1قسط
روبینہ رضا
شام ہو نے تک |
کشف اور پھوپھو کے بچے خوب مستی کر رہے تھےسب لوگ چٹائی پر بیٹھ کر بریانی کھا رہے تھے اوراپنی اپنی بریانی کھانے کے ساتھ ساتھ دوسروں کی پلیٹ میں بھی تانکا جھانکی کر رہے تھےعریان ۔شیری اور گڑیا عالیہ کے بچے تھے اور کشف عالیہ کے بھائی کی بہو تھی نعمان کشف کا شوہر کی پھوپھو ہونے کی وجہ سے کشف بھی عالیہ کو پھو پھو کہتی تھی کشف کی شادی کو دو سال ہو گئے تھے ابھی تک اولاد کی نعمت سے محروم تھی اور اس کا شوہر نعمان شادی کے ایک ماہ بعد ہی باہر چلا گیا تھا۔گھر میں ایک بیمار سسر تھا۔اسی لیے کبھی کبھی دل بہلانے عالیہ پھوپھو کے گھر آ جاتی تھی۔عریان نے کشف کی پلیٹ سے لگ پیس اٹھا لیا ۔تو اس کی دیکھا دیکھی شیری نے گڑیا کی کولڈ ڈرنک پی لی۔جس پر گڑیا نے ہنگامہ برپا کر دیا۔ اور پلیٹ زمین پر رکھ کر بولی یہ لیں اب خود ہی کھائیں ۔اور جاتے جاتے شیری کی کمر میں ٹانگ ٹھوک دی۔اب شیری اٹھ کر گڑیا کی مرمت کرنے کے لیے جا ہی رہا تھا کہ عالیہ جو کس وقت سے ان ساری حرکتوں کو نوٹ کر رہی تھی پاس پڑی ڈوئی گھما کے لگائی شیری کو ۔اور فوراً بیٹھ جانے کا حکم دیا ۔شیری نے بیٹھ جانے میں ہی غنیمت جانی۔کشف تم یہ نہ سمجھنا کہ تم آئی ہو تو ایسا ہوا ہے یہاں روزانہ یہی حال ہوتا ہے ۔ان کو خوراک نہ ملے نا جب تک ان کی شوخیاں ختم ہی نہیں ہوتیں۔پھر گڑیا کی طرف دیکھ کر بولیں ۔آ اندر تو تیرا بھی بندوبست کرتی ہوں۔کشف بولی نہیں پھوپھو غلطی میری ہی ہے میں گھر میں بہت بور ہوتی ہوں ایک ابو سسر ہی ہوتے ہیں وہ بھی تسبیح پڑتے رہتے ہیں تبھی میں بوریت دور کرنے یہاں آجاتی ہوں ۔ہلہ گلہ کرنے۔اسی وجہ سے بچے بھی فری ہو جاتے ہیں ۔کشف پریشان سی ہو گئی اور برتن سمیٹنے لگی۔مگر عالیہ جانتی تھی کہ کشف کی یہ پریشانی صرف اس وقت تک رہے گی جب تک اس کا بچوں سے آمنا سامنا نہیں ہوتا۔ پھر وہی مستیاں ۔ وہی ہنگامے اور وہی قہقہے ۔-------****--------*****ابھی کشف برتن اٹھا کر کچن کی طرف جانے ہی والی تھی کہ عالیہ کا کزن روحان اندر داخل ہوا۔روحان غیر شادی شدہ تھا اس کی لاہور میں کپڑے کی دکان تھی اس لیے وہ اپنی کزن عالیہکے گھر ہی رہتا تھا۔اس کا اپنا گھر کراچی میں تھا۔ڈائینگ روم کے ساتھ ہی کچن تھا کشف اور بچے اب وہیں ڈیرہ جمائے بیٹھے تھے اور موبائل پر ایک دوسرے کو مزاحیہ میسج شئیر کر رہے تھے۔ اور ساتھ ساتھ پڑھ کر ہنس ہنس کر انجوائے کر رہے تھے۔روحان خاموشی سے کھانا کھا رہا تھا جبکہ عالیہ خاموشی سے پاس بیٹھی تھیں۔ کہ ایک زور دار قہقہہ بلند ہوا۔عالیہ بیگم نے کچن کی طرف دیکھا اور سر پر ہاتھ مار کر کہنے لگیں ۔ توبہ یہ بچے بھی نا۔اور یہ کشف بھی بچوں کے ساتھ بچی بن جاتی ہے ۔اللہ اپنی اولاد دے تو اسکا بھی جی بہلے ۔روحان نے ایک سرسری نگاہ پہلے عالیہ اور پھر سامنے کچن میں بیٹھی کشف پر ڈالی اور دوبارہ کھانے کی طرف مگن ہو گیا.کیونکہ وہ بھی کھانے کے ساتھ ساتھ موبائل پر لگا ہوا تھا۔عالیہ خجل سی ہو کر بولی ۔توبہ ہے زندگی اجیرن کر دی ہے ان موبائلوں نے۔ جس کو دیکھو منہ کے آگے کتاب کھولے بیٹھا ہے ۔ارد گرد کا تو کوئی ہوش ہی نہیں۔روحان نے کوئی جواب نہ دیا اور اٹھ کر خاموشی سے اپنے کمرے کی طرف چلا گیا۔روحان کے جانے کے بعد کشف برتن اٹھانے آئی تو کشف کا موبائل عریان نے اٹھا لیا اور بولا۔دیکھ یار شیری۔ یہ میسج بہت مزاحیہ ہے ماموں روحان کو سینڈ کرتا ہوں۔ بڑا مزہ آئے گا۔اور کشف کو بتائے بغیر اس کے موبائل سے میسج روحان کو فارورڈ کر دیا ۔روحان نے شکار پر جانے کے لیے اپنا مخصوص لباس پہنا اور فوجیوں کی طرح بڑے بڑے بوٹ پہن کر بندوق کندھے کے ساتھ لٹکا کر باہر نکلنے ہی والا تھا کہ میسج کی گھنٹی بجی۔ روحان نے جیب سے موبائل نکال کر دیکھا تو کسی ان ناؤن نمبر سے مزاحیہ میسج تھاعالیہ تو دن بھر کی تھکی تھیں سو گئیں۔بجلی جانے کے باعث کشف اور بچے باہر صحن میں بیٹھے تھے کشف کا موبائل اس کے ہاتھ میں تھا ۔جیسے ہی روحان باہر نکلا ۔عریان بولا روحان ماموں میسج کیسا تھا۔روحان بولا تم نے بھیجا ہے مگر کس کے نمبر سے۔عریان بوکھلا کر بولا کشف باجی نے ۔ کشف نے عریان کو کہنی ماریاور گوشے میں پوچھا کہ میں نے کب؟روحان نےایک نگاہ کشف پر ڈالی اور اگلی بات سنے بغیر نکل گیا۔ مگر چودھویں کے چاند کی دودھیا روشنی میں کشف بھی کسی پری سے کم نہ لگ رہی تھی۔ اور کشف کی ایک جھلک روحان کو متاثر کیے بغیر نہ رہ سکیسوری کشف باجی ۔یہ روحان ماموںبھی نا۔ ہر وقت جلدی میں ہوتے ہیں انہوں نے مجھے بھی جلدی میں بوکھلا دیا ۔میں نے کہنا تھا کہ کشف باجی کے نمبر سے کیا تھا میں نے اور میں نے کہ دیا کشف باجی نےاچھا چلو چھوڑو بہت دیر ہو گئی ہے چلو اب جا کے سو جائیں------
