میں ایلاف کی محبت اس کی کئیر مجھے محسوس ہوتی ہے مجھے ہمیشہ احساس دلاتی ہے کہ میرےساتھ کسی کی دعا ہے پروا ہے "ایلاف کافی لے کے جب کچن سے باہر آئی تو اذلان ریڈی ہوچکے تھے بلیک شلوار سوٹ پہ گرء واسکٹ پہنے وہ ہمیشہ کی طرح شاندار دکھ رہے تھے سفیان نے اذلان کو دیکھ کے سیٹی نما انداز میں ہونٹ سکوڑے"ڈیڈ آج تو آپ فُل لیڈی کِلر لگ رہے ہیں بس آج اس ٹرین کی خیر نہیں جس میں ڈیڈ جا رہے ہیں مام آپ کی چوائس کا تو میں فین ہوں پر آپ کو خیال کرنا چاہئے اگر کوئی ڈیڈ کو انگلش چھپکلیلے اڑی تو" سفیان اذلان کو ہمیشہ کی طرح تنگ کرتے ہوئے بولا" امپاسبل " ایلاف پریقین تھی" خدا جانے آپ دونوں کی بانڈنگ کس مٹی سے ہوئی ہے ....خیر مام میرے لئے بھی ایک شاندار پوشاک منتخب کرلیں رات کے ڈنر کیلئے تاکہ ہم بھی کسی حسینہ پہ بجلی گراسکیں " سفیان ایلاف سے ہار مانتے ہوۓ بولا" کیوں تم تو آج اپنی مام کے ساتھ ڈنر کرنے والے تھے نا پھر یہ سب ....?" اذلان نے پوچھا" ارے اذلان چھوڑیں بھی روز ہمارے ساتھ ڈنر کرتا ہے آج اسے فرینڈز کو ٹریٹ دینی ہے انجوائے کرنا ہے " ایلاف سفی کو سپوٹ کرتے ہوئے بولی" میرے خیال سے اب سفی کی شادی ہوجانی چاہئے کب تک تم ہماری وائف پہ ڈپینڈ کروگے صاحبزادے " اذلان بھی اس کے باپتھے آخر" جس دن مام جیسی لڑکی مل گئی نا اس دن میں آرام سے شادی کرلوں گا ڈیڈ میں ہر معاملے میں آپ کے برابر رہا ہوں تو اس معاملے میں بھی پیچھے نہیں رہوں گا" سفی مزے سے بولا" تمہاری مام جیسا پیس صرف ایک تھا اب اگر تمہیں کوئی ملی بھی تو وہ کاپی ہوگی اوریجنل تو صرف ایک ہے " اذلان شاہ محبت سے بھر پور لہجے میں بولے" کوئی مسئلہ نہیں کاپی ہی صحیح میں کونسا اذلان شاہ ہوں جسے ہر چیز اوریجنل ملے" سفی نے ناک سے مکھی اڑائی" اوہ پلیز سفی اذلان کیا ہوگیا ہے آپ دونوں کو چلو سفی تم روم میں چلو میں آتی ہوں " ایلاف بلش ہوتے ہوئے بولی" واہ مام بھاگا رہی ہیں مجھے تاکہ پاپا کو آرام سے سی آف کرسکیں ہیں نا مشرقی عورت " سفیان نے اب ایلاف کو تنگ کیا اور ہنستے ہوئے سیڑھیاں چڑھ گیا"بیسٹ آف لک اذلان اینڈ ٹیک کئیر " رومال ان کی واسکٹ میں لگاتے ہوئے ایلاف بولی" اور کچھ مادام " دونوں ہاتھ سینے پہ باندھتے ہوئے اذلان اس کاچہرہ نگاہوں کے حصار میں لیتے ہوۓ بولے" اونہوں " ایلاف نفی میں گردن ہلاتے ہوئے بولی"اوکے ..خدا کی امان میں" اس کی پیشانی کا بوسہ لیتے ہوۓ وہ رخصت ہوئےاذلان کے جانے کے بعد سفیان بھی اسے اپنا خیال رکھنے کی تاکید کرتے ہوئے رخصت ہوا تو ایلاف بھی ریلکس ہوتے ہوئے سیل فون لے بیٹھی ماہ نور اور عساف کو کال کرنے کیلئے ثناکے مسیج بھی تھے" میم آپ انٹرویو دیں گی نا پلیز اپنے لائف کے ایکسپیرئنس بتائیے گا"میں انٹرویو ضرور دوں گی ثنا اس لئے نہیں کہ مجھے شہرت کی چاہ ہے بلکہ اس لئے کہ دنیا جان سکے کہ ارادے مضبوط ہوںتو رسموں رواجوں کی چٹانوں کے بیچ سے ہی راستے نکالے جاتےہیں ہر ایلاف محبوب کی قسمت میں پیر اذلان شاہ ہوتا ہے مگر اپنے حالات کیلئے ہمیں لڑنا پڑتا ہے اپنا درد گر خود ہونا پڑتا ہے کیوں کہ بہترین ذندگی جینا عورت کا حق ہے " ایلاف خود سے بولیایلاف کو وہ ماضی یاد آنے لگا جس پہ وہ ایک عمر پا پیادہ چلتی آئی تھی________________________________________"راضی ....