کشف سونے کا بہانہ کرنے لگی ۔اور کافی دیر تک جب عالیہ کے سونے کا یقین ہو گیا ۔چپکے سے موبائل اٹھایاتو روحان کے چھ سات میسج تھے۔ جہنیں پڑھ کے کشف کے دل کی دھڑکنیں بے تر تیب ہونے لگیں۔رات کا تقریباًایک بج رہا تھا۔اتنی رات کووہ مجھے میسج کیوں کر رہا ہے ۔وہ تو شکار پر ہے۔تو وہاں مجھے میسج کرنے کی اسے فرصت کیسے؟ اور میں اس کے لیے کوئی اہم تو نہیں کہ شکار کے دوران شکار چھوڑ کر ۔دوستوں کے درمیان مجھے میسج کیے جائیں۔ کشف بھی گھنٹہ بھر خود سے ہی ہمکلام رہی۔ اس نے کتنی بار میسج پڑھ لیے۔پھر اس نے بھی کچھ اشعار فارورڈ کر دئیے۔مگر میسج بھیجنے کے بعد وہ بہت پریشان ہوئی۔اور سوچنے لگی ۔یا اللہ ۔یہ میں نے کیا کر دیا۔اگر روحان نے میسج کسی کو دکھ دئیے تو----- اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مو بائل کسی دوست کے ہاتھ میں ہو۔ وہ اس قدر پریشان رہی کہ رات بھر سو نہ سکی۔صبح کی ہلکی ہلکی روشنی کھڑکیوں کے پردوں سے تانک جھانک کرنے لگی۔تب کشف کی آنکھ لگی۔------****--------****-----صبح کے نو بج رہے تھے عالیہ نے ناشتہ بنا لیا ۔عریان ۔شیری اورگڑیا کئی بار کشف کو جگانے آئے مگ جب وہ نہ جاگی تو عریان بولو۔چلو یار ہم ناشتہ کریں۔ کشف باجی تو آج گھوڑے بیچ کر سوئیں ہیں۔اسی اثناء میں روحان کمرے میں داخل ہوا اور عریان کی بات سن کر مسکرادیا ۔عریان حیرانگی سے بولا۔ ماموں آپ؟ آپ یہاں اس روم میں؟روحان بولا ہاں ۔میرے روم میں پانی نہیں آرہاتھا۔اس لیے اس واشروم میں ہاتھ منہ دھونے آیا ہوں۔اچھا ماموں ناشتہ تیار ہے ہم جا رہے ہیں آپ بھی منہ دھو کر کچن میں آجائیں۔روحان بولا ۔اچھاتم لوگ جاؤ میں بھی آتا ہوں۔جیسے ہی کشف کے کانوں میں روحان کی آواز ٹکرائی اس کے دل میں گھنٹیاں سی بجنے لگیں مگر اسنے منہ کمبل سے باہر نہ نکالا۔وہ دل ہی دل میں بولی ۔موقع اچھا ہے کیوں نہ میں روحان کو منع کر دوں ۔کہ میں نے جو میسج کیے ہیں وہ کسی کو نہ دکھائے۔اور نہ ہی کسی سے اس بارے میں بات کرے ۔------****-------***--------***یہ خیال آتے ہی کشف کمبل اتار کر اٹھ بیٹھی اور بالوں کو انگلیوںسے ترتیب دے کر بالوں کو کیچر لگانے لگی۔ باتھ روم کا دروازہ کھلا۔اس نے ایک نظر روحان کو دیکھا۔نظریں چار ہوتے ہی دونوں نے یکدم نظریں چرا لیں۔پتہ نہیں ایک دوسرےکی نظروں کی تاب نہ لا سکے یا کشف کی شادی شدہ زندگی آڑے آرہی تھی۔ یا روحان کو عالیہ بیگم کا خیالآ گیا کہ انہوں نے مجھ پر اعتبار کر کے اپنےگھر میں رکھاہوا ہے۔روحان کمرے سے باہر جانے ہی والا تھا کہ کشف آہستگی سے بولی ۔روحان بھائی )کشف جب سے بیاہ کے آئی تھی وہ روحان بھائی ہی کہتی تھی( وہ ایک لمحے کے لیے رکا مگر پیچھے مڑ کر نہ دیکھا۔کشف بولی کسی سے میسجز کا ذکر نہ کیجیئے گا کیونکہ لوگوں کے سوچنے کا انداز ہمیشہ الٹا ہی ہوتا ہے۔ روحان نے پلٹ کر سرسری نگاہ کشف پر ڈالی اور بولا نہیں ----- نہیں آپ اس کی بلکل فکر نہ کریں اور کمرے سے باہر نکل آیا۔ کشف شرمندگی اور گھبراہٹ کی مل جلی کیفیت سے دوچار ہاتھوں کی انگلیاں مروڑنے لگی۔-------****--------***-------**کشف اپنے گھر آ چکی تھی ۔ابو )سسر( خورشید صاحب کو کھانا دینے کے بعد کچن صاف کیا اور بولی ابو کوئی اور کام ہےتو بتائیے۔یا میں اپنے کمرے میں جاؤں۔ابو بولے ۔نہیں بیٹی کوئی کام نہیں تم جاؤ ۔اللہ خوش رکھےکشف کمرے میں آکر فریش ہو کر نائٹ ڈریس میں ملبوس پاؤں پرمساج کرنے لگی۔میسج کی ٹیون بجی ۔کشف نے اگنور کیا۔وہ پچھلے دن کے واقعے کو تقریباً بھول چکی تھی ۔مساج ختم کرنے کے بعد ہلکا ہلکا میوزک آن کر کےوہ پیچھے کشن رکھے ریلیکس پوزیشن میں بیٹھی موبائل چیک کرنے لگی ۔جیسے ہی میسج اوپن
کیا۔یکدم وہ اچھل کر بیٹھ گئی ۔-----
مرد عورت کے متعلق بہت جلد غلط فہمی کا شکار ہو جاتے ہے چاہے وہ اپنی ہو یا پرائی ۔اگر عورت اس کی اپنی بہن بیٹی یا بیوی ہو تو اس غلط فہمی کا شکار رہے گا کہ یہ تیار ہو کر کہاں جا رہی ہے۔وہ فلاں شخص ان دنوں ہمارے گھر کچھ زیادہ ہی آنے جانےلگا ہے۔ نظر رکھنی پڑے گیاور اگر عورت کسی اور کی بہن بیٹی یا بیوی ہو تو پھر بے دھیانی میں کہی گئی بات بھی سیدھی ٹھک جا کے دل پہ لگے گی۔ہو نہ ہو یہ دل ہی دل میں مرتی ہے مجھ پہ۔اسی طرح کی غلط فہمی کا شکار روحان بھی ہو رہا تھا ۔وہ سوچ رہا تھا شاید کشف کے دل میں میرے لیے کچھ ہے ۔ اور مزاحیہ میسج بھیجنے کا مقصد شاید صرف یہ ہو کہ جواب میں۔ میں بھی اس کو میسج بھیجوں اور یوں بات آگے بڑھ سکے۔روحان نے جس جوش وجذبے کے ساتھ شکار کا پروگرام بنایا تھا اب وہ جذبہ مانند پڑھ چکا تھامخالف جنس کی کشش کا جذبہ تمام جذبوں پر حاوی ہوتا ہے اور اس جذبے کی انگاری ہمارے اندر اس وقت سلگنے لگتی ہے جب ہم۔ آپ ہی آپ دل میں کسی کے بارے میں کچھ تصور کر لیتے ہیں چاہے اس میں حقیقت کچھ بھی نہ ہو ۔خود ہی سوال کرتے ہیں اور خود ہی دوسرے فریق کی طرف سے جواب گڑھ لیتے ہیں۔اس کا جی چاہ رہا تھا کہ وہ واپس چلا جائے مگر سوچوں کے دھارے میں بہتے بہتے وہ خالد کے دروازے پر پہنچ چکا تھا۔روحان نے نہ چاہتے ہوئے بھی غیر شعوری طور پر بیل بجا دی۔خالد نے دروازہ کھولا تو روحان غصے سے بولا یار تم ابھی تک تیار نہیں ہوئے جلدی نکل۔خالد بولا ۔ ارے بس پانچ منٹ ۔ میںابھی کپڑے بدل کر آتا ہوں۔جلدی کیسی ہے ۔ابھی تو ساری رات باقی ہے تم اندر آؤ اور دوستوں کے ساتھ بیٹھ کے چائے پیو۔روحان بولا نہیں تم چینج کر کے باقی دوستوں کو لے کر باہر ہی آ جاؤ۔خالد بولا اچھا ٹھیک ہےجیسے تمہاری مرضی۔روحان نے موبائل نکال کر ایک بار پھر کشف کا میسج پڑھا اس میں کچھ بھی خاص نہیں ہے تو مجھے یہ اتنا خاص کیوں لگ رہا ہے مجھے کوئی ان دیکھی طاقت اپنے شکنجے میں کیوں جکڑ رہی ہےروحان سے رہا نہ گیا اور سوچنے لگا کہ ایک میسج کرتا ہوں کم از کم اگر میری غلط فہمی ہے تو دور تو ہو۔روحان نے ڈرتے دل اور کانپتے ہاتھوں سے ایک میسج بھیج دیا۔------****--------******تمام دوست چاندنی رات میں بندوقییں اٹھائے ہاتھوں میں ٹارچز اٹھائے نہایت چوکنا ہو کر آگے بڑھ رہے تھے۔ان کے ساتھ دو شکاری کتے بھی تھے۔جو شکار کی تلاش میں آگے آگے چل رہے تھے۔خالد نے جیب سے مو بائل نکال کر بےچینی سے دیکھا کہ شاید کوئی جوابی میسج آیا ہو۔ مگر موبائل پر نیو میسج کا کوئی سائن نہ دیکھ کر مایوسی سے موبائل کو دوبارہ جیب میں رکھ لیا۔اتنے میں خالد چوکنا ہو کر بولا ۔روحان فائر کرو۔مگر روحان چونک کر سوالیہ انداز میں بولا ۔"ہوں "اور ادھر ادھر دیکھنے لگا۔تمام دوست اس کو لعنت ملامت کرنے لگے کہ اتنا زبردست شکار ہاتھ آیا تھا جو تمہاری سستی کی وجہ سے ہاتھ سے نکل گیا ہے۔روحان شرمندہ ہو کر خجل سا ہو گیا ۔اور کہنے لگا یار پتہ نہیں مجھے کیاہو گیا ہے۔ مجھے خود نہیں معلوم۔ میں تمہارے ساتھ ہو کر بھی تمہارے ساتھ نہیں ہوں ۔مجھے یہی چھوڑ جاؤ اور تم لوگ جاؤ۔میں یہاں ٹیلے پر بیٹھ کر تمہارا انتظار کرتا ہوں۔کاشف بولا ۔نہیں یار اگر تمہاری طبیعت خراب ہے تو واپس چلتے ہیں۔روحان بولا نہیں ۔میری وجہ سے تم لوگ اپنا پروگرام خراب نہ کرو ۔ میں ویسے بھی چاند کی دودھیا چاندنی کو انجوائے کرنا چاہتا ہوں۔کاشف بولا ۔چلو یار اس کو یہیں رہنے دو۔ ادھر معاملہ چاند کی چودھویں کا ہے۔اور سب دوست قہقہے لگاتے روحان کو وہیں ٹیلے پر چھوڑ کر روانہ ہو گئے۔روحان نے جیب سے موبائل نکال کر دو تین میسج اور کر دیئے اشعار کی صورت میں جن میں اس نے اپنا حالِ دل بیان کر دیا۔ اور ساتھ ہی ایک مس کال بھی دے دی۔--------*****--------***--------****بچوں کے سو جانے کے بعد کشف جب سونے کے لیے عالیہ کے کمرے میں آئی تو عالیہ بیگم کی آنکھ کھل گئی۔بیڈ کی ایک سائیڈ پر عالیہ بیگم اور دوسری طرف کشف لیٹ کر باتیں کر رہیں تھیں کہ میسج کی ٹیون بجی۔ کشف نے میسج دیکھا تو روحان کا نمبر دیکھ کر حیران رہ گئی۔اور گبھرا کر عالیہ کی طرف دیکھاجو میسج کی ٹیون سن کر کشف کی طرف ہی دیکھ رہی تھی۔ عالیہ کی نظرو ں میں موجود سوال کشف پڑھ چکی تھیکہ اتنی رات کو کس کا میسج ہے۔مگر شاید مصلحتاً پوچھنا مناسب نہ سمجھا۔ کہ کہیں کشف برا نہ مان جائے اور کشف نے خود سے بھی کچھ نہ بتایا۔ کشف شرمندہ سی ہو گئی اورموبائل جلدی سے سائلنٹ پر لگا کر بیڈ کی سائیڈ پر الٹا کر کے رکھ دیا۔ تاکہ عالیہ شک نہ کرے۔کشف گبھراہٹ کی وجہ سے کروٹ لے کر لیٹ گئی۔عالیہ اگر کوئی بات کرتی بھی تو کشف صرف ہوں ہاں کرتی۔اور کوئی خاص جواب نہ دیتی ۔عالیہ بولی ۔کشف لگتا ہے تمہیں نیند آ رہی ہے ٹی وی بند کر کے سو جاؤ۔کشف بولی ۔جی پھوپھو ۔اور ٹی وی بند کر کے دوبارہ اسی پوزیشن میں لیٹ گئی
کبھی خاموش بیٹھو گے کبھی کچھ گنگناؤ گے
میں اتنا یاد آؤں گا مجھے جتنا تم بھلاؤ گے
پوچھ بیٹھے گا جب کوئی خاموشی کا سبب تم سے
بہت بتانا چاہو گے مگر بتا نہ پاؤ گے
کبھی دنیا مکمل بن کے آئے گی نگاہوں میں
کبھی میری کمی دنیا کی ہر ایک چیز میں پاؤ گے
جہاں پر بھی رہیں ہم تم محبت پھر محبت ہے
تمہیں ہم یاد آئیں گے ہمیں تم یاد آؤ گے
کشف عجیب دوہراہے پر آ کھڑی ہوئی تھی۔اسے اگر چہ روحان کا یوں بار بار میسج کرنا اچھا نہیں لگ رہا تھا تو پھر وہ اس کو روک کیوں نہیں رہی تھی۔ مطلب کشف کو اگر اچھا نہیں لگ رہا تھا تو برا بھی نہیں لگ رہا تھا۔کشف موبائل ہونٹوں کے ساتھ لگا کر کچھ سوچنے لگی ۔
ہما رے معاشرے میں جب مرد کی شادی ہوتی ہے تووہ ٹھاٹھیں مارتے سمندر کی طرح آؤٹ آف کنٹرول ہو رہا ہوتا ہے دو ماہ تک تو اس سے اپنا آپ ہی کنٹرول نہیں ہو رہا ہوتا ہے۔تو وہ بیوی کو کنٹرول میں کیا کرے گا ۔میرا اپنا مشہور مقولہ ہے "یا ڈھا چھوڑ یا ڈھے ونج"۔" یعنی یا گر جاؤ یا گرا دو"