راضیہ اُٹھ بھی جاؤ اب اس سے پہلے کہ میں تم پہ ٹھنڈا پانی پھینکو کالج سے دیر ہورہی ہے اٹھو ....مرو اب اور میرا عبایا کہاں ہے مل نہیں رہا" ایلاف غصے سے بولی ایک تو کالج سے دیر اوپر سے راضیہ کے نخرے" میں کالج نہیں جارہی اور تمہارا عبایا دھونے کیلئے ڈالا تھا ٹھنڈ لگ رہی تھی اس لئے پانی سے نکالا ہی نہیں " راضیہ مزے سے بولی" مرو تم میں اب کالج کیا پہن کے جاؤں گی " آج اتنا ضروری ٹیسٹ تھا اور اتنی ہی بری خبریں مل رہیں تھیں" میرا پہن لو " جواب حاضر تھا" تمہارا وہ بھڑکیلا عبایا پہنوں وہ بھی میں" ایلاف صدمے سے بولی" تو کونسا اپنی اترن دے رہی ہوں نا پہنو ایسی ہی چلی جاؤ اور سنلینا اماں کی باتیں " ادھار رکھنا تو راضیہ نے سیکھا تھا ہی نہیں"اچھا" ایلاف مرے مرے انداز میں بولی اس کی خودداری پہ چوٹ پڑی تھی کوئی اور ٹائم ہوتا تو وہ راضیہ کو بتاتی جسے نہ پڑھنے کا شوق تھا نہ کسی اور ڈھنگ کے کام کا مگر ایلاف محبوب کیلئے پڑھائی ہی وہ سیڑھی تھی جس پہ چڑھ کے وہ آگے بڑھنا چاہتی تھی" سنو ایلاف یہ فولڈر مایا کو دیے دینا " راضیہ نے کہا"ہرگز نہیں کہاں ڈھونڈوں گی اسے میں اور یہ میرا بیگ کہاں ہے?" ایلاف نے دو باتیں ایک ساتھ کیں" پلیز اچھی کزن نہیں ہو اور بیگ بھی دھلنے کیلئے ڈالا ہے "راضیہ اسے ذبردستی فولڈر تھماتے ہوئے بولی" تو بی بی یونیفارم کا احسان کیوں کیا وہ بھی ڈال دیتیں " ایلافتپ کے بولی" اوہو بس کرو دیر ہورہی ہے تمہیں جلدی کرو ورنہ اماں تمہیں گھر بٹھا لیں گی " راضیہ نے اسے ڈرایاایلاف اس پہ نفرین بھیجتی جلدی سے راضیہ کا عبایا پہنے بیگ لٹکائے فولڈر ہاتھ میں پکڑے باہر کو نکلی" تھوڑا انتظار کرنا چھٹی میں مایا چھٹی کے ٹائم گیٹ پہ ملے گی تمہیں " راضیہ پیچھے سے بولی" اچھا مامی خدا حافظ میں جا رہی ہوں دیر ہورہی ہے " ایلاف صحن میں بیٹھی مامی سے بولی" ہاں بی بی جاؤ انتظار ہورہا ہوگا وہاں تمہارا ایک دن نہیں جاؤ گی تو دنیا کا کاروبار ٹھپ " مامی طنزیہ بولیں" سارا کام کر تو دیا ہے پھر آج راضیہ گھر پہ تو ہے نا" ایلافبولی" ہاں بھئی ہم ماں بیٹی ہیں نا تمہاری خدمتوں کیلئے جاؤ بی بی اپنا راستہ ناپو کسی سردار کی جانشین نہ ہو " مامی لگتا تھا ماموں سے لڑ کے بیٹھی تھی اس لئے تختہ مشق ایلاف کو بنایاایلاف کالج جانے سے پہلے صفائی اور ناشتہ نپٹاتی تھی پھر بھی مامی کو اعتراض تھا اس کے روز جانے پہ"ماموں خدا حافظ " باہر آتے ماموں کو دیکھ کے ایلاف بولی" کالج جا رہی ہو بیٹا خیر سے جاؤ کسی چیز کی ضرورت تو نہیں" ماموں شفقت بھرے لہجے میں بولے ایک ماموں کا دم ہی تو غنیمت تھا ایلاف کیلئے" نہیں ماموں بس دعا کیجئے گا آج بہت ضروری ٹیسٹ ہے " ایلاف کہہ کر باہر نکل گئی" خدا ہر امتحان میں کامیاب کرے ایلاف تمہیں" ماموں نے اسے دل سے دعا دیہماری اکثر