اس کا مطلب یہاں گرانا نہیں اصل میں سنبھالنا کے ہیں کنٹرول کرنے کے ہیں۔اگر شادی کے پہلے دو ماہ میں شوہر بیوی کو اپنی محبت کا اسیر بنا لے تو وہ ساری زندگی اس کی غلام۔اس کے علاوہ کسی کے بارے میں نہیں سوچے گی لیکن اگر مرد ایسا کرنے میں ناکام رہے ۔یا نہ کرے یا عورت سمجھ جائے کہ یہ اداکاری کر رہا ہے تو وہ ساری زندگی اس پر اعتبار نہیں کرے گی۔اور اگر مرد سے ذرا سی غلطی کوتاہی ہو گئی تو عورت اس کو کبھی معاف نہیں کرے گی وہ اس کو چھوڑ دے گی۔چھوڑنا دو طرح سے ہو سکتا ہے یا تو مکمل طور پر علیحدگی اختیار کر لےگی یا ساتھ رہتے ہوئے کسی اور کی ہو جائے گی۔
یہی تو نعمان سے نہ ہو سکا۔وہ شادی کے دو ماہ بعد ہی چلا گیا اس نے دو ماہ میں ایک بار بھی کشف کو سجھنے کی کوشش نہ کی ۔ اسے تو بس اتنا خیال تھا کہ اس کی شادی ہو گئی ہے اور اس کے پاس صرف دو ماہ ہیں ۔لہذا بس بیڈ روم میں ہی گزارو۔
سو گیا ۔کھا لیا اور پھر سو گیا۔
دو ماہ کے بعد دو سال گزر گئے۔خود نعمان وہاں نائٹ کلبوں میں ہر روز نئی گرل کے ساتھ ہوتا تھا ۔کشف نے کئی دفعہ گھر آنے کا بولا۔مگر نعمان کا جواب تھا مجھے اُدھر کا پانی ہی موافق نہیں آتا۔ اسی لیے ڈرتا نہیں آتا اصل کہانی اور تھی جن لتوں کا وہ عادی ہو چکا تھا وہ پاکستان میں تھوڑا مشکل تھا تو ہاضمہ توخراب ہونا ہی تھا۔
اسی لیے تو روحان کے میسج پڑھ کر کشف کے دل کی دھڑکنیں تیز ہونے لگتیں وہ ایک مسحور کن مسرت سے سرشار ہو جاتی کہ کوئی مجھے بھی چاہنے لگا ہے کوئی تو ہے جو مجھے بھی پیار کرنے لگا ہے۔بے شک چاہے جانے کی خواہش تو ہر انسان مردو زن کے اندر موجود ہوتی ہے۔
کشف روحان کی طرف سے آئے ہوئے ایک ایک شعر کے ہزار ہزار معنی نکالتی۔ پھر دل ہی دل میں مسکرانے لگتی۔
یوں کچھ دنوں تک اشعار کا تبادلہ ہوتا رہا ۔آخر ایک دن روٹین سے ہٹ کر میسج آیا کہ " میرے نمبر پر کال کر کے سمارٹ ٹیون سنیں"
کشف نے نمبر ڈائل کیا دوسری طرف گانا تھا
خواب ہے تو ۔نیند ہوں میں۔دونوں ملیں تو راگ بنے
روزیہی مانگوں دعا۔تیری میری بات بنے ۔بات بنے
میں رنگ شربتوں کا ۔تو میٹھے گھاٹ کا پانی
مجھے خود میں گھول دےتو ۔میرے یار بات بن جانی
کشف کا دل ٹیون کی لے پہ دھڑکنے لگا اور وہ روحان کے پیار کے سحر میں گرفتار ہوتے ہوئے خود سپردگی کی کیفیت میں خود کو محسوس کرنے لگی وہ سب کچھ بھول جانا چاہتی تھی کہ میں کیا ہوں ؟کون ہوں ؟کیا کر رہی ہوں ؟اچھا کر رہی ہوں یا برا۔ سب بھولنے لگا۔
ٹیون بند ہوئی تو ساتھ ہی کال آئی۔
کشف کا دل عجیب کشمکش میں تھا وہ کال تو یس کر بیٹھی مگر بات کرنے کے لیے ہمت جیسے تھی ہی نہیں ۔
کنوارہ مرد ہو اس کو اگر شادی شدہ لڑکی سے عشق کا موقع مل جائے تو پھر اس کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں
دوسر ی طرف سے ہیلو کی آواز آئی۔ کشف جواب میں کچھ نہ بولی ۔دوسری بار زرا زور سے ہیلو کی آواز آئی تو کشف نےبھی دھیمی آواز میں ہیلو بولا۔ روحان بولا۔ کیسی لگی ٹیون ؟
کشف شرما کر بلکل دھیمی آواز میں بولی ۔بہت اچھی ۔
تھوڑی دیر کے لیے دونوں طرف خاموشی رہی پھر روحان بولا۔سارے میسج ڈیلیٹ کر کے سوناپلیز۔
کشف بولی۔جی اچھا اور آپ بھی ڈیلیٹ کرنا۔
روحان بولا۔ آف کورس ۔ڈونٹ وری۔
اوکے دین۔ بائے
کشف تڑپ کر بولی ۔بس------- یہی کہنے کے لیے فون کیا تھا؟
روحان مسکرا کر سب سمجھتے ہوئے بھی انجان بن کر پوچھنے کے انداز میں بولا ۔تو کیا------- اور بھی کچھ کہنا ۔۔تھا
کشف گھبرا گئی اور بولی ۔"نہیں -----کچھ نہیں -----اچھا خدا حافظ۔"
روحان ہنس دیا اور بولا اوکے اب رات بہت ہو گئی ہے کل بیلنس کرا کے آپ کا نمبر فیورٹ کروں گا اور کل کال کروں گا۔
بھلا ہو موبائل کمپنیز والوں کا۔جہنوں نے باتو ں اور ملاقاتوں کے سلسلے عروج پر پہنچا دیئے ہیں اور کوئی ان کے خلاف اقدام کرنے یا احتجاج کرنے والا بھی نہیں۔ بلکہ سب خوش ہیں۔
ہماری دادی کہتی تھیں کہ قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہو گی کہ ہر گھر کی چھت پر شیطان ناچے گا۔ اور وہ شیطان آج ڈش۔ کیبل۔ سگنل بوسٹرز اور موبائل سگنلز ہیں جس کی وجہ سے ہر طرف شیطانوں کا راج ہے۔
ناچ گانا ۔مجرے ۔فلمیں۔ من پسند گندگی دن بدن پھیل رہی ہے اور آج کل شیطان فل ریلیکس موڈ میں رہتا ہے ۔اب اسے اتنی محنت نہیں کرنی پڑتی ۔
کشف نے اب عالیہ پھوپھو کے گھر جانا بھی کم کر دیا تھا کیونکہ وہاں وہ روحان کا سامنا نہیں کر سکتی تھی ۔بس ابھی تک بات میسجیز اور کال تک ہی محدود تھی ۔مگر روحان کا سامنا کرنے کی سکت کشف میں نہ تھی۔
عالیہ نے گلہ بھی کیا کہ اب تو تم آتی ہی نہیں ہو۔ لیکن کشف نے ابو (سسر) کی صحت کی خرابی کا بہانہ بنا کر عالیہ کو خاموش کروا دیا۔
----------*****---------****
نعمان کو آج تنخواہ ملی تو وہ گھومنے پھرنے کے لیے نکل پڑا۔اس نے بہت اچھا کھانا کھایا۔وہسکی کا جام نوش کیا۔ اور پھر کاونٹر پر موجود آدمی جو اردو بول سکتا تھا بولا نعمان صاحب آپ کمرے میں چلے جایئے آپ کی پسند سے ہم خوب واقف ہیں اور آپ کی پسند کی چیز آپ کے کمرے میں پہنچا دی گئی ہے۔نعمان نے اپنےبلیک ۔گھنگھریالے ۔کندھے تک لمبے بالوں کو اپنے چوڑے شانوں پر جھٹکا دےکر پیچھے کیااور پھر کمرے کی طرف چل دیا۔
نعمان کی یہ روٹین تھی جس پر نہ تو اس کو کوئی شرمندگی تھی نہ پچھتاوا۔وہ کماتا اور اڑاتا ۔
گھر میں ایک بیوی اور ایک بوڑھا باپ تھا جن کو خرچہ بھیج کر وہ ہر ذمہ داری سے آزاد ہو جاتا تھا۔
آنکھوں میں شراب کی مستی لالی کے ڈورے لیے جھلک رہی تھی۔خوبصورت ڈریسنگ۔مردانہ وجاہت۔خوبصورت ڈیل ڈول اور پھر ہر طرح کی بے فکری نے اسے مخمور کر دیا۔
ایسے میں ہوٹل کا خوبصورتی سے مزین کمرہ اور بانہوں میں ہر بار ایک نئی حسینہ۔----- اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ۔------------ وہ زندگی کو جنت نما گردانتا تھا مگر وہ بھول گیا کہ وہ تیزی سے تاریکی کے گڑھوں کی طرف جارہا ہے۔
وہ بھول چکا تھا اللہ جو جسموں جاں اور روح تک پر قابض ہے جو شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے وہ وہاں امریکہ میں بھی موجود ہے
بس اس خدا نے نعمان کی رسی کو بھی ڈھیل دی ہوئی تھی ۔کہ دیکھو اب یہ کس طرف جاتا ہے ۔اور پھر ایک دن آ جائے گا فیصلے کا۔جس دن وہ رسی کومضبوطی سے کھینچے گا اور نعمان صاحب منہ کے بل جا گریں گے ۔شاید توبہ کا موقع ملےبھی یا نہ ملے۔
وہ رنگ رلیاں مناتا رہا اور پھر اسی حالت میں اس حسینہ کے ساتھ سو گیا جس کی رات بھر کی قیمت وہ ادا کر چکا تھا۔
نعمان نے خواب میں دیکھا کہ کشف اور نعمان کے بیڈ پر سانپ ہے جو کشف کے وجود سے لپٹا ہوا ہے ۔نعمان ڈنڈا لے کر اس کے پیچھے لپکا۔لیکن سانپ نے کشف کو ڈس لیا۔ اور سانپ بھاگ گیا۔جبکہ کشف تڑپنےلگی اگلے لمحے جب نعمان کی آنکھ ایک خوفناک چیخ کے ساتھ کھلی تو وہ گوری اس کے وجود سے لپٹی ہوئی تھی۔نعمان نے اسےاجلت میں خود سے الگ کیا تو وہ بھی گھبرا گئی۔اور نعمان کا دہشت زدہ چہرہ دیکھ کر گھبرا کر کمرے سے باہر بھاگ نکل گئی۔ دن بھر یہ خواب نعمان کے حواسوں پر سوار رہا مگر نعمان جس لت کا شکار ہو چکا تھا اس سے جان چھڑانا اتنا جلد ممکن نہ تھا ۔اگلی رات جب وہ کسی اور حسینہ کی بانہوں میں تھا تو پھر اس کو اپنے بستر پر سانپ نظر آیا۔ وہ دوبارہ گھبرایا۔
اب یہ خواب نعمان کی زندگی کام
دوسری طرف کشف گھنٹوں روحان سے موبائل پر بات چیت کرتی رہتی . روحان پیار ہی پیار میں فون پرکشف سے چھیڑ چھاڑ کرتا جب کشف چِڑ جاتی تو روحان ہنس کر کہتا میری جان ہلکی پھلکی موسیقی تو چلنی چاہیے نا۔جس پر کشف شرما جاتی۔
روحان نے کشف کو اس قدر اپنے پیار کا یقین دلا دیا اور اپنے اعتماد میں لے لیا۔ کہ وہ اب روحان کو ہی اپنا سب کچھ سمجھنے لگی۔دسمبر کا مہینہ تھا۔سردیوں کی ایک ٹھٹھرتی رات تھی۔ ٹھنڈی ہوائیں شاں شاں کرتی ہوئی کھڑکیوں سے ٹکرا کر اپنے چلنے کا پتہ دے رہیں تھیں۔گیس ہٹیر بھی کمروں کے درجہ حرارت کو نارمل کرنے کی کوشش میں تھے۔ مگر سردی تھی کہ کم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔
کشف اور روحان اپنے اپنے کمروں میں لحاف میں گھسے ایک دوسرے پر موبائل پر محو گفتگو تھے۔ وہ موبائل پر بھی اپنے آپ کو ایک دوسرے کے قریب محسوس کر رہے تھے اتنا قریب کہ جیسے وہ ایک دوسرے کی دھڑکنوں کو بھی سن سکتے ہوں۔مگر جب شدت جذبات میں ان کو احساس ہوتا کہ ہم قریب نہیں ہیں بلکہ دور ہیں تو ان کے جذبات کو یوں ہوا ملتی جیسے بھڑکتی آگ پر مٹی کا تیل کام کرتا ہے اور ایک ایسا آلاؤ بھڑک اٹھتا ہے جسے کنٹرول کرنا مشکل ہو جاتا ہے ۔اسی سیچویشن میں روحان یک دم بول اٹھا میں آرہا ہوں۔اور کشف یکدم خاموش ہو گئی وہ روک نہ پائی کیونکہ چاہتی وہ بھی یہی تھی مگر لاج آڑے آرہی تھی۔
دو نوں پیار کے چشمے سے مل کر خوب سر شار ہوئے۔ اور ترستی محبت کو قرار آیا۔اب دونوں کا دن رات کے انتظار اور رات ایک دوسرے کے پیار میں کٹنے لگی۔
----------****-----------*****
نعمان نے گاڑی ایک دینی درس گاہ کے سامنے روکی اور جوتے اتار کر اندر داخل ہوا عبدارحمان صاحب بچوں کو درس دے رہے تھے درس سے فارغ ہوئے تو نعمان نے اپنے مسلسل آنے والے خواب سنائے۔ اور یہ بھی بتایا کہ آج رات میں نے خواب میں اپنی بیوی کادوپٹہ جلتا ہوا دیکھا ہے۔ عبدارحمن صاحب ساری بات سن کر بولے بیٹا۔
تمہیں اب اپنے گھر جانا چاہیے اور کثرت سے اسغفار پڑھو ۔بےشک اللہ بہت رحیم وکریم ہے اور مغفرت کا دروازہ آخری سانس تک کھلا رہتا ہے۔ ہم جب گناہ کرتے ہیں تو پھر انجام کو بھول جاتے ہیں اور جب خدا ہماری رسی کو کھینچتا ہے تو
پھر لکیر پیٹنے کا کوئی فائدہ نہیں۔
نعمان سب کچھ سمجھ چکا تھا اور شرمندگی سے سر جھکائے وہاں سے باہر نکل آیا۔