دعاؤں کا اثر نجانے کتنے لمحوں کی اذیت کے اثر کو ذائل کردیتا ہے یہ ہمیں خود بھی نہیں معلوم ہوتا اس لئے دعا کو مصیبت پہ بند باندھنا بھی کہا جاتا ہے اور دعا کا حکم بھی اس لئے ہے" کام ہوگیا " کمرے کی کھڑکی سے ایلاف کو باہر کالج کیلئے جاتے دیکھ کر راضیہ نے دونوں ہاتھ جھاڑتے ہوئے کہا اندر آتی مامی چونک گئیں" کونسا کام اور تو کم بخت آج پھر کالج نہیں گئی وہ ایلاف ایک دن دیکھنا افسر بن جائے گی اور تو یوں ہی نالائقی دکھاتی رہنا " مامی چڑتے ہوئے بولی" اوہ میری بھولی اماں خالی کتابیں رٹنے سے کوئی ذہین نہیں ہوتا اور یہ ایلاف کوئی افسر نہیں بننے والی تم بھلے لکھ لو "راضیہ ماں کو ٹھنڈا کرتے ہوئے بولی" اے تجھے کیا وحی آئی ہے کہ وہ موئی ایلاف افسرنی نہیں بنے گی ارے بڑی اونچی اڑان ہے اپنی ماں کی طرح اس کی " مامی حیرانگی سے بولیاور جواب میں راضیہ کے لبوں پہ ایک شاطرانہ اور پراسرار مسکراہٹ تھی کسی کی تباہی اور بربادی کا سوچ کےایلاف بوجھل دل کے ساتھ گھر سے نکلی تھی مامی کی طنزیہ باتیں کوئی نئی بات نہ تھیں ایلاف کیلئے یہ ان کی عادت تھی مگر جب وہ بیچ میں اس کے ماں باپ کو گھسیٹتی تھیں تو ایلاف کو بہت دکھ ہوتا تھا مامی کا بس نہ چلتا تھا اسے گھر سے ہمیشہ کیلئے غائب کردیں وہ ماموں کی وجہ سے مجبور تھیںگلیوں سے ہوتی ہوئی ایلاف چوڑی سڑک کے کنارے پہنچ چکی تھی جسے کراس کر کے سامنے کالج کی عمارت تھی لاہور کی تنگ و تاریک گلیوں میں رہنے والی ایلاف محبوب کیلئے کالج گوشہ عافیت سے کم نہ تھاکالج میں سارا دن بہت مصروف تھا ٹیسٹ کے بعد لیکچرز کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ تھا ایلاف ان اسٹوڈنٹس میں سے تھی جو بنک مارنا گناہ تصور کرتے ہیں اپنی پڑھائی کا خرچہ وہ ٹیوشن پڑھا کے نکالتی تھی وہ سیکنڈ ائیر کامرس کی اسٹوڈنٹ تھی اکنامکس کی فیلڈ میں نام بنانا اس کا خواب تھاچھٹی ہوئی تو وہ راضیہ کا فولڈر ہاتھ میں لئے مایا کا انتظار کرنے لگی آدھے گھنٹے سے بھی ذیادہ وقت ہوا تو ایلاف کا غصے کے مارے برا حال ہوگیا" حد ہوتی ہے غیر ذمہ داری کی جیسی راضیہ خود ویسی اس کی دوستیں میں ہی بیوقوف ہوں جو اس کی باتوں میں آکے اپنا وقت برباد کر رہی ہوں " ایلاف بڑبڑاتی ہوئے گھر کیلئے نکل گئی"سنیں بیٹا " کی آواز پہ اس نے پلٹ کے دیکھا پکارنے والی ایکلمبی تڑنگی عورت تھی جس کے چهرے په کرختگی تھی اورصاف لگ رها تھا که وہ ذبردستی نرم لہجے میں بول رہی ہے" جی "بیٹا یہ سامان اٹھانے میں مدد کردیں وہ سامنے گلی میں میرا گھرہے بہت مہربانی ہوگی " وہ عوت ایسی عاجزی سے بولی کہ ایلآف کو مانتے ہی بنیایلاف خود دھان پان سی تھی جلد ہی تھک گئی " اور کتنا دورہے آپ کا گھر " ایلاف تھکن محسوس کرتے ہوئے بولیجواب میں اس عورت نے پیچھے پلٹ کے دیکھا اور پلک جھپکتے کے ساتھ ہی ایلاف کے منہ پہ بھیگا کلوروفارم رکھ دیا تاریکی میں جانے سے پہلے ایلاف نے دیکھا تھا کہ اسی عورت نے اپنے بازؤں میں اسے سنبھال لیا تھاجاری...

No comments:

http://novelskhazana.blogspot.com/