نعمان کی زبان پر پورا رستہ اسغفار کا ورد تھا۔گھر پہنچ کر اس نے دو رکعات نماز نفل پڑھی اور اللہ سے دعا مانگی۔یا اللہ میں جس بری لت میں گرفتار ہو چکا ہوں اسے چھوڑنا میرے بس میں نہیں ہے۔یااللہ تو میری مدد فرما۔اور مجھے نیکی کے رستے پر چلنے کی تو فیق دے۔
بے شک اللہ تو سنتے ہی معافی کا اعلان فرما دیتا ہے ۔اور اللہ اسےگناہوں سے بچنےاور نیکی کی طرف مائل ہونے کی توفیق ضرور دیتا ہے جس کو ان کی طلب ہو۔
آخر کار نعمان جو کہ گردن تک گناہوں کی دلدل میں جکڑا ہوا تھا۔اس کا ایمانجیت گیا اور نفس ہار گیا۔نعمان اٹھ کر فون کے پاس جا بیٹھا اور نمبر ملانے لگا۔
--------****-----------*****
کشف اور روحان ساتھ تھے۔کہ فون کی گھنٹی بجی کشف نے گھبرا کر فون سائلنٹ پر لگا دیا۔روحان بولا کس کا فون ہے کشف نے ڈر اور خوف کے باعث گھبرا کر پیچھے ہٹنے کی کوشش کی۔اور بولی نعمان کا۔ روحان بولا گھبراؤ نہیں میری جان دور کیوں ہوتی ہو ۔تم فون یس کرو کال ہے کوئی کیمرہ نہیں۔
اور یار تم کیوں بھول رہی ہو یہ وہی شخص ہے جس نے تمہیں ایک فالتو چیز سمجھ کر پھینک دیا تھا۔تمہاری قدر نہیں کی تھی۔
روحان کے ان الفاظ نے کشف کو ہمت دی اس نے فون یس کیا۔جبکہ روحان اپنے خاموش پیار سے اسے سلگانے لگا۔
دوسری طرف نعمان جو کشف کی آواز سننے کے لیے بےچین تھا فوراً بولا ہیلو کشف کیسی ہو تم؟
کشف بولی میں ٹھیک ہوں آپ نے اتنی رات کو کال کی خیریت ہے؟
ہاں کشف مجھے تم سے کچھ کہنا ہے۔ مجھے معاف کر دو ۔صبح سال کا پہلا دن ہے اور میں اس کل کے نکلتے سورج کے ساتھ ہی ایک نئی زندگی کی شروعات کرنا چاہتا ہوں ۔جس میں میرے ساتھ صرف تم ہو گی میری زندگی کی ساتھی۔
میں کل آ رہا ہوں ۔
کشف یک دم خاموش ہو گئی روحان بھی پریشان ہو گیا وہ سب سن رہا تھا۔
نعمان بار بار کشف کو پکار رہا تھا۔روحان نے کشف کو جھنجھوڑا ۔
کشف بولی جی۔-----جی ٹھیک ہے۔
کشف تم سچے دل سے بولو کہ تم نے مجھے معاف کر دیا ہے
جی م-----مم----- میں نے ------آپ کو معاف کیا
کشف نے لڑھکڑاتی آواز کے ساتھ جملہ مکمل کیا۔
نعمان بولا ۔بہت شکریہ کشف آئی لو یو ۔اوکے کشف ۔خدا حافظ
کشف اٹھ کر بیٹھ گئی اور بولی روحان میں تمہارے بغیر نعمان کے واپس آنے پر کشف دو حصوں میں بٹ چکی تھی ۔اس کے اندر ہر وقت ایک جنگ جاری رہتی۔اگچہ آنکھوں اور دماغ نے نعمان کی واپسی کو قبول کر لیا تھا مگر دل تھا کہ مانتا ہی نہ تھا۔دل اور دماغ کی لڑائی میں انسان پاگل ہو جاتا ہے۔
لڑکیوں کو شروع سے ہی تربیت دینی چاہیے کہ وہ دماغ کی مانیں جو لڑکیاں دل کو دماغ پر ترجیح دیتی ہیں وہ منہ کے بل گرتی ہیں۔ جوش سے نہیں ہوش سے کام لینا چاہیے۔
کشف کا دل بھی دماغ پر حکمرانی کر رہا تھا ۔ اگر نعمان کے ساتھ کھل کر بغاوت کرتی تو معاشرے کی تھو تھو۔دوسرا عالیہ پھوپھو کی زبانی معلوم ہوا کہ روحان کی اگلے مہینے شادی تیار ہے۔
کشف نے لڑکی کے بارے میں چند سوالات کرنے کے بعد پوچھا ۔روحان خوش ہے؟
عالیہ بیگم بولیں۔ ہاں بہت خوش ہے شادی کی تیاری زور و شور پر ہے ۔ہونے والی دلہن کی زیادہ تر شوپنگ خود ہی کر رہا ہے۔
یہ سن کر کشف کی رہی سہی ہمت بھی جواب دینے لگی۔وہ نعمان سے بغاوت کر بھی دیتی مگر اب کس کے لیے۔
دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر کشف نے ایک دن موقع پا کر روحان کو کال ملائی ۔وہ حال احوال پوچھنے لگا ۔مگر کشف کسی بھی بات کا جواب دئیے بغیر فوراً مدعے پر آئی۔اور سوالیہ انداذ میں بولی۔تم شادی کر رہے ہو ؟
روحان بولا ہاں شادی تو کرنی ہی ہے۔مگر دل تو تمہارا ہی ہے نا۔
لیکن روحان میں ---------اور کشف دل برداشتہ ہو کر رونے لگی ۔
ارے رونے کی کیا بات ہے ۔تم بھی تو شادی شدہ تھیں میں نے کبھی اعتراض کیا ؟
کشف کے پاس کوئی جواب نہ تھا دل برداشتہ ہو کر فون بند کر دیا۔
کشف کو اب نہ کھانے کا ہوش تھا نہ پینے کا نہ سونے کا نہ جاگنے کا۔
چند دن ہی آگے سرکے ہوں گے کہ کشف بے ہوش ہو گئی۔ نعمان جلدی سے اسے ہسپتال لے گیا ۔ڈاکٹر نے ابتدائی چیک اپ کے بعد نعمان کو مبارکباد دی کہ ماشااللہ آپ باپ بننے والے ہیں ۔مگر آپ کی وائف بہت کمزور ہے اس کی صحت کا بہت خیال رکھیں۔
یہ سن کر کشف کانپ کر رہ گئی ۔وہ سوچنے لگی ۔یہ بچہ کس کا ہو گا ۔اگر اس بچے کا باپ روحان ہوا تو میں خود کو کیسے معاف کروں گی۔ کیسے نعمان کے گھر اور ہاتھوں میں اسے پلتا ہوا دیکھوں گی ۔کیسے نعمان کو پرائے بچے پر فریفتہ ہوتا ہوا دیکھوں گی۔
دن تو دن راتوں کو بھی کشف بس خالی دیواروں اور چھت کو گھورتی رہتی۔
نعمان اس کا بہت خیال رکھتا ۔مگر وہ دن بدن پیچھے ہی پیچھے ہو رہی تھی۔ صحت کے ساتھ ساتھ کشف کے دماغ پر بھی بہت برا اثر پڑنے لگا تھا۔وہ ہر وقت روحان کے خیالوں میں کھوئی رہتی کبھی اس سے خیالوں ہی خیالوں میں پیار کرتی اور مسکرانے لگتی ۔اور کبھی اس کی بے وفائیوں اور بے اعتنائیوں کو یاد کر کے رونے لگتی اور نفرت کرنے لگتی۔
اب اسے اکثر وہ دکھائی دینے لگتا جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہ ہوتا تھا۔
نعمان کشف کی حالت سے بہت پریشان تھا ۔مگر بچے کی پیدائش تک ڈاکٹر نےذہنی علاج کروانے سے منع کر دیا۔
نعمان پانچ وقت کی نمازکے ساتھ ساتھ تہجد ۔نوافل اور قرآن مجید کی تلاوت کا بھی اہتمام کرتا تھا اور اللہ کا شکر ادا کرتا تھا جس نے اس کو توبہ کی توفیق دی تھی۔
------------*** ------------*** *
کشف کی طبعیت سخت خراب ہونے لگی اس کے پیٹ میں شدید درد تھا ۔نعمان نے فوراً ہسپتال پہنچایا۔کچھ دیر کے بعد نرس نے خوشخبری سنائی کہ بیٹا پیدا ہوا ہے ۔ اب آپ اپنی بیوی اور بچے کو دیکھ سکتے ہیں۔اور ہاں یہ دوائیاں بھی لے آئیے۔نعمان بھاگ کر خوشی خوشی اندر داخل ہوا اور فرطِ جذبات میں کشف کا ماتھا چوم لیا۔
نعمان نے بچے کو اٹھا کر پیار کیا۔ اور ایک بار پھر مسکرا کر کشف کو دیکھا ۔آج کشف اسے ہوش میں دکھائی دی۔ شاید وہ نعمان کے آنے اور روحان کے جانے کے بعد پہلی اور آخری بار ہوش میں آئی تھی۔اس نے کشف کے ہاتھوں میں بچے کو دیا اور بولا ۔یہ نیچے ہی میڈیکل سٹور ہے میں ابھی دوائیاں لے کر آتی ہوں۔
اس کے جانے کے بعد کشف نےبچے کو غور سے دیکھا۔
بچے ک انگ انگ میں اسے روحان کی جھلک دکھائی دینے لگی ۔اس کے سیاہ بال۔بھوری آنکھیں اس کے ہونٹ ۔رخسار۔ ہاتھ پاؤں سب میں روحان کی جھلک تھی
کشف آپے سے باہر ہونے لگی۔اس کا خود پر اور اپنے حواسوں پر کنٹرول ختم ہونے لگا وہ چیخنے لگی ۔
نہیں --------نہیں نہیں
میں سانپ کے ساتھ کھیلتی رہی ہوں ۔یہ سانپ کا بچہ ہے۔یہ سنپولیا ہے ۔
کشف کا دل بھی دماغ پر حکمرانی کر رہا تھا ۔ اگر نعمان کے ساتھ کھل کر بغاوت کرتی تو معاشرے کی تھو تھو۔دوسرا عالیہ پھوپھو کی زبانی معلوم ہوا کہ روحان کی اگلے مہینے شادی تیار ہے۔
کشف نے لڑکی کے بارے میں چند سوالات کرنے کے بعد پوچھا ۔روحان خوش ہے؟
عالیہ بیگم بولیں۔ ہاں بہت خوش ہے شادی کی تیاری زور و شور پر ہے ۔ہونے والی دلہن کی زیادہ تر شوپنگ خود ہی کر رہا ہے۔
یہ سن کر کشف کی رہی سہی ہمت بھی جواب دینے لگی۔وہ نعمان سے بغاوت کر بھی دیتی مگر اب کس کے لیے۔
دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر کشف نے ایک دن موقع پا کر روحان کو کال ملائی ۔وہ حال احوال پوچھنے لگا ۔مگر کشف کسی بھی بات کا جواب دئیے بغیر فوراً مدعے پر آئی۔اور سوالیہ انداذ میں بولی۔تم شادی کر رہے ہو ؟
روحان بولا ہاں شادی تو کرنی ہی ہے۔مگر دل تو تمہارا ہی ہے نا۔
لیکن روحان میں ---------اور کشف دل برداشتہ ہو کر رونے لگی ۔
ارے رونے کی کیا بات ہے ۔تم بھی تو شادی شدہ تھیں میں نے کبھی اعتراض کیا ؟
کشف کے پاس کوئی جواب نہ تھا دل برداشتہ ہو کر فون بند کر دیا۔
کشف کو اب نہ کھانے کا ہوش تھا نہ پینے کا نہ سونے کا نہ جاگنے کا۔
چند دن ہی آگے سرکے ہوں گے کہ کشف بے ہوش ہو گئی۔ نعمان جلدی سے اسے ہسپتال لے گیا ۔ڈاکٹر نے ابتدائی چیک اپ کے بعد نعمان کو مبارکباد دی کہ ماشااللہ آپ باپ بننے والے ہیں ۔مگر آپ کی وائف بہت کمزور ہے اس کی صحت کا بہت خیال رکھیں۔
یہ سن کر کشف کانپ کر رہ گئی ۔وہ سوچنے لگی ۔یہ بچہ کس کا ہو گا ۔اگر اس بچے کا باپ روحان ہوا تو میں خود کو کیسے معاف کروں گی۔ کیسے نعمان کے گھر اور ہاتھوں میں اسے پلتا ہوا دیکھوں گی ۔کیسے نعمان کو پرائے بچے پر فریفتہ ہوتا ہوا دیکھوں گی۔
دن تو دن راتوں کو بھی کشف بس خالی دیواروں اور چھت کو گھورتی رہتی۔
نعمان اس کا بہت خیال رکھتا ۔مگر وہ دن بدن پیچھے ہی پیچھے ہو رہی تھی۔ صحت کے ساتھ ساتھ کشف کے دماغ پر بھی بہت برا اثر پڑنے لگا تھا۔وہ ہر وقت روحان کے خیالوں میں کھوئی رہتی کبھی اس سے خیالوں ہی خیالوں میں پیار کرتی اور مسکرانے لگتی ۔اور کبھی اس کی بے وفائیوں اور بے اعتنائیوں کو یاد کر کے رونے لگتی اور نفرت کرنے لگتی۔
اب اسے اکثر وہ دکھائی دینے لگتا جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہ ہوتا تھا۔
نعمان کشف کی حالت سے بہت پریشان تھا ۔مگر بچے کی پیدائش تک ڈاکٹر نےذہنی علاج کروانے سے منع کر دیا۔
نعمان پانچ وقت کی نمازکے ساتھ ساتھ تہجد ۔نوافل اور قرآن مجید کی تلاوت کا بھی اہتمام کرتا تھا اور اللہ کا شکر ادا کرتا تھا جس نے اس کو توبہ کی توفیق دی تھی۔
------------***
کشف کی طبعیت سخت خراب ہونے لگی اس کے پیٹ میں شدید درد تھا ۔نعمان نے فوراً ہسپتال پہنچایا۔کچھ دیر کے بعد نرس نے خوشخبری سنائی کہ بیٹا پیدا ہوا ہے ۔ اب آپ اپنی بیوی اور بچے کو دیکھ سکتے ہیں۔اور ہاں یہ دوائیاں بھی لے آئیے۔نعمان بھاگ کر خوشی خوشی اندر داخل ہوا اور فرطِ جذبات میں کشف کا ماتھا چوم لیا۔
نعمان نے بچے کو اٹھا کر پیار کیا۔ اور ایک بار پھر مسکرا کر کشف کو دیکھا ۔آج کشف اسے ہوش میں دکھائی دی۔ شاید وہ نعمان کے آنے اور روحان کے جانے کے بعد پہلی اور آخری بار ہوش میں آئی تھی۔اس نے کشف کے ہاتھوں میں بچے کو دیا اور بولا ۔یہ نیچے ہی میڈیکل سٹور ہے میں ابھی دوائیاں لے کر آتی ہوں۔
اس کے جانے کے بعد کشف نےبچے کو غور سے دیکھا۔
بچے ک انگ انگ میں اسے روحان کی جھلک دکھائی دینے لگی ۔اس کے سیاہ بال۔بھوری آنکھیں اس کے ہونٹ ۔رخسار۔ ہاتھ پاؤں سب میں روحان کی جھلک تھی
کشف آپے سے باہر ہونے لگی۔اس کا خود پر اور اپنے حواسوں پر کنٹرول ختم ہونے لگا وہ چیخنے لگی ۔
نہیں --------نہیں نہیں
میں سانپ کے ساتھ کھیلتی رہی ہوں ۔یہ سانپ کا بچہ ہے۔یہ سنپولیا ہے ۔
رہ پاؤں گی۔
وہ مجھے آئی لو یو بول رہا ہے مگر میرا پیار تم ہو ۔تمہارا چند دنوں کا ساتھ میری زندگی کا اثاثہ ہے۔میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتی۔کشف روحان کے ساتھ لپٹ کر روئے جا رہی تھی اور روحان اس کو دلاسہ دے رہا تھا۔
-----------*****----------
کہ" برائی کا نتیجہ ہمیشہ برا اور اچھائی کا نتیجہ اچھا ہی نکلتا ہے۔یہ قدرت کا قانون ہے جو کبھی نہیں بدلے گا"
الحمداللہ ہم مسلمان ہیں اور آخرت پر ایمان ہمارا عقیدہ ہے یعنی مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونا۔اور پھر اچھائی اور برائی کی بنیاد پر جنت یا دوزخ کا فیصلہ۔ تو پھر ہم یہ کیوں سمجھیں " کہ ہم جو بھی کرتے رہیں گے ہمارے ساتھ اچھا ہی ہو گا۔
کیوں؟
یہ دنیا آزمائش کی جگہ ہے میرا پختہ ایمان ہے کہ ہم خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھتےہیں جس کے نتیجے میں ہمارے ساتھ برا ہوتا ہے کبھی عذاب کی صورت میں اور کبھی آزمائش کی صورت میں۔
عذاب صرف تب نازل ہوتا ہے جب ہم اپنی خود سری میں حد سے آگے بڑھ جاتے ہیں اور واپسی کا بلکل نہیں سوچتے ہیں۔بیشک نعمان توبہ کر چکا تھا اور سچے رستے پر تھا تو اللہ اپنے نیک اور پاک اور مخلص بندے کو ساری زندگی دھوکے میں کیسے رکھتا۔ وہ بیوی دل سے نعمان کی تھی ہی نہیں۔وہ بچہ اس کا تھا ہی نہیں۔جس کے لیے وہ نو ماہ تک کشف کی خدمت خاطر دوائی دارو اور پیدائش تک خجل ہوتا رہا تھا۔کشف نے توبہ نہیں کی تھی اس کے دل میں روحان بستا تھا۔وہ ابھی بھی کسی نہ کسی طرح روحان کی خواہش مند تھی ۔وہ دل اور دماغ کی لڑائی میں دماغی طور پر مفلوج ہو گئی۔یہ تو آپ سب بھی جانتیں ہوں گے کہ جب ہم کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہے ہوتے ہیں
دل کچھ اور کہے اور دماغ کچھ اور بولے تو ہم کس قدر اپسیٹ ہو جاتے ہیں سر میں درد ۔بے چینی ۔گھبراہٹ ۔اور اگر یہ صورتحال شدید نوعیت اختیار کر لے تو شدید ڈیپریشن کی صورت میں دماغی فرق لگ سکتا ہے جس کے نتیجے میں ہم خود کو یا کسی دوسرے کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔دنیا میں خودکشی کے واقعات اسی وجہ سے ہی ہوتے ہیں ورنہ ہوش حواس درست ہونے کی صورت میں کون ہو گا جو زندگی جیسی انمول نعمت کو لٹا دے۔
اسی صورتحال سے کشف دوچار ہو چکی تھی۔
وہ اسی طرح چلاتے ہوئے اپنے ہوش وحواس کھو بیٹھی ۔اور بچے کی گردن کو دبانے لگی ۔میں مار دوں گی اس کو --------- مجھے ڈس لے گا یہ۔-------- میں مار دوں گی
اسی لمحے نعمان اندر داخل ہوا یہ صورتحال دیکھ کے فوراًکشف کی طرف لپکا اور بچے کو بچانے کی کوشش کرنے لگا
بچہ اب نعمان کے ہاتھوں میں تھا اس کی چھوٹی سی گردن پر کشف کے ہاتھوں کے نشان نمایاں تھے بچہ دم توڑ چکا تھا۔
نعمان کشف کی طرف دیکھ کر چلایا یہ کیا کیا پاگل عورت ۔اپنے ہی بچے کو مار ڈالا۔
یہ میرا بچہ تھا ۔-----------میں
میں سپنی تھی سپنی ۔کھا لیا اپنے بچے کو ۔ہاہاہاہا
بہت علاج کروایا گیا مگر کشف سنبھل نہ سکی ۔ اب وہ عام لوگوں کے ساتھ گھر میں رکھنےکےقابل نہ تھی لہذا کچھ عرصے کے بعد کشف کو دماغی مریضوں کے ہسپتال میں بھیج دیا گیا جہاں وہ ہر وقت اپنے بال نوچتے ہوئے زندگی کے دن پورے کر رہی ہے۔
محبت آج کے دور میں ناپید ہے بس ہوس کا راج ہے خدا کے لیے ہوش سے کام لینا پیاری بچیوں۔ دماغ سے سوچ کر قدم اٹھانا۔
روحان جیسے لوگ ہر جگہ موجود ہیں ۔ دوسروں کی عزتوں سے کھیل کر سائیڈ مار جانا ان کا مشغلہ ہے ۔بیشک خدا نے ایسے لوگوں کی رسی کو ڈھیل دے رکھی ہے مگر وہ بھی اسی جگ پر اپنا انجام دیکھ کر جائیں گے۔
اللہ کا فرمان ہے
ایسے شخص کو اس وقت تک موت نہ آئے گی جب تک وہ اپنی عزت کا جنازہ اٹھتا دیکھ نہ لیں۔
معافی کی صورت میں بھی کچھ نہ کچھ خمیازہ تو بھگتنا ہی پڑتا ہے ۔کشف نعمان کی بے پرواہیوں سے ہی تو غلط رستے پر چلی تھی پھر سنبھل نہ سکی۔کیا ہوا جو نعمان نے خدا سے معافی مانگ لی اور اللہ نے معاف بھی کر دیا ہو گا۔
لیکن کشف کی زندگی تباہ ہو گئی اس کی معافی نہ ہوئی۔
1 comment:
Niceeeee
Post a Comment